گروی آنکھ

گروی آنکھ
شکیل فاروقی
ایک تھا شہر۔ صاف ستھرا، چھوٹا، مگر خوبصورت۔ اس میں رہتا تھا ہیروں کا سوداگر۔ اس کے تھے دو دوست۔ بہت گہرے، بہت پکّے۔ ان میں ایک دوست تھا لنگڑا۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کے لیے ملک در ملک جایا کرتا تھا۔ دوسرا دوست تھا کانا۔ ہیروں کا سوداگر اسے پیار سے "کانیا" کہہ کر پکارتا تھا۔
تینوں دوستوں میں بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ ایک بار لنگڑا تاجر تجارت کے سلسلے میں عرب ممالک کے دورے پر گیا۔ اس دوران میں ہیروں کے تاجر کا انتقال ہو گیا۔
کچھ عرصے تک کانیا ہیروں کے تاجر کے کاروبار کی نگرانی کرتا رہا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ کاروبار بہت ہی نفع بخش ہے تو اس کے دل میں بےایمانی آ گئی۔ اس نے ہیروں کے سوداگر کے بھولے بھالے لڑکے کو جال میں پھنسانے کی ترکیبیں شروع کر دیں۔
ایک صبح جب سوداگر کا لڑکا دکان کھول کر بیٹھا تو کانیا نے بڑے پیار سے اس سے کہا، "دیکھو بیٹے! اب تمہارا کاروبار سنبھل گیا ہے۔ اب میں اپنی تجارت کے سلسلے میں نکلنا چاہتا ہوں، اس لیے اب تم میری آنکھ مجھے واپس کردو۔"
"کیسی آنکھ انکل!" لڑکے نے حیرت سے پوچھا۔
"بیٹے! ایک مرتبہ مجھے پانچ سو روپے کے سخت ضرورت پڑ گئی تھی۔ تب میں نے اپنی نہایت قیمتی آنکھ تمہارے ابّا کے پاس گروی رکھوا کر ان سے پانچ سو روپے لے لیے تھے۔ تم وہ آنکھ تلاش کرو۔ کہیں نہ کہیں رکھی ہوئی ہوگی۔ بس جیسے ہی مل جائے مجھے واپس کر دینا۔" کانیا نے مکاری سے کہا۔
بھولے بھالے لڑکے نے کانیا کی باتوں میں آ کر ساری دکان الٹ پلٹ کر رکھ دی اور سارا گھر چھان مارا، لیکن آنکھ کہیں نہ ملی۔ بےچارا رات بھر سوچتا رہا کہ پتا نہیں ابّا نے کانیا انکل کی آنکھ کہاں رکھ چھوڑی ہے۔ اگر آنکھ نہ ملی تو بےچارے انکل ایک آنکھ ہی کے رہیں گے۔ لڑکے کو اپنے ابّا کی بھول پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر اور زیادہ پریشان ہو رہا تھا کہ اگر ابّا جی دوسرے لوگوں کی آنکھیں گروی رکھ کر اسی طرح بھول کر الله کو پیارے ہوگئے ہیں تو پھر وہ اتنے سارے لوگوں سے کیسے نمٹے گا اور اپنی جان کیوں کر چھڑائے گا۔
دوسرے دن وہ پریشانی کی حالت میں دکان پر پہنچا۔ تھوڑی ہی دیر بعد کانیا آ دھمکا اور بولا، "کیوں بیٹے! میری آنکھ لے آئے؟"
"انکل! آپ کی ہی نہیں، کسی کی بھی آنکھ نہیں ملی۔ پتا نہیں ابّا جی نے کہاں رکھ چھوڑی۔" لڑکے نے پریشان لہجے میں جواب دیا۔
چالاک کانیا نے اپنی دوسری آنکھ ملتے ہوئے کہا، "میری یہ آنکھ خراب ہو چلی ہے۔ میں تو اب کسی کام کا نہیں رہوں گا۔ تم ہرجانے کے طور پر مجھے دو ہیرے دے دو۔"
"انکل! بس ایک روز اور ٹھہر جائیے۔ ذرا میں اپنی اماں سے بھی معلوم کر لوں۔ شاید ابّا جی نے ان کے پاس رکھ چھوڑی ہو۔ اماں اپنے بھائی سے ملنے گئی ہوئی ہیں۔ بس واپس آنے ہی والی ہیں۔"
"چلو ٹھیک ہے، لیکن اگر کل بھی تم نے میری آنکھ واپس نہ لوٹائی تو پھر ہرجانے کے طور پر دو ہیرے میرے لیے لیتے آنا۔" کانیا نے لڑکے کو پھسلاتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔
سوداگر کا لڑکا پریشانی کے عالم میں دکان پر بیٹھا تھا کہ مرحوم سوداگر کا لنگڑا دوست ادھر آ نکلا۔ لڑکا اس کی آمد پر اور بھی سہم گیا۔ وہ سمجھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لنگڑے نے اپنی ایک ٹانگ بھی اس کے باپ کے پاس گروی رکھوائی ہو اور اب وہ اسے واپس مانگنے کے لیے آیا ہو۔
"آپ بھی ابّا کے پاس گروی رکھوائی ہی اپنی ٹانگ واپس لینے آئے ہیں شاید۔" اس نے سہمے ہوئے انداز میں لنگڑے سے کہا۔
"کیا بک رہے ہو تم؟ ٹانگ بھی کوئی گروی رکھوانے کی چیز ہے۔" لنگڑے نے سوداگر کے لڑکے کو گھورتے ہوئے کہا۔
پھر لڑکے نے کانیا والی بات لنگڑے چاچا کو بتا دی۔ لنگڑے کو کانیا کی اس حرکت پر بڑا غصّہ آیا، پھر اس نے لڑکے کو سمجھاتے ہوے کہا، "بیٹا سنو! جب کانیا تمہارے پاس آئے تو اس سے کہنا کہ ابّا کا آنکھوں والا ڈبّا مل گیا ہے۔ آپ اپنی آنکھ نکال کر دے دیجیے تاکہ اس سے ملا کر آپ کی آنکھ تلاش کر لی جائے اور آپ کو لوٹا دی جائے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت سی آنکھوں میں سے کسی دوسرے کی آنکھ آپ کو دے ڈالوں۔" لڑکا لنگڑے چاچا کی عقلمندی کا قائل ہو گیا۔
اگلے دن جب وہ دکان پر پہنچا تو کانیا اس کے انتظار میں پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ لڑکے کو دیکھتے ہی بولا، "کہو بیٹا! معلوم کیا میری آنکھ کے بارے میں اپنی اماں سے؟"
لڑکے کو کانیا کی چالاکی پر دل ہی دل میں بہت ہنسی آئی، لیکن اس نے اپنے تاثرات کو ظاہر نہ ہونے دیا اور نہایت معصومانہ انداز میں کانیا سے کہا، "انکل! وہ آنکھوں والا ڈبّا تو مل گیا ہے، لیکن دوسرے بہت سے لوگوں کی آنکھیں بھی اس میں رکھی ہوئی ہیں۔ آپ مہربانی کریں اور اپنی یہ آنکھ نکال کر مجھے دے جائیں تاکہ میں اس سے ملا کر آپ کی آنکھ آپ کو واپس لوٹا دوں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کسی دوسرے کی آنکھ آپ کے پاس آ جائے۔ لائیے، جلدی کیجیے۔"
چالاک کانیا کو بھولے بھالے لڑکے سے ایسے جواب کی توقع نہ تھی۔ وہ بری طرح بوکھلا گیا اور بولا، "میں گھر جاتا ہوں اور یہ آنکھ نکال کر تھوڑی دیر بعد واپس تمہارے پاس آتا ہوں۔" یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا چلا گیا۔
"انکل! آنکھ نکال کر ذرا جلدی واپس آئیے گا۔ مجھے کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔" لڑکے نے پیچھے سے آواز دی۔
لیکن کانیا تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔
٭٭٭​
 

عمراعظم

محفلین
بہت عمدہ شراکت۔۔۔۔ بے وقوفی کی حد تک معصومیت اور اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہوئی چالاکی دونوں نقصان دہ ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
انیس بھائی! اب تک کی ٹائپ کی ہوئی تمام کہانیوں کو جمع کر کے ایک کتاب بنا لیں اور اردو لائبریری میں شامل کروا دیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بھائی مختصرکہانی پڑھ کر لُطف آگیا- بھولے بھالے لڑکے کے خیرخواہ لنگڑے چچا کا کردار بہت لاجواب ہے کہانی میں
سادہ اور سبق آموز کہانی شیئرکرنے کا شکریہ-
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اوہ بھائیوں لڑکا کوئی بھولا نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ تو باپ کی دوست ہونے کے ناطے احترام مانع تھا۔۔۔ ورنہ اصل کہانی میں تو جو لڑکے نے کیا۔۔۔ اسکے بعد سے ہی کانا اور کانیا جیسی رموز سے لوگوں نے آشنائی حاصل کی۔۔۔۔۔ :p
انیس بھائی لمبا سارا جواب ہے ذہن میں۔۔۔۔ مگر لکھنے سے قاصر ہوں۔۔۔۔ ابھی کہ مصروفیات سر اٹھانے نہیں دے رہیں۔ :)

بہت عمدہ کہانی۔۔۔ لطف آیا پڑھ کر۔۔۔ زبردست :)
 
Top