محمد ریحان قریشی
محفلین
پاس ہے ضابطوں کا چند، تیر نہیں تبر نہیں
لاگ ہے اپنے آپ سے، جنگ و جدل مگر نہیں
میں ہوں بدیع و شادماں یا کہ ملول و شرمسار
اس پہ قیاس کچھ نہ کر مجھ کو بھی کچھ خبر نہیں
رکھا ہوا ہے بخت نے کسوتِ ارتباط میں
یہ تو ہے سب پہ آشکار مجھ میں کوئی ہنر نہیں
بکھرے ہوئے ہیں سب خیال، شعر ہو کیوں نہ لخت لخت
ذہن کا ترجماں تو ہے، گرچہ کہ پراثر نہیں
میری قضا سے مسئلے سارے تو حل نہ ہو سکے
پر ہے شرف یہی بہت، کوئی بھی چشم تر نہیں
لاگ ہے اپنے آپ سے، جنگ و جدل مگر نہیں
میں ہوں بدیع و شادماں یا کہ ملول و شرمسار
اس پہ قیاس کچھ نہ کر مجھ کو بھی کچھ خبر نہیں
رکھا ہوا ہے بخت نے کسوتِ ارتباط میں
یہ تو ہے سب پہ آشکار مجھ میں کوئی ہنر نہیں
بکھرے ہوئے ہیں سب خیال، شعر ہو کیوں نہ لخت لخت
ذہن کا ترجماں تو ہے، گرچہ کہ پراثر نہیں
میری قضا سے مسئلے سارے تو حل نہ ہو سکے
پر ہے شرف یہی بہت، کوئی بھی چشم تر نہیں
آخری تدوین: