نوشی گیلانی گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے۔ نوشی گیلانی

شعیب صفدر

محفلین
گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے

تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کھلا
کچھ اور لوگ بھی اس میں کلام رکھتے تھے

یہ اور بات ہے ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رت سے بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت مقام رکھتے تھے

وہ آتو جاتا کبھی ہم تو اس کے رستوں پر
دیئے تو جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
نوشین گیلانی
 

شعیب صفدر

محفلین
شاعر کا نام

میں نے عنوان میں شاعر کا نام لکھا ہے مگر نہ معلوم کیوں نہیں آرہا بہرحال میں غزل کے آخر میں تحریر کر دیا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے- از نوشی گیلانی

گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے

تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کُھلا
کچھ اور لوگ بھی اِس گھر میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی،ہم تو اُس کے رستوں پر
دیئے جلاتے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
 
Top