امیر مینائی گریہ بے سود ہے نالے دلِ ناشاد عبث

باباجی

محفلین
گر یہ بے سود ہے نالے دلِ ناشاد عبث
داد رس کوئی نہیں شکوۃ بیداد عبث

کھنچ گئی روح بدن سے تری شمشیر کے ساتھ
حوصلہ دار لگانے کا ہے جلاد عبث

ایک رنگ آتا ہے یاں ضعف سے اک جاتا ہے
رنگ بھرتا مرے نقشے میں ہے بہزاد عبث

بندہ ہوں تیری محبت کا میں جاؤں گا کہاں
بند کرتا ہے قفس میں مجھے صیاد عبث

ایک مشتاق شہادت بھی تو جوہر نہ ہوا
تجھ میں جوہر ہیں اے خنجرِ فولاد عبث

وہ گل آیا ہے نہ آئے گا کبھی گلشن میں
سروقد اٹھتے ہیں تعطیم کو شمشاد عبث

داد بھی دے گا وہی جس نے یہ کی ہے بیداد
دوڑتی پھرتی ہے ہر سُو مری فریاد عبث

لاکھوں گھر اور ہیں دل میں میرے کیا رکھا ہے
کرتی ہے خانہ خرابی اسے برباد عبث

عمر رفتہ پہ تاسف سے نہیں کچھ حاصل
وہ ہمیں بھول گئے کرتے ہیں ہم یاد عبث

سُن کے درد دل عشق یہ کہتا ہے وہ بت
بندے اللہ کے ہو، مجھ سے ہے فریاد عبث

بال بال اس کا گرفتار بلا ہوتا ہے
بندۃ عشق کو سب کہتے ہیں آزاد عبث

جان دی کام میں معشوق کے سب کچھ پایا
کون کہتا ہے کہ تھی محنت فرہاد عبث

انبیا تک رہے پابند شریعت کے امیر
ظاہری قید سے گھبراتے ہیں آزاد عبث

امیر مینائی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
انبیا تک رہے پابند شریعت کے امیر
ظاہری قید سے گھبراتے ہیں آزاد عبث

واہ ۔ بہت خوب۔ ایسا اچھا کلام شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ فراز ! :)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب انتخاب ہے ۔۔۔۔۔۔
بندہ ہوں تیری محبت کا میں جاؤں گا کہاں
بند کرتا ہے قفس میں مجھے صیاد عبث

بہت دعائیں
 

عباس اعوان

محفلین
سُن کے درد دل عشق یہ کہتا ہے وہ بت
بندے اللہ کے ہو، مجھ سے ہے فریاد عبث
بہت خوب۔
بہت عمدہ انتخاب۔
شکریہ برادر۔۔۔۔۔
 
Top