گر اے ماہی کھڑے کچے بھی ہوں آنا پڑے گا(اصلاح فرمائیے)

راشد ماہیؔ

محفلین
انکو انہی کا کہا یاد دلانا پڑے گا
کہ میاں عشق کیا گر تو نبھانا پڑے گا

پار وہ یار بلائے گا تو جانا پڑے گا
گر اے ماہی کھڑے کچے بھی ہوں آنا پڑے گا

رستہِ عشق ہے یہ کوئی تماشہ تونہیں
روشنی کے لیے یاں دل بھی جلانا پڑے گا

دلِ خود سے چلے گا تو کوئی دوری نہیں ہے
درمیاں تیرے مرے ایک زمانہ پڑے گا

کتنا پاگل ہے مری سانس لے کے بولا طبیب
زندہ رہنے کے لیے تجھکو بھلانا پڑے گا

جاں نکل جائے گی جاں دل نہیں بہلے گا مرا
دل کے بہلانے کو جاناں تجھے آنا پڑے گا

نینوں سے کیوں نہیں پڑتے مرا حالِ دل تم
چارہ گرکیا یوں اک اک زخم دکھانا پڑے گا

کتنے سادہ ہیں کہ ہر مکھ پہ بھروسہ کر لیں
کتنے یاروں سے ہمیں اور دغا کھانا پڑے گا

نت نئے شک کیے رہتا ہے محبت پہ مری
لگتا ہے ماہیؔ کو اب مر کے دکھانا پڑے گا
 

الف عین

لائبریرین
ردیف اگر "دکھانا ہو گا" ہو تو روانی بہتر محسوس ہوتی ہے۔ کئی مصرعے بحر سے خارج ہیں۔ کیا تخلص واقعی ماہی رکھنا ضروری ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
یہ خارج از بحر ہیں
دلِ خود سے چلے گا تو کوئی دوری نہیں ہے

کتنا پاگل ہے مری سانس لے کے بولا طبیب
معذرت کہ محض دو مصرع ہی خارج ہیں میں نے پہلے سرسری طور پر دیکھا تھا۔ لیکن بحر اور تقطیع درست ہونے کے باوجود حروف کا اکثر جگہ غلط اسقاط ہے۔ اس لیے بندش اور روانی پر اثر پڑتا ہے
 

راشد ماہیؔ

محفلین
دلِ خد سے(فعلاتن
چ لِ گا تو(فعلاتن
کوئی دوری(فعلاتن
نہیں ہے(فعلن

سرکار الف عین
یہ ٹھیک نہیں ہے
عروض۔کام بھی ٹھیک دکھاتی ہے
باقی آ پ فرمائیے،،،
 

راشد ماہیؔ

محفلین
ایک بات دھیان میں رہے کہ عروض استاد نہیں ہے۔
اس سے مدد شروع میں ضرور لیں، مگر اسے حتمی نہ سمجھیں۔ باقی خود غور کریں کہ ایک حد سے زیادہ اسقاط بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ :)
سمجھیائیے تو سہی صاحب!
کہاں کہاں کوتاہیاں ہیں
برائےکرم۔۔۔۔
 

راشد ماہیؔ

محفلین
اب دیکھیے صاحبان!
برائے کرم ساتھ ساتھ شعر کی نشاندہی بھی کیجیے۔۔۔۔

جیسے ہی ہم چلیں گے پیچھے زمانہ ہوگا
دل تو کیا پتھروں کو بھی چلےآنا ہوگا
حسن سے تو مرے محبوب کے کترا کے گزر
مہ تجھے مان بہت روپ کا مانا ہوگا
تمھیں کیوں شک ہے بھلا ہم پہ مسلمانی کا
دل میں کیا جھانکتے ہو اک بت خانہ ہوگا
رات بھر ہائے وہ تیرے در نالوں کی پکار
پھر تڑپ کے مَرا کوئی دیوانہ ہوگا
شمع یہ کون پڑا ہے ترے قدموں پہ جلا
چوم بیٹھا سرِ محفل پروانہ ہوگا
قول تم کو وہ تمھارا ہی صنم یاد ہے نا !
کہ پیا عشق کیا گر تو نبھانا ہو گا
پار وہ یار بلائے گا تو جانا ہوگا
گر اے ماہی کھڑے کچے بھی ہوں آنا ہوگا
رستہِ عشق ہے یہ کوئی تماشہ تونہیں
روشنی کے لیے یاں دل بھی جلانا ہوگا
اے مرے چارہ گرو تم تو کہا کرتے تھے
زندگی باہوں کا تری سرہانہ ہو گا
دلِ خود سے جو چلو گے تو کوئی دوری نہیں
درمیاں تیرے مرے ایک زمانہ ہوگا
دشمنوں سے بھری محفل میں بلا کے کہے وہ
مسکرانا پڑے گا جشن منانا ہوگا
اپنا دل مانے نہ اور عشق تقاضا ہے کہ اب
جہاں والوں کو بھی ہم نےسمجھانا ہوگا
چھین کے سانسیں مری کہتا ہے خبطی طبیب
زندہ رہنے کے لیے تجھ کو بھلانا ہوگا
جاں نکل جائے گی جاں دل نہیں بہلے گا مرا
دل کے بہلانے کو جاناں تجھے آنا ہوگا
نینوں سے کیوں نہیں پڑتے مرا حالِ دل تم
چارہ گرکیا یوں اک اک زخم دکھانا ہوگا
کتنے سادہ ہیں کہ ہر مکھ پہ بھروسہ کر لیں
کتنے یاروں سے ہمیں اور دغا کھانا ہوگا
نت نئے شک کیے رہتا ہے محبت پہ مری
لگتا ہےاب تجھے مر کے دکھانا ہوگا
توبہ توبہ شبِ ہجراں نہ کٹے ہے ہم سے
اب تو جاں سے ہی گزر جانا کہ جانا ہوگا
بھول ہی جائیں گے ہم صدمے سبھی محشر کے
سامنے جیسے ہی منظر جانانہ ہوگا
جام ہاتھوں سے اٹھانے کی نہیں اب ہمت
بیٹھ کے بالیں پہ نینوں سے پلانا ہوگا
کب یہ معلوم تھا کم بخت محبت ماہی ؔ
شہر بھر کے غموں کا ایک ٹھکانہ ہوگا
 
ایک مثال لیجیے
جیسے ہی ہم فاعلاتن ے گرایا گیا
چلیں گے پی فَعِلاتن یں گرایا گیا
چھے زمانہ فَعِلاتن ے گرایا گیا
ہو گا فعلن
اس مصرع میں چار حروف گرائے ہیں۔ خاص طور پر یں دونوں کو اکٹھا گرانے سے پرہیز کریں

دل تو کیا پت فاعلاتن
تھروں کو بھی فَعلاتن وں گرایا گیا
چلے آنا فَعِلاتن ے گرایا گیا
ہو گا فعلن
یہاں بھی تین حروف گرائے گئے۔
خاص طور پر پتھروں کا وں گرانا بھلا معلوم نہیں ہو رہا۔

اب اسی نہج پر پوری غزل کا جائزہ لے کر سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ :)
 

راشد ماہیؔ

محفلین
آپ نے چلیں کا یں کہا اور کہا کہ دو حروف گرائے ہیں
مگر ن غنہ کا تو پہلے ہی وزن کوئی نہیں ہوتا تو دو کیسے گرے؟؟
اسی طرح پتھروں کے وں میں بھی ایک حرف گرایا گیا
اسکی مگر اجازت بھی ہے نا
ذرا مفصل بتائیے کہ
کیا کوئی حرف بھی نہیں گرا سکتے؟
کیا اساتذہ کے ہاں مثالیں نہیں؟
اگر گرا سکتے ہیں تو کیا معیار ہونا چاہیے؟
ڈت کے تنقید کیجئیے
مگر مفصل۔
میں جانتا ہوں کہ
مرے لیے یہ ایک نعمت ہے !
 
آخری تدوین:
آپ نے چلیں کا یں کہا اور کہا کہ دو حروف گرائے ہیں
مگر ن غنہ کا تو پہلے ہی وزن کوئی نہیں ہوتا تو دو کیسے گرے؟؟
اسی طرح پتھروں کے وں میں بھی ایک حرف گرایا گیا
اسکی مگر اجازت بھی ہے نا
ذرا مفصل بتائیے کہ
کیا کوئی حرف بھی نہیں گرا سکتے؟
کیا اساتذہ کے ہاں مثالیں نہیں؟
اگر گرا سکتے ہیں تو کیا معیار ہونا چاہیے؟
ڈت کے تنقید کیجئیے
مگر مفصل۔
میں جانتا ہوں کہ
مرے لیے یہ ایک نعمت ہے !
ہیارے بھائی وزن نہ ہونا مختلف بات ہے، حرف کا موجود ہونا مختلف۔
بالکل ایسے جیسے جانا اور جاناں ہم وزن تو ہیں مگر ہم قافیہ نہیں۔ ں بحیثیت حرف موجود ہوتا ہے۔
میں نے ناجائز نہیں کہا، بلکہ یہ کہا ہے کہ حد سے زیادہ حروف کو گرانے سے گری کریں۔
اس سے شعر کی روانی میں کمی آتی ہے۔ جو شعر کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔
جیساکہ اوپر لکھا کہ بھلا معلوم نہیں ہو رہا۔ قاری کو پڑھنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔
 

راشد ماہیؔ

محفلین
ہیارے بھائی وزن نہ ہونا مختلف بات ہے، حرف کا موجود ہونا مختلف۔
بالکل ایسے جیسے جانا اور جاناں ہم وزن تو ہیں مگر ہم قافیہ نہیں۔ ں بحیثیت حرف موجود ہوتا ہے۔
میں نے ناجائز نہیں کہا، بلکہ یہ کہا ہے کہ حد سے زیادہ حروف کو گرانے سے گری کریں۔
اس سے شعر کی روانی میں کمی آتی ہے۔ جو شعر کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔
جیساکہ اوپر لکھا کہ بھلا معلوم نہیں ہو رہا۔ قاری کو پڑھنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔
کرم سرکار آپ کا
مگر میں بات کو پکڑ نہیں پا رہا
کہ برائے کرم اسقاط کا معیار کیا ہے؟ تفصیلاََ سمجھا دیجئے
 
کرم سرکار آپ کا
مگر میں بات کو پکڑ نہیں پا رہا
کہ برائے کرم اسقاط کا معیار کیا ہے؟ تفصیلاََ سمجھا دیجئے
ایک اصول جو واضح طور پر موجود ہے وہ یہ کہ عربی اور فارسی الاصل الفاظ میں حروف کا گرانا جائز نہیں ہے۔
باقی کے لیے اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ شعر کی روانی متاثر نہ ہو۔ اتنا ہی اسقاط ہو جتنا پڑھنے میں بھلا معلوم ہو۔
 
Top