گر پھول غزل گائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

گر پھول غزل گائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
بلبل کوئی کِھل جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

اژدر کوئی شرمائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
کانٹا کوئی مرجھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب ٹوٹی ہوئی شاخ کوئی فرشِ چمن سے
اٹھ پیڑ سے لگ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب وقت کا یہ قافلۂ ریگِ رواں بھی
منزل کا نشاں پائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

صحرا کی جب آوارہ ہوا چاند سے جا کر
صندل کی مہک لائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جب دھوپ کی شدت سے مرے شیشۂ دل کا
سایہ بھی پگھل جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

ندی کو پھسلنے سے جو روکے کوئی تارہ
اور آپ ہی بہہ جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

احساس کی امکان پذیری کا تصور
'لگنے' سے جو کترائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان بھائی ، روایتی مضامین سے بغاوت اور انحراف اپنی جگہ لیکن روایت کو کچھ زیادہ ہی توڑ پھوڑ دیا آپ نے کچھ اشعار میں ۔
مثلاً اژدر کا شرمانا اور کانٹوں کا مرجھانا نہ صرف یہ کہ حیطۂ تخیل و تصور میں نہ آسکا بلکہ دونوں مصرعوں کا باہمی ربط بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ ستارے کا ندّی کو پھسلنے سے روکنے کی کوشش کرنا بھی دور دور سے گزرگیا ۔ :):):) کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
 
ریحان بھائی ، روایتی مضامین سے بغاوت اور انحراف اپنی جگہ لیکن روایت کو کچھ زیادہ ہی توڑ پھوڑ دیا آپ نے کچھ اشعار میں ۔
مثلاً اژدر کا شرمانا اور کانٹوں کا مرجھانا نہ صرف یہ کہ حیطۂ تخیل و تصور میں نہ آسکا بلکہ دونوں مصرعوں کا باہمی ربط بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ ستارے کا ندّی کو پھسلنے سے روکنے کی کوشش کرنا بھی دور دور سے گزرگیا ۔ :):):) کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
تبصرے کا بہت شکریہ ظہیر بھائی۔ یہ غزل کچھ طنزیہ نوعیت کی ہے۔ جاں نثار اختر کی اس زمین میں غزل بہت اچھی ہے وہ دماغ میں گھوم رہی تھی۔ اگر جدید ناقدین کی نظر سے اختر کی غزل پر تجزیہ کروں تو شاید یہ مفہوم برآمد ہو کہ کچھ فطری اور کچھ خیالی مظاہر اختر کو کسی شخص کی یا د دلاتے ہیں۔ ایسے مضامین میرے لیے اختراع کرنا کچھ مشکل ہے، خیالی مظاہر کی البتہ کچھ محنت سے ایک تجریدی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ خیال تو حدو د و قیود سے ماورا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تبصرے کا بہت شکریہ ظہیر بھائی۔ یہ غزل کچھ طنزیہ نوعیت کی ہے۔ جاں نثار اختر کی اس زمین میں غزل بہت اچھی ہے وہ دماغ میں گھوم رہی تھی۔ اگر جدید ناقدین کی نظر سے اختر کی غزل پر تجزیہ کروں تو شاید یہ مفہوم برآمد ہو کہ کچھ فطری اور کچھ خیالی مظاہر اختر کو کسی شخص کی یا د دلاتے ہیں۔ ایسے مضامین میرے لیے اختراع کرنا کچھ مشکل ہے، خیالی مظاہر کی البتہ کچھ محنت سے ایک تجریدی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ خیال تو حدو د و قیود سے ماورا ہے۔
درست! جدید شاعری کا فلسفہ تو کم و بیش یہی ہے کہ فطری اور خیالی مظاہر کو علامات بناتے ہوئے جدید دنیا اور جدید آدمی کے تجربات و احساسات کو شعری روپ دیا جائے ۔ اس تخلیقی کاوش میں تجرید کا ایک پہلو تو لامحالہ پیدا ہوگا لیکن اس تجرید کا دامن کسی نہ کسی سطح پر معلوم و معروف روایات سے کچھ اس طرح جڑا ہونا چاہئے کہ ابلاغ کی صورت نکل آئے ۔ ورنہ قاری اندھیرے ہی میں رہے گا ۔ اس ضمن میں ن م راشد، میرا جی ، منیر نیازی وغیرہم کی بعض نظمیں عمدہ مثال ہیں ۔
 
Top