اک انسان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جانے کیسی خواب گاہ تھی.... نہ یہ جگہ کسی غریب کی جھونپڑی تھی نہ امیر زادوں کے محل کا کوئی کمرہ۔ تاحدِ نظر ہر نفس نیند میں گم.... زمین و آسمان ایک ہی رنگ کے نظر آرہے تھے‘ چاند تھا نہ سورج مگر ہر شخص کے گرد نور کا ہالا بنا ہوا تھا۔ جدھر نظر جائے اُدھر قطار میں پڑے خوابیدہ بدن دکھائی دیں جیسے کسی بڑے سے قبرستان میں زمین نے مردے اُگل دیئے ہوں!! کچھ کے چہروں پر دلکش خواب کی چمک تھی تو کچھ مضطرب.... سب اپنے اپنے خوابوں میں یوں گم کہ کروٹ بدلنے کا تکلف بھی نہیں کر رہے تھے۔ مجھے بھی اتحادِ اُمت کا نشہ چڑھ گیا اور پلکیں بوجھل ہونے لگیں‘ مگر یہاں تو سب ایسے سورہے تھے جیسے اِن کےلئے یہ جگہیں مخصوص ہوں۔ اپنا ٹھکانہ ڈھونڈنے کیلئے چلنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ کچھ محسوس نہیں ہورہا!! شائد نیند کی طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے پاﺅں سن ہوگئے تھے‘ یا پھر کوئی اور وجہ.... جگہ تلاش کرنے کیلئے ذرا آگے بڑھا تو ایک شخص کے چہرے پر بیچینی کے آثار دیکھے اور اُس نے دوسروں کی روایت توڑتے ہوئے کروٹ بھی بدل لی تھی‘ جیسے جاگنا چاہتا ہو!! بالآخر ایک انگڑائی لیکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہونقوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھنے لگا.... ”جاگنے“ کی کوئی خوشی اُس کے چہرے پر نظر نہ آتی تھی‘ اِک عجب خوف‘ اِک پریشانی کا احساس.... خواب ٹوٹ جانے کا افسوس!! کرب کی لہریں اُس کے چہرے پر نمایاں ہونے لگیں‘ وہ اُٹھا اور بھاگ کر کہیں اندھیرے میں گم ہوگیا۔ میری حالت نیند سے غیر ہورہی تھی اور مجھے اُس وقت سوائے نیند کہ کچھ اور نہیں سوجھا‘ جگہ مل چکی تھی.... اُس شخص کی جگہ پر جا کر لیٹ گیا‘ دماغ میں خیالات کا ہجوم اپنی جگہ مگر نیند کا غلبہ سب پر بازی لے گیا‘ پلکیں بوجھل ہوتے ہوتے مکمل بند ہوگئیں.... اور میری آنکھ کھل گئی!! رات کو سونے سے قبل سائیڈ ٹیبل پر رکھی پانی کی بوتل اُٹھا کر پانی پیا اور سوچنے لگا.... کتنا عجیب خواب تھا!! اور پھر دوسرا خیال.... کتنا عجیب خواب ”تھا“ یا کتنا عجیب خواب ”ہے“....؟؟ پانی کا گھونٹ بھی گلے میں اٹکتا ہوا محسوس ہوا‘ یہ خیال ہی پریشان کن تھا کہ جو دیکھا وہ خواب تھا یا جو دیکھ رہا ہوں وہ خواب ہے....!!
جس طرح خواب میں علم نہیں ہوتا کہ جو کچھ دیکھا جا رہا ہے وہ تو بس اِک خواب ہے اسی طرح زندگی کے سفر میں بھی کہیں محسوس نہیں ہوا۔ اس خواب میں بھی نہ جانے کتنے خواب سجائے‘ سوئے بھی اور جاگے بھی۔ رشتے ناطے ملے‘ زندگی کا ہر لطف اُٹھایا ویسے ہی جیسے ہر خواب کا خاصہ ہوتا ہے‘ کہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ تو بس اِک خواب ہے.... ہر شب سوئے ہر صبح جاگے لیکن کبھی قدرت کے اِس نظام پر غور نہیں کیا کہ اِنسان کی فطرت میں یہ سونا جاگنا اور سوتے میں خواب دیکھنا آخر ہے کس لئے؟؟ نسلاً مسلمان رہے‘ قرآن پڑھا مگر کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ”کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے!!“
کبھی خوابوں کی حسین وادیوں سے واپس آئے‘ آنکھ کھلی تو مایوسی ہوئی‘ افسوس رہا کہ یہ تو بس اِک خواب تھا اور اِک ”کاش“ لبوں پر مچلتا رہ گیا....!! لیکن رحمن کا کیا عجب احسان ہے کہ اِنسان کو ایک ایسا خواب دیکھنے کی اِجازت ملی جس پر اُس کا مکمل اختیار ہے‘ جو چاہے دیکھے‘ جیسا چاہے دیکھے.... اِس خواب میں اِنسان نے اپنے کیسے کیسے خوابوں کو تعبیر دی‘ سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں حقیقت لگتی ہیں‘ فضاﺅں میں اُڑتے جہاز حقیقت لگتے ہیں‘ سمندر کا دل چیرتی کشتیاں حقیقت لگتی ہیں.... حقیقت یا محض خواب میں دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر؟ اور اُس ایک خواب کا کیا؟؟ آنکھ کھلے تو افسوس‘ مایوسی‘ کرب اور ایک ”کاش“۔ کاش کے واپس خواب دیکھنے کیلئے پلٹ جائیں!! کاش آنکھ نہ کھلتی!! کاش کہ یہ خواب کا سلسلہ نہ ٹوٹا ہوتا!! کیا ہم بھی اُس شخص کی طرح ہڑبڑا کر اُٹھیں گے اور اندھیروں میں گم ہو جائیں گے؟؟
کتنا پاک ہے وہ پروردگار جس نے اِک خواب اِنسان کو اُس کی مرضی کے مطابق دیکھنے کی اِجازت دی ہے‘ ہم چاہیں تو لب پر ”کاش“ کی بجائے ”شکر“ کا ورد کرتے اُٹھیں‘ گر ہم چاہیں....!!