اسد قریشی
محفلین
بزم میں اصلاح کا سلسلہ دیکھا بہت پسند آیا، یہی سوچ کراپنی ایک کاوش خام احباب کی نزر کر رہا ہوں اس امید پر کے رہنمائی فرمائیں گے۔
تشنگی ہونٹوں پہ ہے اور خواب پیاسے آنکھ میں
حسرتیں دل میں چھپی ہیں اور دلاسے آنکھ میں
وقت رخصت جو نمی آنکھوں میں در آئی تھی وہ
گرد اڑ کر آ گئی ہوگی ہوا سے آنکھ میں
حسرتیں جو دل میں تھیں وہ خودکشی کرتی گئیں
بھیگے بھیگے خواب ہیں کچھ بے ریا سے آنکھ میں
دوستوں کا آج بھی احسان مجھ پر اتنا ہے
ایک چشمہ ہے رواں انکی دعا سے آنکھ میں
اب زمینِ دل پہ آتا موسمِ گل تو نہیں
پھول کیوں پھر کھل رہے ہیں خوشنما سے آنکھ میں
بیچ آئے تھے سبھی ہم خواہشیں بازار میں
رہ گئے پھر بھی اسد ، ارماں ذرا سے آنکھ میں
اسد قریشی