گزرا وہ جدھر سے وہ ہوئی راہ گزر نُور (محمد اعظؔم چشتی)

گزرا وہ جدھر سے وہ ہوئی راہ گزر نُور
اُس نُورِ مجسم کی ہے ہر شام و سحر نُور

لب نُور دہاں نُور زباں نُور بیاں نُور
دل نُور جگر نُور جبیں نُور نظر نُور

گیسو کی ضیا نُور عمامہ کی چمک نُور
اُس آیہِ رحمت کی ہے ہر زیر و زبر نُور

سر تا بقدم نُور عیاں نُور نہاں نُور
ہر سمت تری نُور اِدھر نُور اُدھر نُور

کیونکر نہ ہوں زہرا و حُسین اور حَسن نُور
اس نخلِ رسالت کا ہے ہر برگ و ثمر نُور

ممکن نہیں تاعرش ہر انساں کی رسائی
ہے خاک کا گھر خاک مگر نُور کا گھر نُور

نسبت ہوئی جس کو تری خاکِ کفِ پا سے
وہ شہر وہ کوچہ وہ در و بام وہ گھر نُور

جس صبح اُتارا گیا وہ چاند زمیں پر
وہ ماہ وہ دن نُور وہ ساعت وہ سحر نُور

جس رُوئے منور پہ ہو وَالفَجر کی طلعت
بے جا نہیں گر اسکو کہیں اہلِ نظر نُور

اعظؔم کہاں دیکھا ہے مجھے یاد نہیں ہے
رہتا ہے شب و روز وُہی پیشِ نظر نُور
 
Top