عمران شناور
محفلین
گزرتے موسموں کی یاد کو زنجیر کر لیتے
اگر ہم روز و شب کی ڈائری تحریر کر لیتے
محبت نفرتوں کے دور میں ایسے نہ کم ہوتی
اگر کچھ لوگ ہی کردار کی تعمیر کر لیتے
نہیں ہے دکھ بچھڑنے کا مگر دل میں یہ حسرت ہے
تمہارا پھول سا چہرہ تو ہم تصویر کر لیتے
ہمارے پیار کا قصہ سناتا ہرکس و ناکس
ہم اپنے اس فسانے کی اگر تشہیر کر لیتے
تمہارے یوںبچھڑنے کا مداوا ہو بھی سکتا تھا
ذرا جو تم ٹھہر جاتے کوئی تدبیر کر لیتے
ہماری خواہشوں کی خودبخود تکمیل ہو جاتی
ہم اپنی ذات کو آصف اگر تسخیر کر لیتے
(آصف شفیع)
اگر ہم روز و شب کی ڈائری تحریر کر لیتے
محبت نفرتوں کے دور میں ایسے نہ کم ہوتی
اگر کچھ لوگ ہی کردار کی تعمیر کر لیتے
نہیں ہے دکھ بچھڑنے کا مگر دل میں یہ حسرت ہے
تمہارا پھول سا چہرہ تو ہم تصویر کر لیتے
ہمارے پیار کا قصہ سناتا ہرکس و ناکس
ہم اپنے اس فسانے کی اگر تشہیر کر لیتے
تمہارے یوںبچھڑنے کا مداوا ہو بھی سکتا تھا
ذرا جو تم ٹھہر جاتے کوئی تدبیر کر لیتے
ہماری خواہشوں کی خودبخود تکمیل ہو جاتی
ہم اپنی ذات کو آصف اگر تسخیر کر لیتے
(آصف شفیع)