عبدالرزاق قادری
معطل
گزرنا سن دو ہزار بارہ کا
عبدالرزاق قادری
2011 کے 21 دسمبر کو مجھے میرے دوست سید حسنین شاہ، محمود صاحب کے دفتر لے کر گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کہ ٹیلی-سیلز کی کمپنی ہے اور اب دوسرے ممالک میں قرآن مجید پڑھانے کے ادارے کا سوچ رہے ہیں۔میں نے چائے کے دوران اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔(میرا جی چاہ رہا تھا کہ مجھے چائے ملے) انہوں نے میرے خیالات سے ہم آہنگی ظاہر کی۔ مجھ سے میری تعلیم وغیرہ کا پوچھا۔ اور مطلوبہ تنخواہ کا بھی دریافت کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے شراکت دار کیریل قیسیڈی جارج سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں حیران ہوا کہ عیسائی پارٹنر کے ساتھ مل کر قرآن پاک کی تعلیمات عام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دو تین روز کے بعد دوبارہ شاہ صاحب کے ساتھ وہاں گیا تو مجھے مجوزہ ویب سائٹ، میرے کام کا دورانیہ اور تنخواہ وغیرہ کے بارے بتا دیا گیا اور میں نے اس تنخواہ پر حامی بھر لی۔ اب مجھے جنوری 2012 کے آغاز تک کا انتظار کرنے کو کہا گیا۔ جنوری کی پہلی تاریخوں میں سے میں نے فون پر ایک کال کی تو محمود علی ملک صاحب نے مجھے ایک ہفتہ مزید انتظار کا کہا کہ ویب سائٹ تیار ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں بے روزگار تھا۔ ایک بے چین سی کیفیت تھی بہر حال انتظار کیا اور 9 جنوری کو پہلی حاضری ہوئی۔ لیکن ابھی طالب علم ایک بھی نہ تھا۔ دفتر میں شام 6سے 9 بجے تک ایک ٹیم آتی تھی جو امریکہ میں سیلز کا کام کرتی تھی اور دوسری ٹیم 9 سے صبح 6 بجے تھی میں بھی آخرالذکر کے اوقات میں آتا رہا۔ تمام سیلز-ایجنٹ عیسائی تھے۔ (ان میں سے بیشتر ابھی تک کام کررہے ہیں)رات کو میرے ساتھ داؤد اور ایلن ہوتے تھے۔ محمود صاحب رات ایک بجے کے بعد گھر چلے جاتے اور کیریل صاحب ہمارے ساتھ رہتے۔یہ دفتر فیصل ٹاؤن کے سی بلاک میں تھا۔ داؤد اور ایلن تین بجے رات کے بعد قرآن ٹیچنگز کے لیے امریکہ اور کینیڈا میں کالز کرتے جبکہ اس سے پہلے وہ آئی ٹی ٹریننگ کی ایک امریکن کمپنی کے لیےکالز کرتے۔ ایلن اور داؤد انتہائی تجربہ کار ایجنٹ تھے۔ شام کی ٹیم بھی تجربہ کار اور ماہر تھی۔ محمود صاحب آن لائن قرآن کے لیے کالرز کو بھرتی کرنے کے لیے اشتہارات دینے لگے۔ کچھ نوجوان آئے بھی لیکن ایک رات کام کرنے کے بعد دوبارہ نہ آتے۔ فروری کے آخر میں محمود صاحب کی بھانجی کو امریکہ میں پڑھانے سےآغاز ہوا۔ انہی دنوں مجھے انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرتے ہوئے اردو محفل فورم مل گیا۔وہاں بھی متعارف ہوا۔ پھر کینیڈا سے ایک کنبے کے تین بچے(عبداللہ 19 سال ، ارسلان 17 سال اور حمزہ 14 سال) پڑھانے سے پہلی سیل ہوئی جو داؤد کی تھی(یاد رہے داؤد بھی عیسائی تھا پھر اپریل میں یا بعد میں یہاں سے چھوڑ گیا تھا) بعد ازاں آسٹریلیا میں قسمت آزمائی کی سوجھی تو میرے اوقات کار صبح چار بجے سے دن کے ایک بجے تک ہو گئے۔ داؤد اور ایلن صبح کے چھے بجے آنے لگے۔یہ مارچ کا مہینہ تھا انہی دنوں میرا ایک دوست عبدالغفار وکی بھی سیلز ٹیم کا حصہ بنا لیکن چند دن کے بعد جاری نہ رکھ سکا۔ دفتر میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے والا ولایت علی تھا جو ننکانہ کے علاقے سے تھا۔ جنوری سے میں گھر میں چند ایک لوگوں کو سکول کی ٹیوشن بھی دیتا تھا وہ بھی مارچ کے اختتام تک جاری رہیں تعلیمی دورانیے کےاختتام کے بعد میں نے ان سے معذرت کر لی۔ 31 مارچ بروز ہفتہ کو دفتر وہاں سے برکت مارکیٹ میں شفٹ ہو گیا۔ 2 اپریل سے میں مسلسل تمام کاروباری دنوں میں یہاں آ رہا ہوں۔ ماسوائے عید الفطر کی تین، عید الاضحیٰ کی تین اور دو وہ چھٹیاں جن دنوں مَیں دو بار شدید بیمار ہوا۔ یہاں آتے ہی مزید لوگ سیلز ٹیم میں بھرتی کے لیے آئے۔ کچھ چلے بھی گئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر سعدیہ یعقوب ہیں جو تا حال اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذہب ان کا بھی عیسائیت ہے۔ اس دوران بہت سے واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے۔ ستمبر میں ایک اور قرآن ٹیچر محمد زید مصطفیٰ اور اکتوبر میں قاری محمد زبیر صاحب بھی میری ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اب ایک قاریہ کو بھی بھرتی کیا جا چکا ہے۔ زید مصطفی اردو محفل فورم کے بھی قدرے کم فعال رکن ہیں۔ ایک بار محمود صاحب نے بھی محفل کو جائن کیا تھا۔ یومِ عشق رسول کے دن بھی کلاسیں ہوئی تھیں کیونکہ آسٹریلیا کے لوگوں کو فرداً فرداً اس دن کے بارے میں بتانا مشکل تھا۔ بقیہ دنوں میں اکثر راتوں کو نصف درجن کے قریب کتابیں اُٹھا کر لاہور شہر کی سڑکیں پیدل ناپیں کی کہیں کم یا زیادہ نہ ہو جائیں۔ماہنامہ نوائے منزل کے دفتر میں بھی کچھ یادیں ہیں۔ کچھ جامعہ اسلامیہ رضویہ کے حوالے سے ہیں۔
یا د رکھو کسی حوالے سے
ہر حوالے سے ہم تمہارے ہیں