یوسف سلطان
محفلین
گزر جائے ہماری عمر پیمانے کے چکر میں
خدا مشغول رکھے اُن کے میخانے کے چکر میں
مبادا دھجیاں چُنتے پِھرو جیب و گریباں کی
نہ پڑنا اُن کے دیوانے کو سمجھانے کے چکر میں
کرشمہ کوئی دِکھلا کر رہے گی گردشِ دوراں
کہ ہے تاریخ پھر سے خود کو دہرانے کے چکر میں
گوارا تھا نہ میخانے کا جن کو نام تک لینا
سُنا ہے آج کل وہ بھی ہیں میخانے کے چکر میں
ہمیں پِیرانہ سالی میں بھی پیری سے تامّل ہے
جوانی میں بھی تم ہو پیر بن جانے کے چکر میں
کہاں واعظ کہاں یہ منہ اندھیرے قصدِ میخانہ
یہ حضرت بھی ہیں شاید پینے پِلوانے کے چکر میں
اثر ہو خاک مجھ پر شیخ کی تسبیح دانی کا
کہ مُرغِ دیدہ ور آتا نہیں دانے کے چکر میں
یہ دنیا آنی جانی ہے یہاں ہر آن رہتا ہے
کوئی آنے کے چکر میں کوئی جانے کے چکر میں
زہے قسمت نہ چھوٹا مجھ سے میخانے کا دروازہ
رہا ہر چند واعظ مجھ کو بہکانے کے چکر میں
وہ آ پہنچے تو پھر کیا تھا بدن میں روح لوٹ آئی
مری میت کو تھے احباب دفنانے کے چکر میں
تُم اس دنیا میں بس دنیا کے ہو کر ہی نہ رہ جانا
نہ کھو دینا کہیں خود کو اسے پانے کے چکر میں
اِلٰہی! آبرو رکھنا تُم اپنے سادہ بندوں کی
کہ بے پِیرے بھی ہیں کچھ پیر بن جانے کے چکر میں
مشائخ ، مولوی، حفاظ ، مفتی ، نعت خواں ،قاری
یہ سب برطانیہ جاتے ہیں نذرانے کے چکر میں
سمجھ پایا نہ میری مے کشی کے راز کو واعظ
رہا کم بخت مجھ کو راہ پر لانے کے چکر میں
جو سمجھیں رشتۂ انسانیت کو آخری رشتہ
نہیں پڑتے کبھی وہ اپنے بیگانے کے چکر میں
کوئی دیکھے نصیر اپنی یہ طُولِ عمر کی خواہش
کہ جینا چاہتے ہیں اُن پہ مر جانے کے چکر میں
تاجدارِ گولڑہ علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ
آخری تدوین: