شاہد شاہنواز
لائبریرین
برائے اصلاح ۔۔۔
گزر جاتی ہے جب اپنی کہانی یاد آتی ہے
بڑھاپا بھول جاتا ہے، جوانی یاد آتی ہے
نئی دنیا کے نظارے تو آنکھوں میں نہیں جچتے
سبھی کو داستاں اپنی پرانی یاد آتی ہے
بھلائے بھولتے ہیں کب پرانے دور کے قصے
وہی بچپن کے موسم، رت سہانی یاد آتی ہے
ہمیں اکثر بتاتا ہے مچا کر شور لہروں کا
سمندر کو بھی دریا کی روانی یاد آتی ہے
کسی کی آنکھ میں آنسو نہ کوئی دیکھ سکتا تھا
وہ سب کی رنج میں راحت رسانی یاد آتی ہے
تجھے شاید ہماری گفتگو اچھی نہ لگتی ہو
ہمیں اکثر تری شعلہ بیانی یاد آتی ہے
کسی کی بے وفائی پر کوئی شدت سے رویا تھا
وفا کے آخری پل کی کہانی یاد آتی ہے
ابھی تک روح میں قائم ہے اس خوشبو کی شادابی
ہماری قبر پر وہ گل فشانی یاد آتی ہے
برائے توجہ محترم
الف عین صاحب
فلسفی ۔۔۔
گزر جاتی ہے جب اپنی کہانی یاد آتی ہے
بڑھاپا بھول جاتا ہے، جوانی یاد آتی ہے
نئی دنیا کے نظارے تو آنکھوں میں نہیں جچتے
سبھی کو داستاں اپنی پرانی یاد آتی ہے
بھلائے بھولتے ہیں کب پرانے دور کے قصے
وہی بچپن کے موسم، رت سہانی یاد آتی ہے
ہمیں اکثر بتاتا ہے مچا کر شور لہروں کا
سمندر کو بھی دریا کی روانی یاد آتی ہے
کسی کی آنکھ میں آنسو نہ کوئی دیکھ سکتا تھا
وہ سب کی رنج میں راحت رسانی یاد آتی ہے
تجھے شاید ہماری گفتگو اچھی نہ لگتی ہو
ہمیں اکثر تری شعلہ بیانی یاد آتی ہے
کسی کی بے وفائی پر کوئی شدت سے رویا تھا
وفا کے آخری پل کی کہانی یاد آتی ہے
ابھی تک روح میں قائم ہے اس خوشبو کی شادابی
ہماری قبر پر وہ گل فشانی یاد آتی ہے
برائے توجہ محترم
الف عین صاحب
فلسفی ۔۔۔