غزل
گزر ہی جائے گی جیسے بھی زندگانی عظیم
ہم ایسے لوگوں کی ایسی ہی تھی کہانی عظیم
نہ بچپنے کا سمجھ آیا کس طرف کو گیا
نہ دیکھ پایا کہ کھوئی کہاں جوانی عظیم
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں نت نئے مضمون
ہر ایک بات ہی لگتی ہے اب پرانی عظیم
بس ایک راہ کہ جس پر میں چلتا جاتا ہوں
اس ایک راہ میں گزرے گی زندگانی عظیم
دنوں کی خیر کہ ڈھلتے ہیں کام دھندے میں
مگر دعا کہ ہوں راتیں تو کچھ سہانی عظیم
یہ کم نہیں ہے کہ مجھ کو بھی چاہتا ہے کوئی
کسی کے واسطے میں بھی بنا ہوں جانی عظیم
نبھا سکا نہ میں اک دن بھی خوب جس کے ساتھ
وہ دیکھتا ہوں کہ کرتا ہے مہربانی عظیم
.