گفتار کے غازی

با ادب

محفلین
گفتار کے غازی

انسانی نفسیات گنجلک اور نہایت پیچیدہ ہے .. اگر سوچ کا دھارا رواں بہتا جا رہا ہے تو غنیمت جانیے آپ زندگی کے بہترین فیز سے گزر رہے ہیں .. لیکن اگر بہتے رواں پانی میں طغیانی آگئی اور بھنور اٹھنے لگے تو جان لیجیے کہ اس اتھل پتھل نے یا تو آپ کو ڈبو دینا ہے یا آپ اس سے جنگ لڑ کر فتح کا پرچم لہراتے دور دیسوں کو نکل پڑیں گے ..

ہمیں بیٹھے بیٹھے بٹھائے اچانک بھنور سے واسطہ پڑ جاتا ہے .. اور ہم وہ ٹہرے جنہیں ہاتھ پاؤں نہیں مارنے کوئی ہاتھ دے کے نکالے تو نکالے .. ورنہ بھنور میں مزید طغیانی کا باعث تو بن ہی سکتے ہیں ..

امام صاحب !
فرمائیے.
ہمیں شدید مسئلے سے دو چار ہیں
اب کیا ہوا ہے؟
ہمیں لگتا ہے ہم مسلمان نہیں رہے
تو مسلمان ہونے کے لیے کونسا پہاڑ توڑنے پڑتے ہیں کلمہ پڑھیے مسلمان ہو جائیں گی

یہ جو مسلمانوں کا کلمہ ہے نا امام صاحب اسکی ابتداء ہی " لا" سے ہوتی ہے ...
تو؟
تو یہ کہ سب چیزوں کو " لا" کہہ کہ الہ تک پہنچا جاتا ہے .. اور لا کہہ دینا ہمارے لیے آسان نہیں .. اگر تو آپ لا والی شرط ہٹا دیں تو ہم الہ کہہ دیں گے ..
خواتین سے بحث کا اکثر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہانڈی روٹی میں دھیان دیجیے ..

ارے ..
یہ جو علم کی بھوک ہے نا بڑی کتی کیفیت ہوتی ہے .. علماء کو دیکھ کر رال ٹپکنے لگتی ہے آنکھیں اوپر کو چڑھ جاتی ہیں حالت غیر ہو جاتی ہے .. جب تک علم کی ہڈی نہ پھینکی جائے بھوک مٹنے کا نام نہیں لیتی ... ہڈی کی بھی سن لیجیے ..
یہ وہ ہڈی ہے جسے اگر اکیلے ہضم کرنا چاہیں گے تو بد ہضمی ہو جاتی ہے .. پھر وہ عالم ہر جگہ قے کرنے لگتے ہیں .. ہر دفعہ ہڈی ڈکاری اور قے کر دی ... زیادہ ہڈی ملنے کے سبب وہ بھوک کا مطلب بھول جاتے ہیں انکی گردن میں ایسا سریا فٹ ہوجاتا ہے کہ اگر دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھنے کی غرض سے ہلا دیویں تو موت واقع ہو جائے گی .. ہر متکبر خود کو کل سمجھتا ہے .. دیکھو میری شان میں کچھ مت کہنا ارے میرے عیب کی بات کی .. میرے پاس تو ہڈی ہے ..
دیکھیے یہ جو ہڈیاں آپ ڈکار رہے ہیں نا یہ قرض ہے.... اسے لوٹانا ہوتا ہے .. اسے بانٹنا ہوتا ہے تا کہ بد ہضمی نہ ہو..ورنہ ہیضہ ہو جاتا ہے اور قبر میں ہڈیاں نہیں ملتیں انکا حساب لیا جاتا ہے ..
یہ تو بیان ہوا انکا جنکو بد ہضمی کی بیماری ہے لیکن ایسے پیارے لوگ بھی ہمارے اور آپکے اللہ جی نے پیدا کیے ہیں کہ انکو بھی اس ہڈی کی طلب ہوتی ہے .. وہ بھی اسکی بھوک محسوس کرتے ہیں اور جب ملنے لگے تو بانٹنے لگتے ہیں اور اس لطف و کرم سے بانٹتے ہیں کہ یہ جسم میں جا کے تازہ زندگی سے بھر پور خون بناتی ہے .. اسی خون سے ان عالموں کے وجود پر حرارت ہوتے ہیں شفقت اور محبت کی حرارت .. جن کے وجود سے مشک کی بو پھوٹنے لگتی ہے .. وہ ہر آنے والے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنے رزق میں سے اسکا حصہ بانٹ ڈالتے ہیں ..
پس مسلمان ہونے کے لیے ہمارا واسطہ ہر دو عالم سے پڑا ...
مولانا صاحب .. ڈپریشن ہے
مولانا کی تیوریاں چڑھ گئیں نتھنے پھول گئے غیض و غضب کی تصویر بن بیٹھے
ہمارا ڈپریشن اور بڑھ گیا .. لگا واقعی کافر ہو چکے ہیں مولانا نے ہماری صورت جہنم کی آگ کا نظارہ فرما لیا ہے ..
بی بی ہم علمی مباحثے میں مصروف ہیں آپکو مخول سوجھ رہے ہیں ..
بی بی کی جان سولی پہ اٹکی ہے اللہ میاں آگ جلائے منتظر لگتے ہیں کہ کب بی بی آئے اور اسکا حصہ بن جاووے .. اب آگ بجھانے کی ترکیب کس سے پوچھیں ..
ڈاکٹر صاحبہ آپ ہی کوئی ترکیب سجھا دیجیے ہم آگ کے کنارے کھڑے ہیں ..
اپنی باری کا انتظار کیجیے ابھی مریضوں کی قطار لمبی ہے.
اور تب تک ہم گر گئے آگ میں تو
جواب ندارد
ارے کچھ کیسز ایمرجنسی ہوتے ہیں ان ڈاکٹروں کو کون سمجھائے ..
اب لگتا تھا آخر وقت آیا ہی چاہتا ہے اسلام ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہے .. لا کہنا ہے .. لا منہ سے کہہ دینے میں ہمیں عار کہاں ہم اتنا علم تو رکھتے تھے کہ لا پر عمل بھی کرنا ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق دونوں ضروری ہیں ..
دل کو کیسے پھیر دیویں .. وہ کفر پہ اڑا بیٹھا ہے ہر گناہ پہ آمادہ ہے ..
یہاں جس کو مسئلہ بتلاتے ہیں وہ غیض کا شکار ہوجاتا ہے .. ارے ملاؤں تمھارا کام کیا صرف مباحثے کرنا اپنی ہڈی ڈکارنا اور مقالے لکھنا ہی رہ گیا ہے؟ ؟؟؟
یہاں جاں کنی کا عالم ہے تو کلمہ پڑھانا آپکی ذمے داری ہے یا نہیں؟ ؟
دیکھو برہمنو اگر کوئی بیمار: شانے جھٹک کے کہتا ہے جاؤ میں نے دوا نہیں پینی تو کیا ڈاکٹر نہیں پلاتے؟ ؟؟
زبردستی پلاتے ہیں ..
تو تمھارے اپنے دل کے مرض نے تم سے مسیحائی چھین لی .. تمھیں تو علاج کرنا تھا کڑوی دوائیں پلانی تھیں .. نسخہ لکھ دینے سے کچھ نہیں ہوتا کتابیں بھری پڑی ہیں نسخہ جات سے .. آپ کا کام دوا پلانا ہے پیار سے شفقت سے لطافت سے ..
ہم کہتے ہیں ہمیں کفر سے نکالیے یہاں اسباب بتلائے جاتےہیں کفر بہ سبب اسکے ہے اور کفر بہ سبب اُس کے ہے .. یہ اتنی بڑی بات نہیں یوں کیجیے آپ یوں کر لیں اور یوں کیجیے آپ ووں کر لیں .. ارے دل کفر پہ اڑا بیٹھا ہے کفر بمعنی انکار .. ہر درست بات کا انکار .. ہر صحیح سوچ کا انکار .. دل میں کوئی بٹن نہیں جسے آپ دبائیں گے اور یہ آن ہو جائے گا اور آپکے دبانے سے آف ہو جائے گا
دل تو اللہ کی دو انگلیوں کے بیچ ہے وہ چایے تو پلٹ دیوے .. تو بندے کو سکھایا اس سے مانگ لو
اے دلوں کو پھیرنے والے مجھے اپنے دین پہ ثابت رکھنا
اور وہ تو دل کو تب پھیرے نا جب کوئی اس سے مانگے جو اپنے ہی کفر پہ مطمئن شادیانے بجاتا ہو اسکا کیا ہو؟ ؟
ہم سر پٹختے گھومتے پھرے ہر جا جسے دیکھیے اپنی ہڈی کے لیے بھونک رہا ہے ..
ہمارا بھی تو کوئی حال نہیں ان ملاؤں سے ہمیں ہزار گلے ہیں لیکن مسیحا ہم.انہی کو مانتے ہیں .. شاید یہ اپنی کرسی پہ بیٹھ جائیں اور سٹیتھو سکوپ لٹکا کے تشخیص و علاج شروع کر دیویں ..
اب کہ ہم کسی مولانا سے نہیں ٹکرائے ہم سے مولانا ٹکرا گئے ..
بیٹی بیمار ہو
جی مولائی روح بیمار ہے
چلو اللہ شفا دے گا
ارے اللہ کی انکاری ہو گئی کیسے شفا ملے گی؟ ؟؟
ارے اگر یہ احساس موجود ہے کہ غلط راہ پہ آگئے ہیں تو پھر تو آپ سیدھا راستہ تلاش کر لیں گی .. صراط مستقیم
ہم ٹھٹک گئے ... ہم رک گئے .. منجمد ہوگئے.
یہ کیسا مولوی ہے اسے غصہ کیوں نہ آیا .. ہم نے تو علی الاعلان کفر کا دعوٰی کر ڈالا تھا یہ تو احساس کی بات کرتا ہے
مولائی ہم مسلمان نہیں رہے ..
اپنا محاسبہ کیجیے .. کیا سبب ہے کہ اسلام آپکا پسندیدہ نہ رہا ..
اسباب تو ہزاروں تھے اب کیا منہ کھول کے سبھی کہہ ڈالتے ..
ہم سبب سے واقف تھے ہمیں اللہ میاں پسند نہ تھے.... دنیا محبوب تھی
مولائی زندگی تو پوری ہی بھنور میں ہے لوگ قانون فطرت پہ چلتے ہیں ہم فطرت کے خلاف ..
جانتی ہیں اللہ قرآن میں کہتا ہے
لیتلطف
نرمی سے انکسار سے .. عاجزی سے
اور یہ بھلا کس سورت میں کہا گیا .. وہ سورت جو دجال سے بچانے والی ہے .. دجالی فتنوں سے بچانے والی ہے ..
ایسا لگتا اسلام کی کرنیں پھوٹ پڑی ہیں....
اسلام ہم نے ابھی قبول نہیں کیا لیکن اسکی عظمت کے معترف ہوگئے ..
ہم تو نماز ہی نہیں پڑھتے مولائی
آج سے پڑھنا شروع کر دیجیے ..
( کیوں پڑھیں ہم تو مسلمان ہی نہیں ہیں .. اری نگوڑی نماز کا اسلام سے کیا تعلق پڑھ لے)

کفر کی حالت میں عشاء پڑھ لی... اسکے بعد ہیجان میں ایسا اضافہ ہوا جی چاہا سب مولویوں کو ذبح کر کے بھون ڈالیں .. کافروں کو نماز پڑھاتے ہیں ...
ہم نے کلمہ نہیں پڑھ رکھا یہ کہتے ہیں نماز پڑھو ... کافر دل مسلمان وجود .. کوئی کرنے کی بات ہے ..
رات گزری صبح سکوت تھا .. ایسا لگتا کفر کا شور تھم چکا ہے .. سال کا آخری دن سارا دن ماتھا ٹیکا سجدہ کیا .. ہر نماز سے پہلے منکر ہوجاتے .. مولانا فرماتے پڑھ لیجیے آپکا کیا جاتا ہے .. پڑھ لیتے ..
مسلمان ہم اب بھی نہیں ہیں لیکن لیتلطف نے دل کے انگاروں پہ پانی ڈال دیا ہے .. دعا کیجیے ہم اسلام قبول کر لیں پھر ساری نمازیں پڑھیں گے ..
اور یاد رکھنا بہنو اور بھائیو جس دن ہم نے کلمہ پڑھ لیا اس دن ہم بھی مقالے لکھیں گے اور ان اُلو مائے کرام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیویں گے جنکی قے نے اسلام کو داغدار کر ڈالا ہے ...

سمیرا امام
 
تو ہنس لیجیے نا .. اچھا ہی ہوا کسی بات پر تو آئی
معذرت کہ میں نے زمرہ نہیں پڑھا، معلوم نہ تھا کہ آپ ہی کی تحریر ہے۔ اگر نقطوں میں کمی کر دی جائے تو غالباً زیادہ نکتے تحریر سے اخذ کیے جا سکیں گے۔ جہاں تک نفسیات و مکالمات کا تعلق ہے تو وہ oversimplified ہیں، اور یہ وطیرہ میں نے بہتوں کی تحریروں میں دیکھا ہے؛ شاید اختصار کے لیے ایسا کرنا ضروری بھی ہے۔ تحریر بہرحال خوب ہے۔
 
آخری تدوین:
Top