nazar haffi
محفلین
تحریر: نذر حافی
کسی بھی قوم کے سیاسی نظام میں انتخابات کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر انتخابات کی تبدیلی کو کسی حد تک نظام کی تبدیلی بھی تصور کیا جاتا ہے اور جہاں پر نظام میں تبدیلی رونما ہو جائے وہاں عوام کے حالات میں بھی ایک حد تک تغیر و تبدل دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی امید پر ہمارے ہاں بھی اب تک کئی مرتبہ انتخابات منعقد ہوئے ہیں لیکن یہاں پر ووٹ لینے والوں اور ووٹ دینے والوں کی حالت میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمیشہ الیکشن کے بعد جو ووٹ لینے والے ہیں وہ امیر تر اور جو ووٹ دینے والے ہیں وہ غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا نظام اس الٹے گلاس کی مانند ہے جس پر جتنی مرضی بارش ہو جائے، اس کے اندر پانی کا ایک قطرہ بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ہر طرف سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے جبکہ دہشت گرد قتل عام کے ذریعے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں مصروف ہیں۔ گویا اس قتل و غارت کے ذریعے دہشت گرد عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم سے مذاکرات کئے بغیر اور ہمیں سیاسی عمل میں شامل کئے بغیر تم امن و سکون کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ یعنی جبر و تشدد کے ذریعے پاکستانی عوام کو سرنگوں کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں شامل غدار پہلے ہی دہشت گردوں کو گرین سگنل دے چکے ہیں۔ کسی عام شہری سے لے کر سبط جعفر جیسے دانشمند تک کسی کی جان محفوظ نہیں۔ جو لوگ گذشتہ پانچ سالوں تک ملکی اور ملی تحفظ اور سالمیت کی خاطر اسمبلیوں میں گئے تھے وہ اپنے اثاثوں میں کروڑوں اور اربوں روپوں کا اضافہ کرکے عیش و نوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جو آئندہ آئیں گے وہ مزے لوٹنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا کے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے نور عالم نے 2008ء میں 5 کروڑ 58 لاکھ 50 ہزار روپے کے اثاثے ڈکلیئر کئے۔ تاہم اس وقت 32 ارب روپے کے ساتھ وہ پاکستان کے امیر ترین رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے طارق خٹک کے اثاثے 2011ء میں 8 ارب تک چا پہنچے۔ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں میں 2008ء سے 2011ء تک ایک ارب 50 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ارباب عالمگیر ایک ارب 50 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کے معظم علی خان جتوئی کے اثاثے 3 کروڑ 45 لاکھ سے 5 کروڑ روپے ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 4 برس میں 64 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ آزاد امیدوار نورالحق قادری کے اثاثوں میں 42 کروڑ 50 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔ اے این پی کے استقبال خان نے 2008ء میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائے تھے، تاہم 2011ء میں ان کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 39 کروڑ 58 لاکھ روپے ہے۔ فنکشل لیگ کے پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 4 کروڑ 79 لاکھ جبکہ ق لیگ سے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے امیر مقام کے 2008ء میں اثاثے 64 لاکھ 25 ہزار تھے جبکہ 2011ء میں انھوں نے اپنے اثاثے 33 کروڑ 44 لاکھ شو کئے ہیں۔ اتنے سالوں کی ذلت کے بعد اب تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ جن کے اثاثوں میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور جنہیں کبھی گرم ہوا ہی نہیں لگی وہ عوام کی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے درد کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں، جن کی حفاظت کے لئے شکاری کتوں سے لے کر سرکاری عملے اور بدماش باڈی گارڈز تک کا اہتمام موجود ہے، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں کیونکر سنجیدہ ہوسکتے ہیں اور جو خلاوں میں سفر کرتے ہوں، دو دو ملکوں کی نیشنلیٹی رکھتے ہوں، جن کے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہوں، وہ غریبوں کے تعلیمی و اقتصادی مسائل میں کیا خاک دلچسپی لیں گے۔ اس طرح کے انتخابات سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، زیادہ سے زیادہ چوہدری صاحب کی جگہ ملک صاحب بیٹھ جائیں گے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں حکمت عملی کے ساتھ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، ان لوگوں کی مدد کرنی ہوگی جن کا معیار زندگی پاکستانی عوام کے زیادہ قریب ہو اور جن کا ماضی دینداری، شرافت اور قربانیوں کے حوالے سے روشن اور شفاف ہو۔ ہم سب کو الہی و دینی بنیادوں پر مل جل کر اس الٹے گلاس کو سیدھا کرنا پڑے گا ورنہ جب تک گلاس الٹا ہے، اس میں ایک قطرہ پانی بھی داخل نہیں ہوسکتا۔
کسی بھی قوم کے سیاسی نظام میں انتخابات کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر انتخابات کی تبدیلی کو کسی حد تک نظام کی تبدیلی بھی تصور کیا جاتا ہے اور جہاں پر نظام میں تبدیلی رونما ہو جائے وہاں عوام کے حالات میں بھی ایک حد تک تغیر و تبدل دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی امید پر ہمارے ہاں بھی اب تک کئی مرتبہ انتخابات منعقد ہوئے ہیں لیکن یہاں پر ووٹ لینے والوں اور ووٹ دینے والوں کی حالت میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمیشہ الیکشن کے بعد جو ووٹ لینے والے ہیں وہ امیر تر اور جو ووٹ دینے والے ہیں وہ غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا نظام اس الٹے گلاس کی مانند ہے جس پر جتنی مرضی بارش ہو جائے، اس کے اندر پانی کا ایک قطرہ بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ہر طرف سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے جبکہ دہشت گرد قتل عام کے ذریعے عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں مصروف ہیں۔ گویا اس قتل و غارت کے ذریعے دہشت گرد عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم سے مذاکرات کئے بغیر اور ہمیں سیاسی عمل میں شامل کئے بغیر تم امن و سکون کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ یعنی جبر و تشدد کے ذریعے پاکستانی عوام کو سرنگوں کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں شامل غدار پہلے ہی دہشت گردوں کو گرین سگنل دے چکے ہیں۔ کسی عام شہری سے لے کر سبط جعفر جیسے دانشمند تک کسی کی جان محفوظ نہیں۔ جو لوگ گذشتہ پانچ سالوں تک ملکی اور ملی تحفظ اور سالمیت کی خاطر اسمبلیوں میں گئے تھے وہ اپنے اثاثوں میں کروڑوں اور اربوں روپوں کا اضافہ کرکے عیش و نوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جو آئندہ آئیں گے وہ مزے لوٹنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا کے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے نور عالم نے 2008ء میں 5 کروڑ 58 لاکھ 50 ہزار روپے کے اثاثے ڈکلیئر کئے۔ تاہم اس وقت 32 ارب روپے کے ساتھ وہ پاکستان کے امیر ترین رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے طارق خٹک کے اثاثے 2011ء میں 8 ارب تک چا پہنچے۔ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں میں 2008ء سے 2011ء تک ایک ارب 50 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ارباب عالمگیر ایک ارب 50 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کے معظم علی خان جتوئی کے اثاثے 3 کروڑ 45 لاکھ سے 5 کروڑ روپے ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 4 برس میں 64 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ آزاد امیدوار نورالحق قادری کے اثاثوں میں 42 کروڑ 50 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔ اے این پی کے استقبال خان نے 2008ء میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائے تھے، تاہم 2011ء میں ان کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی مالیت 39 کروڑ 58 لاکھ روپے ہے۔ فنکشل لیگ کے پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 4 کروڑ 79 لاکھ جبکہ ق لیگ سے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے امیر مقام کے 2008ء میں اثاثے 64 لاکھ 25 ہزار تھے جبکہ 2011ء میں انھوں نے اپنے اثاثے 33 کروڑ 44 لاکھ شو کئے ہیں۔ اتنے سالوں کی ذلت کے بعد اب تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ جن کے اثاثوں میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور جنہیں کبھی گرم ہوا ہی نہیں لگی وہ عوام کی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے درد کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں، جن کی حفاظت کے لئے شکاری کتوں سے لے کر سرکاری عملے اور بدماش باڈی گارڈز تک کا اہتمام موجود ہے، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں کیونکر سنجیدہ ہوسکتے ہیں اور جو خلاوں میں سفر کرتے ہوں، دو دو ملکوں کی نیشنلیٹی رکھتے ہوں، جن کے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہوں، وہ غریبوں کے تعلیمی و اقتصادی مسائل میں کیا خاک دلچسپی لیں گے۔ اس طرح کے انتخابات سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، زیادہ سے زیادہ چوہدری صاحب کی جگہ ملک صاحب بیٹھ جائیں گے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں حکمت عملی کے ساتھ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، ان لوگوں کی مدد کرنی ہوگی جن کا معیار زندگی پاکستانی عوام کے زیادہ قریب ہو اور جن کا ماضی دینداری، شرافت اور قربانیوں کے حوالے سے روشن اور شفاف ہو۔ ہم سب کو الہی و دینی بنیادوں پر مل جل کر اس الٹے گلاس کو سیدھا کرنا پڑے گا ورنہ جب تک گلاس الٹا ہے، اس میں ایک قطرہ پانی بھی داخل نہیں ہوسکتا۔