شمشاد
لائبریرین
گلدشتہ ظرافت کی لڑی
-------------------------------
صفحہ 1
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
گلدشتۂ ظرافت
یعنے
مذاق لطیف کی کنجی، ہنسنے ہنسانے کی کل، کشت زعفران، دلگی کا میگزین، قہقہہ دیوار، آئینہ اسکندر، جام جم، چلتا پُرزہ، نور مجلس، و معنی پھبتی کی مشین، شمع محفل، تبسم ناز، لفط زندگی، رفیق زندگی، غم غلط کرنے کا بیمثل آلہ، لکھنؤ کی صاف و شیرین زبان
مولفۂ
جناب نشتر لکھنؤی
تمام حقوق بنام مہا دیو پرشاد پبلشر نظیر آباد لکھنؤ محفوظ ہیں۔
بہ اہتمام سیٹھ کندن لال مالک مطبع
سیٹھ کندن لال پریس لکھنؤ میں چھپا۔
مارچ 1918ء
صفحہ 2
گلدستہ ظرافت
مرتبۂ
جناب نشترؔ لکھنؤی
صفحہ 3
دیباچہ
ہندوستانیوں کا مزاج ہمیشہ سے مزاح پسند ہے۔ خاص کر لکھنؤ میں یہ عادت طبیعت ثانی بن گئی ہے۔ اور حقیقیت میں مذاق کلام کا نمک ہے۔ جس طرح کھانا بغیر نمک بے مزا رہتا ہے اسی طرح گفتگو میں اگر مزاح کی نمک پاسی نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ اسپر بھی مذاق خاص و عام میں فرق ہے۔ اور مذاق صحیح وہی ہے، جس میں تہذیب ہاتھ سے نہ گئی ہو۔ یہ ایک فن خاص ہے۔ شاہی میں تو اُمرا اور رؤسا کے مصاحبین اس کو فن شیرف سمجھ کر حاصل کرتے تھے۔ اور اسی کا نام علم مجلس تھا۔ ہر چیز کا اعتدال اچھا ہوتا ہے۔ ہنسنا ضرور باعث تفریح طبع ہے۔ لیکن خندۂ بیجا باعث انقباض خاطر ہوتا ہے۔ عقلا نے ہنسی کے بھی مراتب قایم کئے ہیں۔ مذاق، تمسخر، ظرافت، مزاح، دلگی، میں فرق ہے۔، زمانہ شاہی میں شرفا زادے طوائفانِ شہر سے علم مجلس حاصل رکتے تھے۔ اور طوائفوں کو ظرافت میں ایسا کمال حاصل ہوتا تھا کہ اچھے اچھے شہزادوں پر آوازے کستی تھیں۔ اور وہ انکو شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتے تھے۔ اور انکی شیریں زبانی کی داد سیتے تھے۔ کوئی لفظ بھی بار خاطر نہ ہوتا تھا۔ ایسی گفتگو کے تحت میں چند نکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن کو اُردو کے صنائع بدائع میں شمار کرنا چاہیے۔ ضلح، جگت، پھبتی، اوکھی، طعن، کنایہ، ذومعنی، رعایت لفظی، اردو ظرافت کے جزو اعظم ہیں۔ اور ان کے لئے بھی استعداد و علمیت کی ضرورت ہے۔ پھر محاورے اور روزمرہ سے کوئی فقرہ الگ نہ ہونے پائے۔ ظرافت بامزہ وہی ہے، جو برجستہ اور بروقت ادا ہو جائے۔ روتے ہوئے آدمی کو ہنسا دے۔ ایسے لطیفے اتفاق سے ادا ہو جاتے ہیں۔
عوام الناس انہیں لطیفوں کو "چھٹیاں اور اُڑان" کہتے ہیں۔ ایسے لطیف لطیفے جو طبیعت کو سرور بخشیں، کبھی کبھی شعرا کے قلم سے نکل جاتے ہیں۔ جن کی تاثیر قلب و جگر پر تیر و نشتر کا کام کرتی
صفحہ ۴
ہے۔ یہ بات ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔ خاص خاص لوگ اس کے اہل ہیں۔ میں جس وقت خواجہ محمد عبد الرؤف عشرت لکھنؤی کے ادبی، تاریخی اور اخلاقی مضامین کتابی صورت میں جمع کرنے کی فکر میں تھا، اور ایک ایک رسالے ایک ایک اخبار کی تلاش میں شہر شہر پھرتا تھا۔ ایک ایک پرچے کی چوگنی چوگنی قیمت ادا کرتا تھا۔ کبھی دوست احباب کی خوشامد تھی، کبھی غیر شناسا کا احسان اُٹھانا پڑتا تھا۔ اور سبب بھی یہی تھا کہ برسوں کے پُرانے رسالے جس کے پاس تھے خاص کر جن میں خواجہ صاحب کے مضامین تھے لوگ ان کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ اور بحفاظت تمام رکھتے تھے۔ اُن کے دینے میں بخل کرتے تھے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ کتاب عاریت دینے کا رواج اس زمانے میں متروک ہو گیا ہے۔ لیکن خدا نے مجھے اس تلاش میں کامیاب کیا۔ خاص کر کلکتہ، الہ آباد، کان پور اور لکھنؤ سے اکثر پرچے دستیاب ہو گئے۔ بعض مضامین میں نے لائبریریوں سے اخبارات اور رسالجات کے فائل نکلوا کر نقل کئے۔ کچھ پرچے خواجہ صاحب سے بھی ملے، پھر بھی بہت سے مضامین کی اب تک مجھے تلاش ہے اور ان کے ملنے کی فکر ہے۔
ٖحاصل کلام یہ ہے کہ اس تلا میں بعض پنچ اخباروں مثلاً اودھ پنچ لکھنؤ، جنرل پنچ لکھنؤ، الپنچ مانکی پور، پنچ بہادر بمبئی، فتنہ گورکھپور، ظریف لکھنؤ، وغیرہ وغیرہ میں ظرافت کے مضامین نظر آ گئے۔ جو دلچسپی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھے۔ اگر کل مضامین جمع کئے جاتے، تو ایک ضحیم کتاب ہو جاتی۔ میں نے اس مجموعے کا عطر نکال لیا۔ اور خاص خاص مضامین چن کر ایک کتابی صورت میں مرتب کر لیے۔
یہ دیکھ کر ناظرین متعجب ہوں گے کہ جو شخص اتنا متین، اتنا بڑا ادیب، اتنا مہذب نگار ہو، اس کے قلم سے ظرافت ایسی برجستہ ادا ہوتی ہے، جیسے کڑی کمان سے تیر۔
ایک ایک فقرہ لٹائے دیتا ہے، پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ نظم دیوار قہقہہ ہے تو نثر کشت زعفران۔ یہ بات عموماً دیکھی گئی ہے کہ ظرافت میں ناظم شاعرانہ قواعد و ضوابط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ عامیانہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔ مترکات کی پابندی کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اکثر تو ردیف قافیے کی بھی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب کی نظم ان کارکنوں سے پاک ہے۔ ان کی ظرافت آمیز نظمیں بھی شاعرانہ خود داریوں کو لئے ہوئے ہوتی ہیں۔
تفریح طبع کے لئے اس کتاب کا کتب خانے میں موجود ہونا، اور مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
صفحہ ۵
آپ کسی رنج کسی فکر میں ہوں، اس نقش ظرافت کو عمل کے طریق پر ایک دفعہ پڑھ جائیے، سارے غم، ساری فکریں دل سے کوسوں دور ہو جائیں گی۔
امید ہے کہ یہ کتاب دماغی محنت کرنے والوں کی تفریح طببع میں معجون مرکب اور تسخیر ہمزاد کا کام دے گی۔ اور طبیعتوںمیں شگفتگی پیدا کرے گی۔ دیکھنے اور سننے والے ہمیشہ ہنستے اور ظرافت کے مزے لیتے رہیں گے۔
یہی وہ کتاب ہے جو ایک مرتبہ پڑھ چکنے کے بعد بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔
احقر نشترؔ عفی عنہ
سرائے میوہ، لکھنؤ
یکم مارچ 1918ء
صفحہ 6
پریزادوں کا جلسہ
اس میں شک نہیں کہ لکھنؤ باعتبار تماشبینی و حُسن پرستی "رنڈیوں کا دارالسلطنت" ہے۔ صورت، شکل، رعنائی، دلربائی، طرحداری، عیاری، مکاری، ستم شعاری، عشوہ، غمزہ، چالاکی، لجییائی کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ حسن کی دیوی نے یہاں گومتی ماتا کی گود میں جم لیا ہے۔ اسی ادائے دلکش کو یاد کر کے ناسخ مرحوم کہتے ہیں
گُل سے رنگین تر ہیں خار لکھنؤ
نشہ سے بہتر خمار لکھنؤ
ابھی تک اس شہر میں یہ بات حاصل ہے، کہ دیہات سے جو سیدھا سادہ حسین مہ جبین آ جاتا ہے، کچھ دنوں کی نشست برخاست کے بعد شوخی طراری، غمزہ جانستاں سیکھ کر دلربائی کا مدرس اول بن جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ہندوستان بھر کی طوائفوں کا تخت گاہ لکھنؤ قرار پایا۔ سرپرستی کے لحاظ سے اس تخت گاہ پر والی سلطنت یا رئیسہ ریاست ہونا ضرور تھا۔ پھر حسینوں کا سردار بھی لازمی حسین و مہ جبین بلکہ چندے آفتاب چندے مہتاب ہونا چاہیے۔ رنڈیوں کے انتخابی ووٹ سے اد گدی کی جانشین یا چودھرائن ماہ منیر البدر منیر قرار پائیں۔ ان "خاتونان ۔۔۔۔۔" کے حسن سیاسی سے کل امور کا فیصلہ جو اچھی اچھی عدالتوں سے برسوں میں طے نہ پائے، ان کی ایک ادائے مستانہ سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
یوں تو شہر کی تمام طوائفیں دیرینہ حوصلے نکالنے کی غرض سے کبھی کبھی محفل رقص و سرود اور جلسۂ عیش و نشاط قرار دیا کرتی ہیں، لیکن چونکہ کوئی اصولی قوت ان کو حاصل نہیں، لہذا اکثر بازیچہ طفلاں بن کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔
چودھرائن کے جلسے میں معلم الملکوت، کے انتظام سے کسی قدر لطف جسمانی و شفا روحانی حاصل ہوتی ہے۔ رشک منیر کی چھٹی کے دیکھنے والے تو اس عظیم الشان جلسہ کے مزے اب تک
صفحہ ۷
لوٹ رہے ہیں۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اب ایسا دلکش سین اس عالم اسباب میں نظر آنا مشکل ہے۔ چھٹی کے بعد سے ان پریوں کا خاموشی کے ساتھ سناٹا کھینچنا تعجب خیز امر تھا۔ خدا خدا کر کے پھر سردی کے زمانہ میں طبیعتوں میں گرمی پیدا ہو گئی۔ اور جھٹ رشک منیر کی روزہ کشائی کے جلسہ کہ ٹھہرا دی۔
تورے کی تقسیم باقاعدہ سیر چشمی سے معہ ارتن برتن کے ہوئی۔ شہر کے تمام رئیس از کہہ تامہ مدعو کئے گئے۔ رنڈیوں کو بلاوے دیئے گئے۔ گویا عید میں دوسری عید کا سامان ہونے لگا۔ جلسہ کا دارالقیامہ آغائی صاحب کا باغ تجویز ہوا۔ جو ایک غیر آباد جگہ تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسین مہ جبین لولیوں کے واسطے یہی مقام مناسب اور موذوں تھا۔ کیونکہ بقول داغ
بتان ماہوش اُجری ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتی ہیں
قیاس اقترافی کے لحاظ سے بعض کوتہ اندیش حکم لگا بیٹھے تھے، کہ ڈاکہ ضرور پڑے گا۔ اس خیال سے پولیس کو ایک نگاہ دلفریب سے اشارہ کر دیا گیا۔ مکان کے اردگرد پہرہ مقرر ہو گیا۔
جلسہ کا سین قابل دید تھا۔ 1907ء میں تاریخ عید کی منگل کے روز آغائی صاحب کے باغ میں شام سے چہل پہل ہے۔ شاہراہ پر روشنی کے ٹھاٹھر لگائے گئے ہیں۔ گلاس روشن کئے جاتے ہیں۔ بگھیوں کے متواتر آمد و رفت سے خاک اُڑ رہی ہے۔ بگھیوںمیں کسی میں کچھ رئیس ہیں، کچھ ارباب نشاط بیٹھے ہوئے باغ کی طرف آ رہے ہیں۔ بگھی ایک وسعی پھاٹک کے قریب آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ میزبان مہمانوں کے خیر مقدم کے لئے مستعد ہیں۔ باغ میں جابجا گیس کی روشنی آنکھوں میں خنکی اور رحت پیدا کر رہی ہے۔ اسی باغ کے پہلومیں ایک وسیع بارہ دری ہے جس میں گیس کی روشنی بافراط ہے۔ دو وسیع نمگیرے صحن میں کسی معشوق کے مزاج کی طرح کھینچے ہوئے ہیں۔ صحن کے وسط میں سفید چاندنی کا فرش بچھا ہے۔ جس پر تمام میراثی ڈہاڑی گوئیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گردا گرد چوکہ لگا ہے۔ جس پر تماشائیوں کی وہ کثرت ہے کہ خدا کی پناہ۔ آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا ہے۔ چوکے کے بعد ایک وسیع اور بلند تختہ بندی ہے۔ جس پر اُونی غالیچہ مکا مکلف فرش بچھا ہوا ہے۔ جاہں تمام پریزادان عالم کا ہجوم ہے۔ حسین حسین رنڈیاں یکے بعد دیگرے آتی جاتی ہیں اور بیٹھتی جاتی ہیں۔
محمدی جانؔ اودی ساری سنہری بیل بوٹے کی بنارسی زیب جسم کئے عجب تبسم آمیز
صفحہ 8
ادا سے گلوریاں تقسیم کر رہی ہیں۔ حسین کمسن رنڈیاں
برس پندرہ یاکہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
نکیلی سجیلی، رسیلی، زیور مرصع سے آراستہ پیراستہ، لولی فلک کی خالا بنی ہوئ
پڑ گئی آنکھ جو اُن چاند سے رخساروں پر
لوٹتے کبک نظڑ آ گئے انگاروں پر
صورت شکل میں حور کی بچیاں، زاہد صد سالہ دیکھ پائے، تو منہ میں پانی بھر آئے، بیساختہ کہہ اُٹھے
حاضر ہیں ہم تو دینے کو دل بلکہ جان تک
لیتے کا نام بھی کہیں آوے زبان تک
جسکی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً کلیجہ تھام لے۔ اور سکتہ کی حالت ہو
دل میر و دزد ستم صاحبلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
صاحب خانہ بدر منیرؔ کریب کا ڈوپٹہ سرخ پھولدار گرنٹ کا پائجامہ اور سیاہ مخملی باڈی گلے میں موتیوں کا مالا، ماہ منیر، گلابی کریب کی باڈی کاچوبی زیب جسم کئے ہوئے۔ گلابی ساری ریشمی، کانوں میں ہیرے کے ایئرنگ سر پر اسٹار لگائے ہوئے، گلے میں موتی اور ہیرے کا مالا، ایک انجمن آرا، دوسری ملکہ مہر نگار بنی ہوئی ایک میم صاحب تو دوسرے ہندوستان کی پری کا پاٹ کئے ہوئے ایک پانؤں سے ٹہل رہی ہیں۔ کبھی اس کی مزاج پرسی ہو رہی ہے کبھی اُس کی پیشوائی ہو رہی ہے۔ اور اپنے مزاج ہی نہیں ملتے۔ گویا چلاوہ بنی ہوئی، اھر آئیں، اور اُدھر چلی گئیں۔ تمام رنڈیوں کا جتھے کا جتھا ایک ہی مقام پر جلوہ گر ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرستان کی پریاں اتر آئی ہیں۔
ان کی پشت پر کچھ کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ اس پر کچھ لوگ مؤدب تر دماغ دست بستہ اے توبہ صف بستہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن کے زمرہ میں محمدی والے داروغہ محمد خاں خشوک خوش غلافی کے زخمۂ ستار بنے ہوئے فالج زدہ ٹیڑہا منہ کئے ہوئے سب کا مُنہ چڑہا رہے ہیں۔ اور حق خواجہ تاشی ادا کر رہے ہیں۔
خاص بارہ دری کے اندر کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ کچھ ٹہل رہے ہیں۔ رؤساء شہر کوٹھوں پر
صفحہ 9
بالباس مکلف جلوہ گر ہیں۔ اتنے میں ارباب نشاط میں سے ایک کمسن پری معہ سازندوں کے مستعد ہو کر ناچنے لگی۔ ابھی کچھ تھوڑا ناچنے گانے پائی تھی کہ دوسری تیر جاں ستاں، کی طرح آ موجود ہوئی۔ا س کے بعد ایک کم سن مگر کھیلی کھائی ہوئی دلربا جدو کچھ ناچی گائی۔ اس کے اُٹھتے ہی حسن جان آئی۔ پھر مہر منیر بھی خوب گائی۔ پھر مہراج بُنداویں کے روشن چراغ اچھن نے گت میں وہ وہ توڑے لئے کہ پرگاسؔ کی روح شاد ہو گئی۔ خاص کر گھنگرو بجانے میں سپوت نکلا۔ پھر اسی قافیہ اور حروف تہجی کی قید سے بمبئی والی اُچھن بھی اچھا گائی۔ ان سے بار بار بھاؤ بتانے کو کہا گیا۔ لیکن گرانی کے زمانہ میں بھاؤ بتانا، ان کو مناسب نہ معلوم ہوا۔
پھر کشمیریوں میں ٖظفرؔ کی باری آئی۔ اس نے فسانہ عجائب کا ناٹک بہت کچھ ساز و سامان سے دکھانا چاہا، لیکن قلت وقت کے سبب سے تماشا نامکمل ختم کر دیا گیا۔
پھر کانپور والی بے نظری جو کسی قدر عاشق مزاج معلوم ہوتی ہے، اچھے اچھے گرہ بند گائی۔ اس کے بعد وزیر جان لکھنؤی، محبوب جان کانپوری، ماہ منیر کانپوری، لاڈلی پیلی بھیت والی گائیں، اور خوب گائیں۔
پھر فضل حسین کشمیری کی باری آئی۔ اس کے ساتھ نقال بیوی قدر نے اچھی اچھی نقلیں کیں۔ پھر وارث حسین بھی خوب گایا۔ اس کے بعد سیتا پور کی کلو، پ؛ھر محمدی جان، قابل تعریف گایا۔
پھر گویوں کی باری آئی۔ احمد خان، خورشید علی، بڑے منے خاں، خوب خوب بلیاں لڑایا کئے۔ سو روپیہ مبارکباد کا دیا گیا۔
ان کے علاوہ شیدا، زہرہ، چندہ، پناہرا، بسم اللہ ، فیروزہ، مشتری، بگن، کالکا پرشاد والی شہزادی، بلاقن، ممولا، ہیرا، شہزادی سلیم اللہ والی، حیدر جان چونے والی، بندا دین اس جلسہ میں گانے ناچنے کی نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئے۔ خود بدر منیر اور ماہ منیر کو بھی یہ دولت نصیب نہ ہوئی۔ کیونکہ وقت قلیل تھا۔ حقیقت میں اگر یہ محفل دو روز میں ختم ہوتی، تو شاید مشہور طوائفوں کو ناچنے گانے کا موقع ملتا۔ تمام محفل رنڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنڈیاں دور دور سے آئی تھیں۔ بعض مع انڈے بچوں کے موجود تھیں۔ جن کے لئے چودہرائن کے یہاں آنا فرض تھا۔ کم سے کم ڈیڑھ سو کے قریب رنڈیاں ہوں گی۔ اگر کوئی رئیس لاکھ دو لاکھ روپیہ صرف کرتا، جب بھی یہ کیفیت بعنوان شایستہ دیکھنا نصیب نہ ہوتی۔ ع
انچہ مے بینم بہ بیداری ست یا رب یا بخواب
رات بھر کے جاگے ہوئے معشوقوں کو نیند کا سخت غلبہ ہو گیا۔ اور مجبوراً گیارہ بجے دن کو
صفحہ 10
جلسہ کا اختتام کرنا پڑا۔ اور وہ پیاری پیاری دلربا صورتیں چشم زدن میں نظروں سے غائب ہو گئیں۔ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا
وہ سماں ابتک آنکھوں کے سامنے پھر رہ اہے۔ اور عاشق مزاج دل ہی دل میں مزے لے رہے ہیں
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا!!
تخلص داغ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
بُلبُل ہند
بُلبُل ہند لکھنؤ میں ایک مشہور میر شکار تھا، ہندوستان کی ہر رنڈی اس کے نام سے آشنا ہے۔ پرندوں ے ایک ایک عضو کی تشریح جس عنوان شایستہ سے وہ بیان کرتا تھا، آج تک دیسی شرح گلستان کی بھی کسی نے نہیں لکھی۔ ایک بُلبُل چہک رہا تھا۔ سامعین کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ رنڈیوں کا سراپا کھینچنے میں تو بہزاد و مانی کے کان کاٹے تھے۔ دُبلا پتلا منہنی آدمی، مگر چٹک مٹک ٹضب کی۔ ممکن نہ تھا کہ اُس کی زبان سے دو جملے سُنو۔ اور توسن طبع دولتیاں نہ اُچھالنے لگے۔ میکشی کی لت اس غضب کی تھی کہ جس دن میسر نہ ہو فاقہ سمجھے۔ شراب خانہ خراب کی بدولت ہزاروں مرتبہ کیچڑ میں لت پت ہوا جوتیاں کھائیں۔ تھانے میں کھنچے کھنچے پھرے۔ کچہری میں جرمانے بھگتے۔ کس و ناکس کی گالیاں کھائیں، مگر شراب نہ چھوٹی۔ ع
چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
آخر ہمیشہ کی ذلت سے چھڑانے کو گربہ اجل نے دبوچ لیا۔ اور چند روزہ مرض الموت کے بعد رات ہی رات دارالشفاء شاہی میں ٹھنڈے ٹھنڈے عدم کو سدہارے۔ دو چار جگت آشنا یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے۔
۔۔۔۔ رز چشم زدن صحبت یار آخرشد
روئے گل بہر ندی کم درد آخرشد
امید تو تھی کہ غریب بیکس کی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کل رنڈیاں سنائیں گی۔ اور سال بھر تک
-------------------------------
صفحہ 1
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
گلدشتۂ ظرافت
یعنے
مذاق لطیف کی کنجی، ہنسنے ہنسانے کی کل، کشت زعفران، دلگی کا میگزین، قہقہہ دیوار، آئینہ اسکندر، جام جم، چلتا پُرزہ، نور مجلس، و معنی پھبتی کی مشین، شمع محفل، تبسم ناز، لفط زندگی، رفیق زندگی، غم غلط کرنے کا بیمثل آلہ، لکھنؤ کی صاف و شیرین زبان
مولفۂ
جناب نشتر لکھنؤی
تمام حقوق بنام مہا دیو پرشاد پبلشر نظیر آباد لکھنؤ محفوظ ہیں۔
بہ اہتمام سیٹھ کندن لال مالک مطبع
سیٹھ کندن لال پریس لکھنؤ میں چھپا۔
مارچ 1918ء
صفحہ 2
گلدستہ ظرافت
مرتبۂ
جناب نشترؔ لکھنؤی
صفحہ 3
دیباچہ
ہندوستانیوں کا مزاج ہمیشہ سے مزاح پسند ہے۔ خاص کر لکھنؤ میں یہ عادت طبیعت ثانی بن گئی ہے۔ اور حقیقیت میں مذاق کلام کا نمک ہے۔ جس طرح کھانا بغیر نمک بے مزا رہتا ہے اسی طرح گفتگو میں اگر مزاح کی نمک پاسی نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ اسپر بھی مذاق خاص و عام میں فرق ہے۔ اور مذاق صحیح وہی ہے، جس میں تہذیب ہاتھ سے نہ گئی ہو۔ یہ ایک فن خاص ہے۔ شاہی میں تو اُمرا اور رؤسا کے مصاحبین اس کو فن شیرف سمجھ کر حاصل کرتے تھے۔ اور اسی کا نام علم مجلس تھا۔ ہر چیز کا اعتدال اچھا ہوتا ہے۔ ہنسنا ضرور باعث تفریح طبع ہے۔ لیکن خندۂ بیجا باعث انقباض خاطر ہوتا ہے۔ عقلا نے ہنسی کے بھی مراتب قایم کئے ہیں۔ مذاق، تمسخر، ظرافت، مزاح، دلگی، میں فرق ہے۔، زمانہ شاہی میں شرفا زادے طوائفانِ شہر سے علم مجلس حاصل رکتے تھے۔ اور طوائفوں کو ظرافت میں ایسا کمال حاصل ہوتا تھا کہ اچھے اچھے شہزادوں پر آوازے کستی تھیں۔ اور وہ انکو شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتے تھے۔ اور انکی شیریں زبانی کی داد سیتے تھے۔ کوئی لفظ بھی بار خاطر نہ ہوتا تھا۔ ایسی گفتگو کے تحت میں چند نکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن کو اُردو کے صنائع بدائع میں شمار کرنا چاہیے۔ ضلح، جگت، پھبتی، اوکھی، طعن، کنایہ، ذومعنی، رعایت لفظی، اردو ظرافت کے جزو اعظم ہیں۔ اور ان کے لئے بھی استعداد و علمیت کی ضرورت ہے۔ پھر محاورے اور روزمرہ سے کوئی فقرہ الگ نہ ہونے پائے۔ ظرافت بامزہ وہی ہے، جو برجستہ اور بروقت ادا ہو جائے۔ روتے ہوئے آدمی کو ہنسا دے۔ ایسے لطیفے اتفاق سے ادا ہو جاتے ہیں۔
عوام الناس انہیں لطیفوں کو "چھٹیاں اور اُڑان" کہتے ہیں۔ ایسے لطیف لطیفے جو طبیعت کو سرور بخشیں، کبھی کبھی شعرا کے قلم سے نکل جاتے ہیں۔ جن کی تاثیر قلب و جگر پر تیر و نشتر کا کام کرتی
صفحہ ۴
ہے۔ یہ بات ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔ خاص خاص لوگ اس کے اہل ہیں۔ میں جس وقت خواجہ محمد عبد الرؤف عشرت لکھنؤی کے ادبی، تاریخی اور اخلاقی مضامین کتابی صورت میں جمع کرنے کی فکر میں تھا، اور ایک ایک رسالے ایک ایک اخبار کی تلاش میں شہر شہر پھرتا تھا۔ ایک ایک پرچے کی چوگنی چوگنی قیمت ادا کرتا تھا۔ کبھی دوست احباب کی خوشامد تھی، کبھی غیر شناسا کا احسان اُٹھانا پڑتا تھا۔ اور سبب بھی یہی تھا کہ برسوں کے پُرانے رسالے جس کے پاس تھے خاص کر جن میں خواجہ صاحب کے مضامین تھے لوگ ان کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ اور بحفاظت تمام رکھتے تھے۔ اُن کے دینے میں بخل کرتے تھے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ کتاب عاریت دینے کا رواج اس زمانے میں متروک ہو گیا ہے۔ لیکن خدا نے مجھے اس تلاش میں کامیاب کیا۔ خاص کر کلکتہ، الہ آباد، کان پور اور لکھنؤ سے اکثر پرچے دستیاب ہو گئے۔ بعض مضامین میں نے لائبریریوں سے اخبارات اور رسالجات کے فائل نکلوا کر نقل کئے۔ کچھ پرچے خواجہ صاحب سے بھی ملے، پھر بھی بہت سے مضامین کی اب تک مجھے تلاش ہے اور ان کے ملنے کی فکر ہے۔
ٖحاصل کلام یہ ہے کہ اس تلا میں بعض پنچ اخباروں مثلاً اودھ پنچ لکھنؤ، جنرل پنچ لکھنؤ، الپنچ مانکی پور، پنچ بہادر بمبئی، فتنہ گورکھپور، ظریف لکھنؤ، وغیرہ وغیرہ میں ظرافت کے مضامین نظر آ گئے۔ جو دلچسپی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھے۔ اگر کل مضامین جمع کئے جاتے، تو ایک ضحیم کتاب ہو جاتی۔ میں نے اس مجموعے کا عطر نکال لیا۔ اور خاص خاص مضامین چن کر ایک کتابی صورت میں مرتب کر لیے۔
یہ دیکھ کر ناظرین متعجب ہوں گے کہ جو شخص اتنا متین، اتنا بڑا ادیب، اتنا مہذب نگار ہو، اس کے قلم سے ظرافت ایسی برجستہ ادا ہوتی ہے، جیسے کڑی کمان سے تیر۔
ایک ایک فقرہ لٹائے دیتا ہے، پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ نظم دیوار قہقہہ ہے تو نثر کشت زعفران۔ یہ بات عموماً دیکھی گئی ہے کہ ظرافت میں ناظم شاعرانہ قواعد و ضوابط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ عامیانہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔ مترکات کی پابندی کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اکثر تو ردیف قافیے کی بھی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب کی نظم ان کارکنوں سے پاک ہے۔ ان کی ظرافت آمیز نظمیں بھی شاعرانہ خود داریوں کو لئے ہوئے ہوتی ہیں۔
تفریح طبع کے لئے اس کتاب کا کتب خانے میں موجود ہونا، اور مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
صفحہ ۵
آپ کسی رنج کسی فکر میں ہوں، اس نقش ظرافت کو عمل کے طریق پر ایک دفعہ پڑھ جائیے، سارے غم، ساری فکریں دل سے کوسوں دور ہو جائیں گی۔
امید ہے کہ یہ کتاب دماغی محنت کرنے والوں کی تفریح طببع میں معجون مرکب اور تسخیر ہمزاد کا کام دے گی۔ اور طبیعتوںمیں شگفتگی پیدا کرے گی۔ دیکھنے اور سننے والے ہمیشہ ہنستے اور ظرافت کے مزے لیتے رہیں گے۔
یہی وہ کتاب ہے جو ایک مرتبہ پڑھ چکنے کے بعد بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔
احقر نشترؔ عفی عنہ
سرائے میوہ، لکھنؤ
یکم مارچ 1918ء
صفحہ 6
پریزادوں کا جلسہ
اس میں شک نہیں کہ لکھنؤ باعتبار تماشبینی و حُسن پرستی "رنڈیوں کا دارالسلطنت" ہے۔ صورت، شکل، رعنائی، دلربائی، طرحداری، عیاری، مکاری، ستم شعاری، عشوہ، غمزہ، چالاکی، لجییائی کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ حسن کی دیوی نے یہاں گومتی ماتا کی گود میں جم لیا ہے۔ اسی ادائے دلکش کو یاد کر کے ناسخ مرحوم کہتے ہیں
گُل سے رنگین تر ہیں خار لکھنؤ
نشہ سے بہتر خمار لکھنؤ
ابھی تک اس شہر میں یہ بات حاصل ہے، کہ دیہات سے جو سیدھا سادہ حسین مہ جبین آ جاتا ہے، کچھ دنوں کی نشست برخاست کے بعد شوخی طراری، غمزہ جانستاں سیکھ کر دلربائی کا مدرس اول بن جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ہندوستان بھر کی طوائفوں کا تخت گاہ لکھنؤ قرار پایا۔ سرپرستی کے لحاظ سے اس تخت گاہ پر والی سلطنت یا رئیسہ ریاست ہونا ضرور تھا۔ پھر حسینوں کا سردار بھی لازمی حسین و مہ جبین بلکہ چندے آفتاب چندے مہتاب ہونا چاہیے۔ رنڈیوں کے انتخابی ووٹ سے اد گدی کی جانشین یا چودھرائن ماہ منیر البدر منیر قرار پائیں۔ ان "خاتونان ۔۔۔۔۔" کے حسن سیاسی سے کل امور کا فیصلہ جو اچھی اچھی عدالتوں سے برسوں میں طے نہ پائے، ان کی ایک ادائے مستانہ سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
یوں تو شہر کی تمام طوائفیں دیرینہ حوصلے نکالنے کی غرض سے کبھی کبھی محفل رقص و سرود اور جلسۂ عیش و نشاط قرار دیا کرتی ہیں، لیکن چونکہ کوئی اصولی قوت ان کو حاصل نہیں، لہذا اکثر بازیچہ طفلاں بن کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔
چودھرائن کے جلسے میں معلم الملکوت، کے انتظام سے کسی قدر لطف جسمانی و شفا روحانی حاصل ہوتی ہے۔ رشک منیر کی چھٹی کے دیکھنے والے تو اس عظیم الشان جلسہ کے مزے اب تک
صفحہ ۷
لوٹ رہے ہیں۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اب ایسا دلکش سین اس عالم اسباب میں نظر آنا مشکل ہے۔ چھٹی کے بعد سے ان پریوں کا خاموشی کے ساتھ سناٹا کھینچنا تعجب خیز امر تھا۔ خدا خدا کر کے پھر سردی کے زمانہ میں طبیعتوں میں گرمی پیدا ہو گئی۔ اور جھٹ رشک منیر کی روزہ کشائی کے جلسہ کہ ٹھہرا دی۔
تورے کی تقسیم باقاعدہ سیر چشمی سے معہ ارتن برتن کے ہوئی۔ شہر کے تمام رئیس از کہہ تامہ مدعو کئے گئے۔ رنڈیوں کو بلاوے دیئے گئے۔ گویا عید میں دوسری عید کا سامان ہونے لگا۔ جلسہ کا دارالقیامہ آغائی صاحب کا باغ تجویز ہوا۔ جو ایک غیر آباد جگہ تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسین مہ جبین لولیوں کے واسطے یہی مقام مناسب اور موذوں تھا۔ کیونکہ بقول داغ
بتان ماہوش اُجری ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتی ہیں
قیاس اقترافی کے لحاظ سے بعض کوتہ اندیش حکم لگا بیٹھے تھے، کہ ڈاکہ ضرور پڑے گا۔ اس خیال سے پولیس کو ایک نگاہ دلفریب سے اشارہ کر دیا گیا۔ مکان کے اردگرد پہرہ مقرر ہو گیا۔
جلسہ کا سین قابل دید تھا۔ 1907ء میں تاریخ عید کی منگل کے روز آغائی صاحب کے باغ میں شام سے چہل پہل ہے۔ شاہراہ پر روشنی کے ٹھاٹھر لگائے گئے ہیں۔ گلاس روشن کئے جاتے ہیں۔ بگھیوں کے متواتر آمد و رفت سے خاک اُڑ رہی ہے۔ بگھیوںمیں کسی میں کچھ رئیس ہیں، کچھ ارباب نشاط بیٹھے ہوئے باغ کی طرف آ رہے ہیں۔ بگھی ایک وسعی پھاٹک کے قریب آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ میزبان مہمانوں کے خیر مقدم کے لئے مستعد ہیں۔ باغ میں جابجا گیس کی روشنی آنکھوں میں خنکی اور رحت پیدا کر رہی ہے۔ اسی باغ کے پہلومیں ایک وسیع بارہ دری ہے جس میں گیس کی روشنی بافراط ہے۔ دو وسیع نمگیرے صحن میں کسی معشوق کے مزاج کی طرح کھینچے ہوئے ہیں۔ صحن کے وسط میں سفید چاندنی کا فرش بچھا ہے۔ جس پر تمام میراثی ڈہاڑی گوئیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گردا گرد چوکہ لگا ہے۔ جس پر تماشائیوں کی وہ کثرت ہے کہ خدا کی پناہ۔ آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا ہے۔ چوکے کے بعد ایک وسیع اور بلند تختہ بندی ہے۔ جس پر اُونی غالیچہ مکا مکلف فرش بچھا ہوا ہے۔ جاہں تمام پریزادان عالم کا ہجوم ہے۔ حسین حسین رنڈیاں یکے بعد دیگرے آتی جاتی ہیں اور بیٹھتی جاتی ہیں۔
محمدی جانؔ اودی ساری سنہری بیل بوٹے کی بنارسی زیب جسم کئے عجب تبسم آمیز
صفحہ 8
ادا سے گلوریاں تقسیم کر رہی ہیں۔ حسین کمسن رنڈیاں
برس پندرہ یاکہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
نکیلی سجیلی، رسیلی، زیور مرصع سے آراستہ پیراستہ، لولی فلک کی خالا بنی ہوئ
پڑ گئی آنکھ جو اُن چاند سے رخساروں پر
لوٹتے کبک نظڑ آ گئے انگاروں پر
صورت شکل میں حور کی بچیاں، زاہد صد سالہ دیکھ پائے، تو منہ میں پانی بھر آئے، بیساختہ کہہ اُٹھے
حاضر ہیں ہم تو دینے کو دل بلکہ جان تک
لیتے کا نام بھی کہیں آوے زبان تک
جسکی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً کلیجہ تھام لے۔ اور سکتہ کی حالت ہو
دل میر و دزد ستم صاحبلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
صاحب خانہ بدر منیرؔ کریب کا ڈوپٹہ سرخ پھولدار گرنٹ کا پائجامہ اور سیاہ مخملی باڈی گلے میں موتیوں کا مالا، ماہ منیر، گلابی کریب کی باڈی کاچوبی زیب جسم کئے ہوئے۔ گلابی ساری ریشمی، کانوں میں ہیرے کے ایئرنگ سر پر اسٹار لگائے ہوئے، گلے میں موتی اور ہیرے کا مالا، ایک انجمن آرا، دوسری ملکہ مہر نگار بنی ہوئی ایک میم صاحب تو دوسرے ہندوستان کی پری کا پاٹ کئے ہوئے ایک پانؤں سے ٹہل رہی ہیں۔ کبھی اس کی مزاج پرسی ہو رہی ہے کبھی اُس کی پیشوائی ہو رہی ہے۔ اور اپنے مزاج ہی نہیں ملتے۔ گویا چلاوہ بنی ہوئی، اھر آئیں، اور اُدھر چلی گئیں۔ تمام رنڈیوں کا جتھے کا جتھا ایک ہی مقام پر جلوہ گر ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرستان کی پریاں اتر آئی ہیں۔
ان کی پشت پر کچھ کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ اس پر کچھ لوگ مؤدب تر دماغ دست بستہ اے توبہ صف بستہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن کے زمرہ میں محمدی والے داروغہ محمد خاں خشوک خوش غلافی کے زخمۂ ستار بنے ہوئے فالج زدہ ٹیڑہا منہ کئے ہوئے سب کا مُنہ چڑہا رہے ہیں۔ اور حق خواجہ تاشی ادا کر رہے ہیں۔
خاص بارہ دری کے اندر کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ کچھ ٹہل رہے ہیں۔ رؤساء شہر کوٹھوں پر
صفحہ 9
بالباس مکلف جلوہ گر ہیں۔ اتنے میں ارباب نشاط میں سے ایک کمسن پری معہ سازندوں کے مستعد ہو کر ناچنے لگی۔ ابھی کچھ تھوڑا ناچنے گانے پائی تھی کہ دوسری تیر جاں ستاں، کی طرح آ موجود ہوئی۔ا س کے بعد ایک کم سن مگر کھیلی کھائی ہوئی دلربا جدو کچھ ناچی گائی۔ اس کے اُٹھتے ہی حسن جان آئی۔ پھر مہر منیر بھی خوب گائی۔ پھر مہراج بُنداویں کے روشن چراغ اچھن نے گت میں وہ وہ توڑے لئے کہ پرگاسؔ کی روح شاد ہو گئی۔ خاص کر گھنگرو بجانے میں سپوت نکلا۔ پھر اسی قافیہ اور حروف تہجی کی قید سے بمبئی والی اُچھن بھی اچھا گائی۔ ان سے بار بار بھاؤ بتانے کو کہا گیا۔ لیکن گرانی کے زمانہ میں بھاؤ بتانا، ان کو مناسب نہ معلوم ہوا۔
پھر کشمیریوں میں ٖظفرؔ کی باری آئی۔ اس نے فسانہ عجائب کا ناٹک بہت کچھ ساز و سامان سے دکھانا چاہا، لیکن قلت وقت کے سبب سے تماشا نامکمل ختم کر دیا گیا۔
پھر کانپور والی بے نظری جو کسی قدر عاشق مزاج معلوم ہوتی ہے، اچھے اچھے گرہ بند گائی۔ اس کے بعد وزیر جان لکھنؤی، محبوب جان کانپوری، ماہ منیر کانپوری، لاڈلی پیلی بھیت والی گائیں، اور خوب گائیں۔
پھر فضل حسین کشمیری کی باری آئی۔ اس کے ساتھ نقال بیوی قدر نے اچھی اچھی نقلیں کیں۔ پھر وارث حسین بھی خوب گایا۔ اس کے بعد سیتا پور کی کلو، پ؛ھر محمدی جان، قابل تعریف گایا۔
پھر گویوں کی باری آئی۔ احمد خان، خورشید علی، بڑے منے خاں، خوب خوب بلیاں لڑایا کئے۔ سو روپیہ مبارکباد کا دیا گیا۔
ان کے علاوہ شیدا، زہرہ، چندہ، پناہرا، بسم اللہ ، فیروزہ، مشتری، بگن، کالکا پرشاد والی شہزادی، بلاقن، ممولا، ہیرا، شہزادی سلیم اللہ والی، حیدر جان چونے والی، بندا دین اس جلسہ میں گانے ناچنے کی نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئے۔ خود بدر منیر اور ماہ منیر کو بھی یہ دولت نصیب نہ ہوئی۔ کیونکہ وقت قلیل تھا۔ حقیقت میں اگر یہ محفل دو روز میں ختم ہوتی، تو شاید مشہور طوائفوں کو ناچنے گانے کا موقع ملتا۔ تمام محفل رنڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنڈیاں دور دور سے آئی تھیں۔ بعض مع انڈے بچوں کے موجود تھیں۔ جن کے لئے چودہرائن کے یہاں آنا فرض تھا۔ کم سے کم ڈیڑھ سو کے قریب رنڈیاں ہوں گی۔ اگر کوئی رئیس لاکھ دو لاکھ روپیہ صرف کرتا، جب بھی یہ کیفیت بعنوان شایستہ دیکھنا نصیب نہ ہوتی۔ ع
انچہ مے بینم بہ بیداری ست یا رب یا بخواب
رات بھر کے جاگے ہوئے معشوقوں کو نیند کا سخت غلبہ ہو گیا۔ اور مجبوراً گیارہ بجے دن کو
صفحہ 10
جلسہ کا اختتام کرنا پڑا۔ اور وہ پیاری پیاری دلربا صورتیں چشم زدن میں نظروں سے غائب ہو گئیں۔ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا
وہ سماں ابتک آنکھوں کے سامنے پھر رہ اہے۔ اور عاشق مزاج دل ہی دل میں مزے لے رہے ہیں
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا!!
تخلص داغ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
بُلبُل ہند
بُلبُل ہند لکھنؤ میں ایک مشہور میر شکار تھا، ہندوستان کی ہر رنڈی اس کے نام سے آشنا ہے۔ پرندوں ے ایک ایک عضو کی تشریح جس عنوان شایستہ سے وہ بیان کرتا تھا، آج تک دیسی شرح گلستان کی بھی کسی نے نہیں لکھی۔ ایک بُلبُل چہک رہا تھا۔ سامعین کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ رنڈیوں کا سراپا کھینچنے میں تو بہزاد و مانی کے کان کاٹے تھے۔ دُبلا پتلا منہنی آدمی، مگر چٹک مٹک ٹضب کی۔ ممکن نہ تھا کہ اُس کی زبان سے دو جملے سُنو۔ اور توسن طبع دولتیاں نہ اُچھالنے لگے۔ میکشی کی لت اس غضب کی تھی کہ جس دن میسر نہ ہو فاقہ سمجھے۔ شراب خانہ خراب کی بدولت ہزاروں مرتبہ کیچڑ میں لت پت ہوا جوتیاں کھائیں۔ تھانے میں کھنچے کھنچے پھرے۔ کچہری میں جرمانے بھگتے۔ کس و ناکس کی گالیاں کھائیں، مگر شراب نہ چھوٹی۔ ع
چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
آخر ہمیشہ کی ذلت سے چھڑانے کو گربہ اجل نے دبوچ لیا۔ اور چند روزہ مرض الموت کے بعد رات ہی رات دارالشفاء شاہی میں ٹھنڈے ٹھنڈے عدم کو سدہارے۔ دو چار جگت آشنا یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے۔
۔۔۔۔ رز چشم زدن صحبت یار آخرشد
روئے گل بہر ندی کم درد آخرشد
امید تو تھی کہ غریب بیکس کی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کل رنڈیاں سنائیں گی۔ اور سال بھر تک
آخری تدوین: