گلدستہ ظرافت - مؤلفہ نشتر لکھنؤی - یہاں پوسٹ کرنی ہے

شمشاد

لائبریرین
گلدشتہ ظرافت کی لڑی
-------------------------------

صفحہ 1

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

گلدشتۂ ظرافت

یعنے

مذاق لطیف کی کنجی، ہنسنے ہنسانے کی کل، کشت زعفران، دلگی کا میگزین، قہقہہ دیوار، آئینہ اسکندر، جام جم، چلتا پُرزہ، نور مجلس، و معنی پھبتی کی مشین، شمع محفل، تبسم ناز، لفط زندگی، رفیق زندگی، غم غلط کرنے کا بیمثل آلہ، لکھنؤ کی صاف و شیرین زبان

مولفۂ

جناب نشتر لکھنؤی

تمام حقوق بنام مہا دیو پرشاد پبلشر نظیر آباد لکھنؤ محفوظ ہیں۔

بہ اہتمام سیٹھ کندن لال مالک مطبع

سیٹھ کندن لال پریس لکھنؤ میں چھپا۔

مارچ 1918ء


صفحہ 2

گلدستہ ظرافت

مرتبۂ

جناب نشترؔ لکھنؤی


صفحہ 3

دیباچہ

ہندوستانیوں کا مزاج ہمیشہ سے مزاح پسند ہے۔ خاص کر لکھنؤ میں یہ عادت طبیعت ثانی بن گئی ہے۔ اور حقیقیت میں مذاق کلام کا نمک ہے۔ جس طرح کھانا بغیر نمک بے مزا رہتا ہے اسی طرح گفتگو میں اگر مزاح کی نمک پاسی نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ اسپر بھی مذاق خاص و عام میں فرق ہے۔ اور مذاق صحیح وہی ہے، جس میں تہذیب ہاتھ سے نہ گئی ہو۔ یہ ایک فن خاص ہے۔ شاہی میں تو اُمرا اور رؤسا کے مصاحبین اس کو فن شیرف سمجھ کر حاصل کرتے تھے۔ اور اسی کا نام علم مجلس تھا۔ ہر چیز کا اعتدال اچھا ہوتا ہے۔ ہنسنا ضرور باعث تفریح طبع ہے۔ لیکن خندۂ بیجا باعث انقباض خاطر ہوتا ہے۔ عقلا نے ہنسی کے بھی مراتب قایم کئے ہیں۔ مذاق، تمسخر، ظرافت، مزاح، دلگی، میں فرق ہے۔، زمانہ شاہی میں شرفا زادے طوائفانِ شہر سے علم مجلس حاصل رکتے تھے۔ اور طوائفوں کو ظرافت میں ایسا کمال حاصل ہوتا تھا کہ اچھے اچھے شہزادوں پر آوازے کستی تھیں۔ اور وہ انکو شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتے تھے۔ اور انکی شیریں زبانی کی داد سیتے تھے۔ کوئی لفظ بھی بار خاطر نہ ہوتا تھا۔ ایسی گفتگو کے تحت میں چند نکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن کو اُردو کے صنائع بدائع میں شمار کرنا چاہیے۔ ضلح، جگت، پھبتی، اوکھی، طعن، کنایہ، ذومعنی، رعایت لفظی، اردو ظرافت کے جزو اعظم ہیں۔ اور ان کے لئے بھی استعداد و علمیت کی ضرورت ہے۔ پھر محاورے اور روزمرہ سے کوئی فقرہ الگ نہ ہونے پائے۔ ظرافت بامزہ وہی ہے، جو برجستہ اور بروقت ادا ہو جائے۔ روتے ہوئے آدمی کو ہنسا دے۔ ایسے لطیفے اتفاق سے ادا ہو جاتے ہیں۔

عوام الناس انہیں لطیفوں کو "چھٹیاں اور اُڑان" کہتے ہیں۔ ایسے لطیف لطیفے جو طبیعت کو سرور بخشیں، کبھی کبھی شعرا کے قلم سے نکل جاتے ہیں۔ جن کی تاثیر قلب و جگر پر تیر و نشتر کا کام کرتی

صفحہ ۴

ہے۔ یہ بات ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔ خاص خاص لوگ اس کے اہل ہیں۔ میں جس وقت خواجہ محمد عبد الرؤف عشرت لکھنؤی کے ادبی، تاریخی اور اخلاقی مضامین کتابی صورت میں جمع کرنے کی فکر میں تھا، اور ایک ایک رسالے ایک ایک اخبار کی تلاش میں شہر شہر پھرتا تھا۔ ایک ایک پرچے کی چوگنی چوگنی قیمت ادا کرتا تھا۔ کبھی دوست احباب کی خوشامد تھی، کبھی غیر شناسا کا احسان اُٹھانا پڑتا تھا۔ اور سبب بھی یہی تھا کہ برسوں کے پُرانے رسالے جس کے پاس تھے خاص کر جن میں خواجہ صاحب کے مضامین تھے لوگ ان کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ اور بحفاظت تمام رکھتے تھے۔ اُن کے دینے میں بخل کرتے تھے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ کتاب عاریت دینے کا رواج اس زمانے میں متروک ہو گیا ہے۔ لیکن خدا نے مجھے اس تلاش میں کامیاب کیا۔ خاص کر کلکتہ، الہ آباد، کان پور اور لکھنؤ سے اکثر پرچے دستیاب ہو گئے۔ بعض مضامین میں نے لائبریریوں سے اخبارات اور رسالجات کے فائل نکلوا کر نقل کئے۔ کچھ پرچے خواجہ صاحب سے بھی ملے، پھر بھی بہت سے مضامین کی اب تک مجھے تلاش ہے اور ان کے ملنے کی فکر ہے۔

ٖحاصل کلام یہ ہے کہ اس تلا میں بعض پنچ اخباروں مثلاً اودھ پنچ لکھنؤ، جنرل پنچ لکھنؤ، الپنچ مانکی پور، پنچ بہادر بمبئی، فتنہ گورکھپور، ظریف لکھنؤ، وغیرہ وغیرہ میں ظرافت کے مضامین نظر آ گئے۔ جو دلچسپی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھے۔ اگر کل مضامین جمع کئے جاتے، تو ایک ضحیم کتاب ہو جاتی۔ میں نے اس مجموعے کا عطر نکال لیا۔ اور خاص خاص مضامین چن کر ایک کتابی صورت میں مرتب کر لیے۔

یہ دیکھ کر ناظرین متعجب ہوں گے کہ جو شخص اتنا متین، اتنا بڑا ادیب، اتنا مہذب نگار ہو، اس کے قلم سے ظرافت ایسی برجستہ ادا ہوتی ہے، جیسے کڑی کمان سے تیر۔

ایک ایک فقرہ لٹائے دیتا ہے، پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ نظم دیوار قہقہہ ہے تو نثر کشت زعفران۔ یہ بات عموماً دیکھی گئی ہے کہ ظرافت میں ناظم شاعرانہ قواعد و ضوابط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ عامیانہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔ مترکات کی پابندی کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اکثر تو ردیف قافیے کی بھی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب کی نظم ان کارکنوں سے پاک ہے۔ ان کی ظرافت آمیز نظمیں بھی شاعرانہ خود داریوں کو لئے ہوئے ہوتی ہیں۔

تفریح طبع کے لئے اس کتاب کا کتب خانے میں موجود ہونا، اور مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔


صفحہ ۵

آپ کسی رنج کسی فکر میں ہوں، اس نقش ظرافت کو عمل کے طریق پر ایک دفعہ پڑھ جائیے، سارے غم، ساری فکریں دل سے کوسوں دور ہو جائیں گی۔

امید ہے کہ یہ کتاب دماغی محنت کرنے والوں کی تفریح طببع میں معجون مرکب اور تسخیر ہمزاد کا کام دے گی۔ اور طبیعتوںمیں شگفتگی پیدا کرے گی۔ دیکھنے اور سننے والے ہمیشہ ہنستے اور ظرافت کے مزے لیتے رہیں گے۔

یہی وہ کتاب ہے جو ایک مرتبہ پڑھ چکنے کے بعد بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔

احقر نشترؔ عفی عنہ
سرائے میوہ، لکھنؤ
یکم مارچ 1918ء؁


صفحہ 6

پریزادوں کا جلسہ

اس میں شک نہیں کہ لکھنؤ باعتبار تماشبینی و حُسن پرستی "رنڈیوں کا دارالسلطنت" ہے۔ صورت، شکل، رعنائی، دلربائی، طرحداری، عیاری، مکاری، ستم شعاری، عشوہ، غمزہ، چالاکی، لجییائی کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ حسن کی دیوی نے یہاں گومتی ماتا کی گود میں جم لیا ہے۔ اسی ادائے دلکش کو یاد کر کے ناسخ مرحوم کہتے ہیں ؂

گُل سے رنگین تر ہیں خار لکھنؤ
نشہ سے بہتر خمار لکھنؤ

ابھی تک اس شہر میں یہ بات حاصل ہے، کہ دیہات سے جو سیدھا سادہ حسین مہ جبین آ جاتا ہے، کچھ دنوں کی نشست برخاست کے بعد شوخی طراری، غمزہ جانستاں سیکھ کر دلربائی کا مدرس اول بن جاتا ہے۔

اسی وجہ سے ہندوستان بھر کی طوائفوں کا تخت گاہ لکھنؤ قرار پایا۔ سرپرستی کے لحاظ سے اس تخت گاہ پر والی سلطنت یا رئیسہ ریاست ہونا ضرور تھا۔ پھر حسینوں کا سردار بھی لازمی حسین و مہ جبین بلکہ چندے آفتاب چندے مہتاب ہونا چاہیے۔ رنڈیوں کے انتخابی ووٹ سے اد گدی کی جانشین یا چودھرائن ماہ منیر البدر منیر قرار پائیں۔ ان "خاتونان ۔۔۔۔۔" کے حسن سیاسی سے کل امور کا فیصلہ جو اچھی اچھی عدالتوں سے برسوں میں طے نہ پائے، ان کی ایک ادائے مستانہ سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔

یوں تو شہر کی تمام طوائفیں دیرینہ حوصلے نکالنے کی غرض سے کبھی کبھی محفل رقص و سرود اور جلسۂ عیش و نشاط قرار دیا کرتی ہیں، لیکن چونکہ کوئی اصولی قوت ان کو حاصل نہیں، لہذا اکثر بازیچہ طفلاں بن کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔

چودھرائن کے جلسے میں معلم الملکوت، کے انتظام سے کسی قدر لطف جسمانی و شفا روحانی حاصل ہوتی ہے۔ رشک منیر کی چھٹی کے دیکھنے والے تو اس عظیم الشان جلسہ کے مزے اب تک


صفحہ ۷

لوٹ رہے ہیں۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اب ایسا دلکش سین اس عالم اسباب میں نظر آنا مشکل ہے۔ چھٹی کے بعد سے ان پریوں کا خاموشی کے ساتھ سناٹا کھینچنا تعجب خیز امر تھا۔ خدا خدا کر کے پھر سردی کے زمانہ میں طبیعتوں میں گرمی پیدا ہو گئی۔ اور جھٹ رشک منیر کی روزہ کشائی کے جلسہ کہ ٹھہرا دی۔

تورے کی تقسیم باقاعدہ سیر چشمی سے معہ ارتن برتن کے ہوئی۔ شہر کے تمام رئیس از کہہ تامہ مدعو کئے گئے۔ رنڈیوں کو بلاوے دیئے گئے۔ گویا عید میں دوسری عید کا سامان ہونے لگا۔ جلسہ کا دارالقیامہ آغائی صاحب کا باغ تجویز ہوا۔ جو ایک غیر آباد جگہ تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسین مہ جبین لولیوں کے واسطے یہی مقام مناسب اور موذوں تھا۔ کیونکہ بقول داغ ؂

بتان ماہوش اُجری ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتی ہیں

قیاس اقترافی کے لحاظ سے بعض کوتہ اندیش حکم لگا بیٹھے تھے، کہ ڈاکہ ضرور پڑے گا۔ اس خیال سے پولیس کو ایک نگاہ دلفریب سے اشارہ کر دیا گیا۔ مکان کے اردگرد پہرہ مقرر ہو گیا۔

جلسہ کا سین قابل دید تھا۔ 1907ء؁ میں تاریخ عید کی منگل کے روز آغائی صاحب کے باغ میں شام سے چہل پہل ہے۔ شاہراہ پر روشنی کے ٹھاٹھر لگائے گئے ہیں۔ گلاس روشن کئے جاتے ہیں۔ بگھیوں کے متواتر آمد و رفت سے خاک اُڑ رہی ہے۔ بگھیوںمیں کسی میں کچھ رئیس ہیں، کچھ ارباب نشاط بیٹھے ہوئے باغ کی طرف آ رہے ہیں۔ بگھی ایک وسعی پھاٹک کے قریب آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ میزبان مہمانوں کے خیر مقدم کے لئے مستعد ہیں۔ باغ میں جابجا گیس کی روشنی آنکھوں میں خنکی اور رحت پیدا کر رہی ہے۔ اسی باغ کے پہلومیں ایک وسیع بارہ دری ہے جس میں گیس کی روشنی بافراط ہے۔ دو وسیع نمگیرے صحن میں کسی معشوق کے مزاج کی طرح کھینچے ہوئے ہیں۔ صحن کے وسط میں سفید چاندنی کا فرش بچھا ہے۔ جس پر تمام میراثی ڈہاڑی گوئیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گردا گرد چوکہ لگا ہے۔ جس پر تماشائیوں کی وہ کثرت ہے کہ خدا کی پناہ۔ آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا ہے۔ چوکے کے بعد ایک وسیع اور بلند تختہ بندی ہے۔ جس پر اُونی غالیچہ مکا مکلف فرش بچھا ہوا ہے۔ جاہں تمام پریزادان عالم کا ہجوم ہے۔ حسین حسین رنڈیاں یکے بعد دیگرے آتی جاتی ہیں اور بیٹھتی جاتی ہیں۔

محمدی جانؔ اودی ساری سنہری بیل بوٹے کی بنارسی زیب جسم کئے عجب تبسم آمیز

صفحہ 8


ادا سے گلوریاں تقسیم کر رہی ہیں۔ حسین کمسن رنڈیاں؂

برس پندرہ یاکہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن

نکیلی سجیلی، رسیلی، زیور مرصع سے آراستہ پیراستہ، لولی فلک کی خالا بنی ہوئ؂

پڑ گئی آنکھ جو اُن چاند سے رخساروں پر
لوٹتے کبک نظڑ آ گئے انگاروں پر

صورت شکل میں حور کی بچیاں، زاہد صد سالہ دیکھ پائے، تو منہ میں پانی بھر آئے، بیساختہ کہہ اُٹھے؂

حاضر ہیں ہم تو دینے کو دل بلکہ جان تک
لیتے کا نام بھی کہیں آوے زبان تک

جسکی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً کلیجہ تھام لے۔ اور سکتہ کی حالت ہو؂

دل میر و دزد ستم صاحبلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا

صاحب خانہ بدر منیرؔ کریب کا ڈوپٹہ سرخ پھولدار گرنٹ کا پائجامہ اور سیاہ مخملی باڈی گلے میں موتیوں کا مالا، ماہ منیر، گلابی کریب کی باڈی کاچوبی زیب جسم کئے ہوئے۔ گلابی ساری ریشمی، کانوں میں ہیرے کے ایئرنگ سر پر اسٹار لگائے ہوئے، گلے میں موتی اور ہیرے کا مالا، ایک انجمن آرا، دوسری ملکہ مہر نگار بنی ہوئی ایک میم صاحب تو دوسرے ہندوستان کی پری کا پاٹ کئے ہوئے ایک پانؤں سے ٹہل رہی ہیں۔ کبھی اس کی مزاج پرسی ہو رہی ہے کبھی اُس کی پیشوائی ہو رہی ہے۔ اور اپنے مزاج ہی نہیں ملتے۔ گویا چلاوہ بنی ہوئی، اھر آئیں، اور اُدھر چلی گئیں۔ تمام رنڈیوں کا جتھے کا جتھا ایک ہی مقام پر جلوہ گر ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرستان کی پریاں اتر آئی ہیں۔

ان کی پشت پر کچھ کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ اس پر کچھ لوگ مؤدب تر دماغ دست بستہ اے توبہ صف بستہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن کے زمرہ میں محمدی والے داروغہ محمد خاں خشوک خوش غلافی کے زخمۂ ستار بنے ہوئے فالج زدہ ٹیڑہا منہ کئے ہوئے سب کا مُنہ چڑہا رہے ہیں۔ اور حق خواجہ تاشی ادا کر رہے ہیں۔

خاص بارہ دری کے اندر کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ کچھ ٹہل رہے ہیں۔ رؤساء شہر کوٹھوں پر


صفحہ 9

بالباس مکلف جلوہ گر ہیں۔ اتنے میں ارباب نشاط میں سے ایک کمسن پری معہ سازندوں کے مستعد ہو کر ناچنے لگی۔ ابھی کچھ تھوڑا ناچنے گانے پائی تھی کہ دوسری تیر جاں ستاں، کی طرح آ موجود ہوئی۔ا س کے بعد ایک کم سن مگر کھیلی کھائی ہوئی دلربا جدو کچھ ناچی گائی۔ اس کے اُٹھتے ہی حسن جان آئی۔ پھر مہر منیر بھی خوب گائی۔ پھر مہراج بُنداویں کے روشن چراغ اچھن نے گت میں وہ وہ توڑے لئے کہ پرگاسؔ کی روح شاد ہو گئی۔ خاص کر گھنگرو بجانے میں سپوت نکلا۔ پھر اسی قافیہ اور حروف تہجی کی قید سے بمبئی والی اُچھن بھی اچھا گائی۔ ان سے بار بار بھاؤ بتانے کو کہا گیا۔ لیکن گرانی کے زمانہ میں بھاؤ بتانا، ان کو مناسب نہ معلوم ہوا۔

پھر کشمیریوں میں ٖظفرؔ کی باری آئی۔ اس نے فسانہ عجائب کا ناٹک بہت کچھ ساز و سامان سے دکھانا چاہا، لیکن قلت وقت کے سبب سے تماشا نامکمل ختم کر دیا گیا۔

پھر کانپور والی بے نظری جو کسی قدر عاشق مزاج معلوم ہوتی ہے، اچھے اچھے گرہ بند گائی۔ اس کے بعد وزیر جان لکھنؤی، محبوب جان کانپوری، ماہ منیر کانپوری، لاڈلی پیلی بھیت والی گائیں، اور خوب گائیں۔

پھر فضل حسین کشمیری کی باری آئی۔ اس کے ساتھ نقال بیوی قدر نے اچھی اچھی نقلیں کیں۔ پھر وارث حسین بھی خوب گایا۔ اس کے بعد سیتا پور کی کلو، پ؛ھر محمدی جان، قابل تعریف گایا۔

پھر گویوں کی باری آئی۔ احمد خان، خورشید علی، بڑے منے خاں، خوب خوب بلیاں لڑایا کئے۔ سو روپیہ مبارکباد کا دیا گیا۔

ان کے علاوہ شیدا، زہرہ، چندہ، پناہرا، بسم اللہ ، فیروزہ، مشتری، بگن، کالکا پرشاد والی شہزادی، بلاقن، ممولا، ہیرا، شہزادی سلیم اللہ والی، حیدر جان چونے والی، بندا دین اس جلسہ میں گانے ناچنے کی نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئے۔ خود بدر منیر اور ماہ منیر کو بھی یہ دولت نصیب نہ ہوئی۔ کیونکہ وقت قلیل تھا۔ حقیقت میں اگر یہ محفل دو روز میں ختم ہوتی، تو شاید مشہور طوائفوں کو ناچنے گانے کا موقع ملتا۔ تمام محفل رنڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنڈیاں دور دور سے آئی تھیں۔ بعض مع انڈے بچوں کے موجود تھیں۔ جن کے لئے چودہرائن کے یہاں آنا فرض تھا۔ کم سے کم ڈیڑھ سو کے قریب رنڈیاں ہوں گی۔ اگر کوئی رئیس لاکھ دو لاکھ روپیہ صرف کرتا، جب بھی یہ کیفیت بعنوان شایستہ دیکھنا نصیب نہ ہوتی۔ ع

انچہ مے بینم بہ بیداری ست یا رب یا بخواب

رات بھر کے جاگے ہوئے معشوقوں کو نیند کا سخت غلبہ ہو گیا۔ اور مجبوراً گیارہ بجے دن کو


صفحہ 10

جلسہ کا اختتام کرنا پڑا۔ اور وہ پیاری پیاری دلربا صورتیں چشم زدن میں نظروں سے غائب ہو گئیں۔ ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا

وہ سماں ابتک آنکھوں کے سامنے پھر رہ اہے۔ اور عاشق مزاج دل ہی دل میں مزے لے رہے ہیں؂

کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا!!
تخلص داغ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بُلبُل ہند

بُلبُل ہند لکھنؤ میں ایک مشہور میر شکار تھا، ہندوستان کی ہر رنڈی اس کے نام سے آشنا ہے۔ پرندوں ے ایک ایک عضو کی تشریح جس عنوان شایستہ سے وہ بیان کرتا تھا، آج تک دیسی شرح گلستان کی بھی کسی نے نہیں لکھی۔ ایک بُلبُل چہک رہا تھا۔ سامعین کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ رنڈیوں کا سراپا کھینچنے میں تو بہزاد و مانی کے کان کاٹے تھے۔ دُبلا پتلا منہنی آدمی، مگر چٹک مٹک ٹضب کی۔ ممکن نہ تھا کہ اُس کی زبان سے دو جملے سُنو۔ اور توسن طبع دولتیاں نہ اُچھالنے لگے۔ میکشی کی لت اس غضب کی تھی کہ جس دن میسر نہ ہو فاقہ سمجھے۔ شراب خانہ خراب کی بدولت ہزاروں مرتبہ کیچڑ میں لت پت ہوا جوتیاں کھائیں۔ تھانے میں کھنچے کھنچے پھرے۔ کچہری میں جرمانے بھگتے۔ کس و ناکس کی گالیاں کھائیں، مگر شراب نہ چھوٹی۔ ع

چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

آخر ہمیشہ کی ذلت سے چھڑانے کو گربہ اجل نے دبوچ لیا۔ اور چند روزہ مرض الموت کے بعد رات ہی رات دارالشفاء شاہی میں ٹھنڈے ٹھنڈے عدم کو سدہارے۔ دو چار جگت آشنا یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے۔ ؂

۔۔۔۔ رز چشم زدن صحبت یار آخرشد
روئے گل بہر ندی کم درد آخرشد

امید تو تھی کہ غریب بیکس کی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کل رنڈیاں سنائیں گی۔ اور سال بھر تک
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
گلدستۂ ظرافت صفحہ 21

دولت لٹا رہے ہیں اپنی شراب پی کر
گویا چڑھا رہے ہیں یہ جام مفلسی کا
شادی میں رنڈیوں کا جلسہ تمام شب ہے
کیوں صبح کو نہ آئے پیغام مفلسی کا
ذلت پسند ہیں ہم محنت سے بھاگتے ہیں
بے جا نہیں ہم پر الزام مفلسی کا
کھیلا جوا تو ایسا کوڑی نہ پاس رکھی
احسان مفلسی کا اکرام مفلسی کا
اس مفلسی کے ہاتھوں بدظن ہیں سب مہاجن
ناراض سیٹھ جی ہیں انعام مفلسی کا
سر خط لکھا لیا ہے اس بے زری نے ہم سے
کاتب ہے فاقہ مستی اسٹام 1 مفلسی کا
افلاس کے سبب ہیں حاصل فروغ مجھ کو
مشہور ہوں جہاں میں گلفام مفلسی کا
اے مفلسی اٹھا لے اب تو جہاں سے مجھ کو
اے بے زری مٹا دے الزام مفلسی کا
ہر ایک کا تقاضا ہر ایک کا تقاضا
آغاز میں نہ سوچے انجام مفلسی کا
ہیں گور خر مہاجن جو بھاگتے ہیں ہم سے
ہم کو سمجھ رہے ہیں بہرام مفلسی کا
قومی برادروں نے کس کس طرح سے لوٹا
ان بھک منگوں نے بھیجا پیغام مفلسی کا
کیا ابخرات زر کے سر میں سما رہے ہیں
گھیرے ہوئے ہے ہم کو سرسام مفلسی کا
افلاس مجھ کو باتیں سنوا رہا ہے صد ہا
گویا غلام ہوں میں بے دام مفلسی کا
ایمان ہو جو قائم تو مفلسی نہ آئے
دشمن قوی ہے گویا اسلام مفلسی کا
آخر تماش بینی ہم کو چڑھا کے لائی
تھا عرش سے بھی اونچا کچھ بام مفلسی کا
اخبار کی بھی قیمت دینے سے منہ چرایا
پبلک میں ہم پہ آیا الزام مفلسی کا
آنکھیں چرا رہے ہیں خوش چشم آج ہم سے
تلخی یہ مارتا ہے بادام مفلسی کا
افسوس اب بگڑ کر بننے کا دھیان آیا
آغاز میں نہ سوچے انجام مفلسی کا
۔۔۔۔۔
1 ۔ اسٹامپ کی پ چندے میں دے ڈالی
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 22

چونچ ٹوٹا اُلّو

چونچ ٹوٹا ایک الو ہے کہو کیسی کہی
دوسرا بھی ابن ہشو ہے کہو کیسی کہی

جھنبجھائی محلے میں طرح طرح کے جانور چڑی مار لاتے تھے۔ اتفاق سے ایک عجیب غریب قسم کا جانور ساکھو کے ایک سوکھے ٹھونٹ پر بیٹھا کلیلیں کر رہا تھا۔ چودھری ہیرامن بھی اپنے کندھے پر جال ڈالے اور لاسہ لئے ہوئے جا رہے تھے۔ جھٹ کمپا لگا دیا۔ جانور ہشیار تھا۔ مگر قسمت میں کچھ دنوں قفس کی سیر لکھی تھی۔ اوندھے سیدھے گھسٹتے ہوئے چلے آئے۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو الو ہے۔ مگر چونچ ندارد اور ہیرامن تو صورت دیکھتے ہی مایوس ہو گیا اور اس کے فروخت ہونے کی امید سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
کیونکہ اس کے پاس دو چار الو کرنجی آنکھ چپٹی ناک سرخ سفید مہینوں سے چھیچھڑے کھا کھا کے مولے ہو رہے تھے۔ اور کوئی پوچھتا نہ تھا مگر چار نا چار نخاس دکھایا گیا۔
ادھر دوالی قریب تھی۔ ایک سفلی کے عامل کو بھوانی کی بھینٹ چڑھانا تھی اور عمل کو جگانا تھا۔ وہ بھی ڈھونڈتے ہوئے سویرے سویرے نخاس پہنچے اور ان کو اونے پونے مول لے لیا۔
رات کو عمل شروع کرنے کے واسطے بھینٹ چڑھانے کے لئے چھری اٹھائی تو الو بھی کچھ ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے لگا۔ مگر الفاظ بے ربط، بے تکے۔ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے۔ جیسے حَمل کو حُمل لَہر کو لُہر۔ آنی تھی، جانی تھی، کھانی تھی، ناچنی تھی، گانی تھی، اس پر طرہ یہ کہ چونچ کے نہ ہونے سے الفاظ اکھڑے ہوئے ادا ہوتے تھے۔
عامل صاحب نے جب یہ دیکھا عمل کو درگذر کیا۔ چھری پھینک دی اور اس الو کو اردو الفاظ رٹانا شروع کئے۔ کچھ مدت میں مار پیٹ کر رواں کر دیا۔ رفتہ رفتہ قسمت کی یاوری اور چند بےوقوفوں کی مہربانی سے ایک اخبار کا اڈیٹر ہو گیا۔ مگر تہذیب اور آدمیت آنا
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 23

تو دشوار تھی۔ وہی گدھے پن کی باتیں اور بےوقوفی موروثی حصے میں آئی۔ شیطان کی مدد سے کچھ شہدا پن آ گیا۔ دوسرے سئیاں شہدے نے اپنا شاگرد کیا تھا۔ اس کی تربیت کا اثر اور سونے میں سہاگے کا کام دینے لگا۔ ہر ایک کو گالیاں دیتا تھا۔ دو چار اسی منش کے شریک ہو گئے۔ اور وہی ہانک بولنے لگے۔ اتفاقاً ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب سے الجھ پڑا۔ انہوں نے جو غصے میں دو انچھر پڑھ کر پھونکے تو چڈا کی زبان بند ہو گئی۔ لاکھ پکارو منہ سے نہیں بولتا۔ بات چیت کو محتاج ہے۔ مہربانی فرما کر کسی صاحب کے پاس زبان بندی کا اتارا ہو تو اس چونچ ٹوٹے الو کی جان پر رحم فرما کر دریغ نہ فرمائیے۔ اگر منہ سے حرف پھوٹنے لگا تو آپ کو دے دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

کندۂ ناتراش

غالباً آپ لوگ مجھ کو نہیں جانتے۔ میں شاعر ہوں۔ میں نے اپنا تخلص اب تک نہیں رکھا۔ کیونکہ اس میں ایک آسانی ہے۔ جس شاعر کی غزل اچھی ہوتی ہے مقطع خارج کر کے میں اپنے نام سے شایع کر دیتا ہوں۔ مسطح کہنے کی بھی تکلیف نہیں اٹھاتا ہوں۔ میری قوم فخر کے مارے کُپا ہوئی جاتی ہے۔ خاص کر ایک درزن ۔ یا دریں چہ شک میری بہت مداح ہے۔ سب "لیڈر" ہیں۔ میں "نڈر" ہوں کیونکہ میں ہندو مسلمانوں میں کھنڈت ڈالنا چاہتا ہوں۔ مشہور ہے مصرع

ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں

میں بھی مولویوں کا اور پنڈتوں کا جانی دشمن ہوں۔ بس چلے تو خون پی جاؤں۔ سفید سیاہ میں کچھ تمیز نہیں کرتا۔
میں مدرسین کی خارجی توجہ سے بی اے ہوں۔ میں اپنی شہرت چاہتا ہوں اگرچہ وہ گالیوں اور ذلتوں سے حاصل ہو۔
مثنوی والے قصہ میں میں نے کچھ شیطان سے کم کام نہیں کیا۔ ادھر نیچ کو گدھا بنایا۔ ادھر اپنی قوم کے احمقوں کو برانگیختہ کیا۔
میرے نزدیک مثنوی پر تمام اعتراض بے جا ہیں۔ آتش، ناسخ اور تمام اردو کے شاعر
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 24

زبان نہیں جانتے تھے۔ کیونکہ ان میں مطعون ہونے والی زبان دانی کا حصہ موجود نہ تھا۔ زبان مصنف مثنوی جانتے تھے یا میں جانتا ہوں۔ زبان درازی میرے حصے میں ہے۔ چاہے بعد کو بخوبی مرمت ہو جائے۔ مثنوی پر جتنے اعتراض ہوئے سب غلط۔ جتنے شاعر ہیں سب جھوٹے۔ جتنے لغت ہیں سب غلط۔ میرے نزدیک تمام مطبع غلط، خود غلط، املا غلط، انشا غلط۔ مثنوی ہر طرح سے صحیح۔ اس کو میری آنکھوں سے دیکھو وہ پھوٹی آنکھ کا دیدہ ہے۔ اگر اس کی شاعری نہ رہی تو تمام دنیا سے شاعری نکل جائے گی۔
میرے پاس ایک کتاب اینٹ الپزادہ کاکوری کے گدھے پر لد کر آئی تھی۔ حضرت آدم سے پیشتر کی چھپی ہوئی۔ مصنف کی خاص مہر لگی ہوئی۔ اس کو سواے میرے اور کاکوری والے گدھے کے کسی نے نہیں دیکھا۔ اب بھلا میری تحقیقات کوئی کیا پا سکتا ہے؟
حمل پر اعتراض بے جا ہے۔ یہ حرکت میم بہت صحیح ہے۔ کیونکہ یہ اصل میں جمل تھا۔ جیم کے پیٹ کا نقطہ گر گیا حمل رہ گیا۔
بعضے میگویند کہ اصل اس کی مہمل تھی۔ میم کو فارسی دانوں نے کھا لیا اور اس کا پیش فتح سے بدل کر دوسرے میم کے سر پر پھینک دیا۔ ہائے ہوز بالکل ساکن تھا اس کو بھی زبردستی فتح دے دی۔ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ تو اب ہمل ہائے ہوز سے بفتح میم ہے۔ میرے پاس کتاب موجود ہے۔ دوسرے سجاتی بیگم کی دو ورقی میں بھی چاروں صفحوں پر یہی لکھا ہے۔ اب میں کسی شاعر اور کسی لغت اور کسی اہل زبان کو نہیں مانوں گا۔
میں کچھ مکتب خانہ کا پڑھا ہوا تو ہوں نہیں۔ نہ یہ غلط کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ ماسٹر صاحب نے زیر زبر کی حرکت مجھ کو سمجھا دی ہے۔ کوئی لاکھ کہے میں ہر گز نہ مانوں گا۔ کہ حمل میں حرکت نہیں ہے۔ میں نے خود حرکت کی تھی۔ دوسرے ماسٹر صاحب کی بے جا حرکتوں نے مجھ کو بخوبی سمجھا دیا ہے کہ کوئی لفظ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں ۔ کوئی جانور حرکت سے خالی نہیں۔
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 25

روٹی تو کما کھائے کسی طور مُچھندر

ایک نائی کی سرگذشت

حجام نے اپنی آبائی پیشے کو بہت کچھ چھپایا۔ مگر جب کوئی صورت روٹیوں کی نہ نکلی تو پھر رفتہ رفتہ اپنے قرینے پر آ رہا۔ آخر مجبوراً استرا پکڑنا پڑا۔ اور اقرار لسانی بھی کرنا پڑا۔ در حقیقت یہ عرب کے اونٹوں کے ساتھ دھوکے سے بندھا ہوا چلا آیا تھا۔ باپ کی طرف سے حجام ہے اور ماں کی طرف سے دائی والا ہے۔
خستان الجواری کا مسئلہ اس نے اپنی والدہ سے حاصل کیا اور گھر ہی میں مشق بہم پہنچائی۔ رفتہ رفتہ مسلمانی پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ حجامت کی ابتدا احمق الدین سے شروع کی۔ پہلے پہلے انہیں کو مونڈا پھر اپنے ہادی پر ہاتھ صاف کیا۔ اب تو ماشاء اللہ سے خط کی ایک ایک کھونٹی اکھیڑ لیتا ہے۔ یہ کوئی گھس کھدا نائی نہیں ہے۔ کوئی صاحب یہ خیال نہ فرمائیں کہ جس طرح بندر کے ہاتھ استرا لگ گیا تھا یہ بھی اسی قسم سے ہو۔ نہیں نہیں بالتحقیق معلوم ہو چکا ہے کہ یہ قدیمی حجام ہے۔ بعض لوگ دھوکا کھاتے تھے کہ شاید یہ اناڑی نہ تو وہی مثل صادق آئے کہ "کٹے ججمان کا سیکھے نائی کا" اگر استرا پکڑنے کی تمیز نہ ہوتی تو پنچ میں کبھی اشتہار نہ دیتا۔ استرا بھی ایسا ہے کہ جس کی یہ روایت مشہور ہے کسی نے کہا مٹھو نائی نے کہا راجہ کے بڑے بڑے کان۔ بےچارے نے سب حال تو اپنا آئینہ کر دیا اب بھی ججمان لوگ متوجہ نہ ہوں تو جائیے تاصف سے۔ ایک رئیس نے کہا تھا آگے کا اٹھا ہوا کھانا ملے گا۔ اور پانچ روپیہ مہینہ۔ روز چھوتے بھیا کا سر مونڈنا ہو گا۔ ستیا پور لئے جاتے تھے۔ ریل پر کسی نے کہہ دیا کہ کہاں لئے جاتے ہو۔ وہاں روز مسلمانی کی ریل پیل ہو گی۔ خوفزدہ ہو کر بھاگ آیا۔ لاکھ لاکھ سمجھایا کہ تم کو اس کا حق علیحدہ سے ملے گا۔ مگر یہ کب ماننے والے تھے۔ ختنے کے نام سے فوراً جھجکتا ہے۔ کیونکہ اپنے گھر میں تو اس کو ختان الجواری سے سابقہ پڑا تھا۔ اور یہاں ایک بھاری کام کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو مارے شرم کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ہاں حجامت میں استاد ہے۔ ایک دفتر کو تو الٹے استرے سے مونڈ چکا ہے۔ اور حجامت کی رعایت سے جونیر کا خطاب حاصل کیا ہے۔ اس واسطے
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 26

کہ جون کا قطعی دشمن ہے۔ اب کسوت الدولہ کا لقب دیکھئے کس مونڈے کسیرو سے ملتا ہے۔ مگر کسوت کی صفائی کا اس کو خیال نہیں۔ کٹوری بدقلعی لاتا ہے۔ کنگھی کے دندانوں میں میل بھرا رہتا ہے۔ استرے بال کم لیتے ہیں۔ چموٹا نان خطائی سمجھ کو خود کھا گیا۔ آئینہ اندھا رکھتا ہے۔ قینچی کے خالی گھیرے دکھاتا ہے۔ پلڑ کا پتہ نہیں۔ سکی گھسی ہوئی لاتا۔ ناخن گیری تو ہے ہی نہیں۔ کسی چھاپے خانے سے حرف تلاش چورا لایا ہے۔ موچنے کی ضرورت نہیں۔ اکا دوکا بال ہاتھ سے پکڑ کے اکھیڑ لیتا ہے۔ کسوت چمڑے کی ہے مگر پھٹی ہوئی۔ دن بھر حجامت بناتا ہے رات کو بدن بھی داب لیا کرتا ہے۔ اس میں بھی دو چار پیسے مل جاتے ہیں۔ اس حالت پر دماغ عظیم اللہ خانی رکھتا ہے۔ بات بات میں استرے پر ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ جب پوچھو یہی کہتا ہے خداوند نائی اگر غریب سے غریب بھی ہو گا تو دو چار اشرفیاں ضرور ہوں گی۔ ضرورت کے وقت منکسر المزاج بھی ایسا کہ باید و شاید عید بقر عید کو مٹی کا پیالہ ہاتھ میں روٹیوں کا تھیلہ بغل میں لٹا ہوا ہے۔ اور آپ دروازے دروازے پکار رہے ہیں۔ "خدا سلامت رکھے نائی کی تہواری اور روٹی مل جائے۔" کسی نے چار پیسے چار چپاتیاں دو آلو پکڑا دیے تو اب ان کی خوشی کا کہنا۔
حمام اس کا بالکل ٹھنڈا رہتا ہے۔ جو کوئی اندر جاتا ہے بہت پچھتاتا ہے۔ ہاں پانی چھوڑنے میں حاتم ہے۔ کھیسا اور بیسن دانی لئے ہوئے ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کوئی زبردست خان گھس آتا ہے تو کھیسے نکال دیتا ہے۔ نتواں اتنا ہے کہ سر ملنے میں حوض ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہر وقت رومال لئے کھڑا رہتا ہے۔ پہلے تولئے سے بدن پونچھتا ہے پھر لنگی دیتا ہے۔ نہانے کے بعد خراب پانی اس کی مہری سے بہہ جاتا ہے۔ شرمیلا اتنا ہے کہ کسی کو استرا لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو منہ پھیر لیتا ہے۔
منشی۔۔۔۔۔ صاحب کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ ایک نائی کے لڑکے نے چوک کے ایک عطر والے حافظ جی صاحب کو عیش باغ کے میدان میں دھوکا دیا تھا۔ بے چارے کو مشکوک حالت میں بڑا گھر دیکھنا پڑا۔ یہ معاملہ سب پر روشن ہے۔ العاقل تکفیۃ الاشارہ۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کی بدولت اس کے گھر میں عطر تیل کی ریل پیل رہتی ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ دال میں کچھ کالا معلوم ہوتا ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 27

مُنّے حجّام کی مرمّت

مولانا ظریف۔ بے شک میں سوختہ بخت سیاہ نصیب ہوں کہ میری اولاد ناخلف، بے کس کا لگا، دم کٹا لنگور، کنکر کوٹنے کا درمٹ، لاسے کی چھڑ، عوج بن عنق کا تیسرا پاؤں، بے دال کا بودم، شتر بے مہار، عینک باز بد مانس، وحشی کتا، لمبو بے ڈول، جلے پاؤں کی چھچھوندر، خدا کی شان اپنے بات کی تعریف میں کسوت عبادی سے یوں اعتراف کرے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار ۔ اور اس خفگی کا باعث یہ ہے کہ حکیم نے اپنے بھتیجے کی مسلمانی کا جوڑا اس کو نہیں دیا تھا۔ بس اب کیا تھا۔ کٹے ہوئے کنکوے کی طرح کنوں سے اکھڑ گئے۔ لاکھ ڈور کنکوا دکھاؤ مانتے ہی نہیں۔ کچھ تو اپنے ہادی کا زور اور کچھ چودہراہٹ کا بل۔ خفا ہوئے تو آپ کے منہ کا تھوتھن لٹک آیا۔ اب جمعہ جمعہ خط بنانے کے واسطے بلاؤ دماغ ہی نہیں ملتے۔ جی حضور استرے باڑھیے کے یہاں پڑے ہوئے ہیں۔ خداوند قینچیاں اتر گئی ہیں۔ ناخن گیری کی باڑھ نہیں۔ مرزا صاحب کے بال کاٹ آئے۔ تو غلام حاضر ہوتا ہے۔ خانہ زاد کو آج کل قیصر باغ کے رجواڑوں سے چھٹی نہیں ہے۔ تابعدار سہ پہر کو حاضر ہو گا۔ ایک مرتبہ بعد دل در معوقولات کے صبح کو احتیاج نہانے کی ہوئی۔ حمام میں گیا تو کیا کہتا ہے۔ حضور یہ کل کا پانی ایسا ٹھنڈا ہے۔ لاکھ آنچ کرو گرم نہیں ہوتا۔ دیکھئے پھر رات سے پھونکتے پھونکتے آنکھیں پھوٹ گئیں۔ لیکن پانی برف کی طرح جما ہوا ہے۔ کسی طرح پگھلتا ہی نہیں ہے۔ اسی وقت خط بنوا لیجیے کل مجھ کو چھٹی نہ ہو گی۔ بڑی چودھرائن کے یہاں جلسہ ہے۔ نیوتہ دینے جاؤں گا۔ علاوہ ازیں انانیت اور ہمہ دانی کے دعوے نے اس کو اور بھی مٹا دیا ہے۔ اپنے دل میں سمجھتا ہے کہ میں شاعر ہوں۔ نثار ہوں، حکیم، جراح ہوں، چودھری ہوں، اور ۔۔۔۔۔ نائی تو ضرور ہی ہوں۔ اس میں کوئی ایسا نہیں جو میرے نام سے ایک قصیدہ کہہ دے تو دو چار پیسے بھیک مانگ کھاؤں۔
حجامت کے چار پیسوں میں کیا ہوتا ہے۔ سفید پوشی کا شوق ہے۔ مارے شرم کے کسوت شالی رومال میں چھپا کے رہتا ہوں۔ مولوی صاحب سے اس واسطے جلتا ہوں کہ کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رؤسا میں دال نہیں گلتی۔ کئی مرتبہ
۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔ جس کا نام ۔۔۔**
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 28

خیال کیا کہ مرزا صاحب کی خدمت میں فیض یاب ہوں۔ لیکن مبارک علی اور مولوی کے خوف سے ہمت نہیں پڑتی۔ ورنہ چغل خوری کی عادت تو مجھ میں ایسی ہے کہ شاید *۔
غرض کہ اوصاف احاطۂ تحریر سے باہر ہیں۔ فی الحال چند اشعار آبدار اس کی تعریف میں نظم کئے ہیں۔

عین ذلت کو سمجھتا ہے یہ عزت اپنی
کھول دیتا ہے جو ہر وقت حقیقت اپنی
گھر سے جس وقت نکلتا ہے یہ احمق جاہل
تو جتاتا ہے رئیسوں سے شرافت اپنی
خود ستائی کا مرض اس میں سوا ہے سب سے
جاہلوں میں یہ بگھارا کرے حکمت اپنی
چودہری آپ کو کہتا ہے یہ حجاموں کا
اس لئے خود ہی جتاتا ہے حماقت اپنی
ظرف جو اوچھے ہیں از خود وہ چھلک جاتے ہیں
کہہ دو رہنے دے لیاقت کو ہدایت اپنی
مذہبی اس کع تعصب ہے تو ہو ہم کو کیا
کم نہ ہو گی کبھی واللہ ظرافت اپنی
غاد کو میں نے چپت دی تو اسے چھینک آئی
اندرونی وہ دکھاتا تھا لیاقت اپنی
ہم بھی موجود ہیں نائی کی مرمت کے لئے
اور کھلوائے گا کیا ہم سے حقیقت اپنی
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 29

بی سجادی کا شکایت نامہ مولانا کے نام

پیارے مولانا قسم ہے اپنےسر کی اگر مٰں جانتی کہ تم اس معاملہ میں اس طرح بگڑ کھڑے ہو گے ۔ ایسا جھاڑ کا کانٹا بن کے میرے پیچھے چمٹ جاؤ گے تو کوئی ایک نہیں ہزار کہتا میں نوج ایسے مردوے سے بیچ میں نہ پڑتی۔ اے میں تم سے کہتی ہوں۔ اللہ رکھے میں تو ہمیشہ سے تمہارے منہ چڑھی تھی۔ تم وہی مولانا ہو۔ ابھی چار دن کی بات ہے تم نے پردۂ عصمت نکالا تھا۔ مجال کیا تھی کہ کوئی تمہاری مخالفت کر جاتا۔ مگر میں نے کیسا کیسا مسخرہ پن کیا۔ کیسی کیسی دل لگیاں کیں۔ تم ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا کئے۔ پنچ کا کوئی پرچہ خالی نہیںجاتا جو میں تم کو نہ سناتی ہوں۔ تمہارے نام سے میری دو ورقی کی رونق تھی۔ لوگ اس اخبار کو نہیں دیکھتے تھے جس میں سلامتی سے کچھ تم سے چھیڑ خانی نہ ہو۔ مضمون میں گرما گرمی نہیں آتی تھی جب تک تم سے نوک جھوک نہ ہو۔
میں نے تمہاری ذاتیات پر بہت سے ایسے حملے کئے جس سے تم کو برا ماننے کا حق تھا۔ میرے منہ سے میرے ہوا خواہوں نے جو کچھ تم کو کہا تم نے شربت کے گھونٹ کی طرح پی لیا۔ یہاں تک کہ بعض بعض تاڑنے والے بھانپنے لگے۔ کسی کسی کو تو یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کبھی ایک آدھ منہ پھٹ میرے منہ در منہ کہہ گزرا کہ اچھا موٹا یار پھانسا۔
میں نے کہاں ہاں خوب کیا۔ کسی ایسے تیسے کا اجارا ہے۔ جس کو رشک ہو اپنی **** کو بھیج دے۔ کیا کسی بھڑوے کی چوری ہے۔ ہم تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔ ایک ادبی پرچے کے ساتھ میری بھی چھیڑی خانی برابر چلا کی۔ کچھ میری عادت ہو گئی تھی کہ ناحق بے ناحق تم کو جان جان کے ستاتی اور تمہارا منہ چڑھا دیا کرتی تھی۔
دوسرا پرچہ تو ادھر تم نے نکالا اور میں نے اوازے توازے شروع کئے۔ ایسی ایسی اوکھیاں سنائیں۔ وہ وہ ملاحی گالیاں دیں کہ بعض وقت تو میں اپنے جی میں خود شرمندہ ہوتی تھی۔ دوسرا ہوتا تو خدا جانے کیا کچھ کر ڈالتا۔ اور کیسی کچھ میری بے عزتی نہ کرتا۔ مگر اللہ رکھے تم
------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 30

ہمیشہ خندہ پیشانی سے ٹالا کئے۔ کبھی تیور پر میل تک نہ آیا۔ مگر اب تو میں دیکھتی ہوں کہ تم سے مجھ سے علی کافر کا بیر پڑ گیا ہے۔ مجھ کو پاتے ہو تو چھری کو نہیں پاتے ہو۔ چھری کو پاتے ہو تو مجھ کو نہیں پاتے ۔ اور یہ سب موئے جلنے والے خوش ہو رہے ہیں۔
دم بھر کے واسطے تم غصہ تھوک دو تو خطا معاف ایک بات کہوں نہ تم نگوڑ مارا نیا پرچہ نکالتےنہ مجھ کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوتا۔
آپ ہی تو پرچہ نکالا۔ اس کے واسطے کیسی کیسی سر توڑ کوششیں کیں۔ کہ کسی طرح ہندو مسلمان گھل مل کر ایک ہو جائیں۔ ہندو کی لڑکی مسلمان کے گھر آئے۔ مسلمان کی لڑکی ہندو کے گھر جائے تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ آپس میں مصالحت اور موافقت بغیر مناکحت کے نہیں ہو سکتی۔ مجھ ۔۔۔۔۔ پیٹی کی جو شامت آئی تو جھٹ تمہاری نصیحت پر عمل شروع کر دیا۔ جہاں کچھ لوگوں کے لڑکے بلا بلا کر دو دو کھٹیاں سب کو پکڑا دیں۔ میل جول پیدا کیا۔ آمد و رفت کی راہ نکالی۔ دانت کاٹی روٹی ہو گئی۔ وہی روش وہی چال وہی چلن میں نے اختیار کیا جو تم نے بتایا تھا۔ آخر کو دہی چائے پانی ہو گیا۔ اور ایسی گھل مل گئی کہ لوگ مجھ کو بن میں سے ایک سمجھنے لگے۔ کچھ دنوں اور چپ رہتے تو میری اولاد بھی انہیں میں مشہور ہو جاتی۔ اور دو چار جھول میں بھی نکال لیتی۔ بس فقط نام بدلنے کی کسر رہ جاتی۔
مگر تم نے تو عین کو یال میں غلُہ لگا دیا۔ ابھی اچھی طرح سے قارورہ آمیز نہ ہونے پایا تھا کہ تم نے زن سے مثنوی پر اعتراض جڑ دیا۔ محلے بھر کے لونڈے روتے پیٹتے بھنبھیری کی طرح میرے آس پاس چکر لگانے لگے۔ اور زبان کے متعلق مجھ سے آ آ کے پوچھنے لگے۔ جھوٹ کیوں بولتی میں نے جان صاحب کے منہ سے حمل سنا تھا۔ دوسرے میں خود حمل بولتی ہوں۔ ایک مرتبہ میرا خود حمل گر چکا ہے۔ شاید تم کو یاد ہو تمہاری ہی تو شرارت تھی۔ نگوڑا حمل ہے ہی کیا چیز۔ جب ذرا کسی سے گھان میل ہو گیا۔ حمل موجود۔ مگر زیر زبر کی تحقیقات اور چھان بین کے ساتھ میں نے تمہارے ہی منہ سے سنا۔ میں ایسی ہندی کی چندی نکالنا تو جانتی نہیں یہ تمہیں کو مبارک رہے۔
اسی طرح میں ہمیشہ لہر کہا کہ وہی میں جانتی ہوں۔ میری کاکوری میں بھی لوگ یہی بولتے ہیں۔ اب تم مردون نے ایک ساکن اپنی طرف سے زبردستی اس میں لگا دیا تو لگایا
--------------------------------------------------------------
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ101

ہوتا ہے وہ اخبار مقابل کس سے
جو فرد ہے اس وقت میں اور یکتا ہے
اب چونچ ذرا بند کرے یہ اپنی
زیبا نہیں اس کو یہ شتر غمزہ ہے

کچھ ظرافت میں کسی سے کم نہیں مسٹر ظریف
جو مقابل ان سے ہو گا خوب ٹھونکا جائے گا
ہر ورق اخبار کا گویا کہ اک آئینہ ہے
ہمسری کی ایرے غیرے نے تو مُنہ کی کھائے گا

میں نے اک دوست سے اک روز تبختر سے کہا
آپ کو حُسن پرستی سے تعلق کیسا
آپ معمورہ الفت میں عبث رہتے ہیں
کہ حسینان ستم کیش کا ہے وہ ڈیرا
احتراز آپ کو لازم ہے ان احبابوں سے
کیونکہ ہے ظلم و ستم ماہ روخوں کا شیوہ
ہے رقیب آپ کا ای جاہل ناداں بیشک
آپ جو فعل کریں ہوتا ہے اس کو صدما
حرکت آپکی دہچکا اسے دیدتی ہے
ٹھیس لگتے ہی وہ ہو جاتا ہے چورا چورا
رحم فرمائیے اب حاجی بغلول پر آپ
ورنہ بے دال کا بودم ہے بگڑ جائے گا
خریہ کوکوری سے آیا ہے پے کا سخی ہوں
اس گدھے کے لئے درکار ہے باسی خشکا
ہنس کے فرمایا کہ سچ کہتے ہو تم مشفق من
پر کروں کیا کہ نہیں دل پہ ہے قابو اپنا
دلربا یا نہ اداؤں پہ مرا دل ہے نثار
ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است اینجا

قطعۂ قاطع

دفتر میں اس طرح یہ گدہا ہے ڈھرا ہوا
گویا ہے عیش باغ میں بندر مرا ہوا
کیوں منہ بولتا نہیں یہ شخص بے زباں
مال حرام گویا ہے مُنہ تک بھرا ہوا
اک روز رو رہا تھا پڑا اپنی بنچ پر
سب کو ہوا یقین کہ گد ہے مرا ہوا
بولا پری حسین کہلوا کے ایک شخص
دیکھو یہ ہے فریم کا چمڑا دھرا ہوا
اس نے کہا فریم نہیں ہے حضور یہ
ٹیپو ہے آج رات سے بھوکا پڑا ہوا
اتنے میں اس گدھے نے جو اگڑائی لی وہاں
ہنستا ہوا ہر ایک وہیں اُٹھ کھڑا ہوا


صفحہ102

دیکھا ظریف کو تو وہ اخبار دب گیا
دل میں خجل کمال یہ چکنا گھڑا ہوا

اور لیتے جاؤ

جب حمل گر جائے گا تو سخت یہ شرمائے گی
سامنے مردوں کے بیچاری نہ ہرگز آئے گی
دیکھ یہ اچھی نہیں ہے دلگی ہر ایک سے
پیٹ رہ جائے گا تجھ کو تو بہت پچھتائے گی
چھوڑ دیں گے ہاتھ ہلکا سا اگر مسٹر ظریف
مدتوں تک کھوپڑی چرخہ تری بھنائے گی

شاگرد اُستاد کے ناز و نیاز

آتشؔ سےکہا کسی نے ہنس کر
اُستاد مجھے ملا قصائی
آتا نہیں ہےرحم تم کو مجھ پر
دیتا پھروں کب تلک دُہائی
شاعر ہو غزل نہیں بناتے
کچھ مجھ کو نہ شاعری سکھائی
کہتا ہوں جو شعر ہنستے ہیں سب
کہتے ہیں یہ نظم ہے ہوائی
صورت مری کم نہیں کسی سے
ہاتھوں سے خدا نے ہے بنائی
اُردو بھی وہ چیز ہے کہ مجھ کو
اب تک تو نہ آنا تھا نہ آئی
اک مثنوی میں نے نظم کی ہے
تم نے وہ بھی نہ خود بنائی
پہلے اُسے رندؔ نےبنایا
بعد اس کے صبا نے کچھ مٹائی
چھر میں اُسے گُھڑس دیا پھر
پھر یہ کے وہ اولتی میں آئی
پھر کاٹ دیا اُسے بہت کچھ
کیا خوب یہ مثنوی بنائی
باز آیا میں ان عنایتوں سے
کی آپ نے خوب یہ بھلائی


صفحہ103

اصلاح حضور نے جو دی ہے
مجھ کو وہ پسند کچھ نہ آئی
اچھا مجھے پھیر دو یونہی تم
میں آپ ہوں شاعر ہوائی
بلبل ہوں میں گلشن سخن کا
منقار ہزار کی ہے پائی
گو مثنوی میں برائیاں ہوں
صورت میں تو کچھ نہیں بُرائی
مُنہ دیکھے کی ہو رہی ہے تعریف
صادق ہے یہ بات مجھ پہ آئی
صورت میری جو دیکھتا ہے
دیتے نہیں غیب اُسے سوجھائی
آتشؔ نے کہا قلم دکھا کر
ناخوش زہن اے حسیں چرائی
گربرسر و چشم من نشینی
اے چشم و چراغ آشنائی
با اینہمہ کبر و خویش بینی
بازت بکشم کہ ناز نینی

قطہ عیدیہ

عید کے دن زراہ مکاری
بولی آیا کہ میں ترے واری
آج کے دن کی ہے خوشی سبکو
کوئی نائن ہو یا کہ بھٹیاری
آشناؤں سے اپنے ملتی ہیں
ماہ وش شاہدان بازاری
اب نہیں میرے پوچھنے والے
درد کس سے کہوں میں دکھیاری
ہاں بوڑہا پے میں کون پوچھے گا
ساری دنیا کو تو ہے بیزاری
مر گئے آہ میرے عاشق سب
اب کرے کون میری غمخواری
سلامت رہو ہزار برس
ملتجی ہوں بگریۂ و زاری
آج کے دن ظریف خاں سے کہو
لے کے آئیں ضرور پچکاری
صاف کر دیں وہ کوٹھری دالان
سنتی ہوں آ رہی ہے بیماری
دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ باد شمناں نظرداری


صفحہ104

طاعونی چوہے

توپ اور بندوق اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
صاحب خانہ کو بھی گھر سے بگاتے ہیں چوہے
جانتے ہیں یہ کہ ہم طاعون کے مختار ہیں
اس لئے ہر ایک کو آنکھیں دکھاتے ہیں چوہے
وہ بہادر شیر کو چو رنگ کر دیتے تھے جو
جائے عبرت ہے کہ اب ان کو ڈراتے ہیں چوہے
شیر سے کچھ کم نہیں ہوتا ہے ان کا رعت داب
سامنے پھولے ہوئے جس وقت آتے ہیں چوہے
ہے یقیں رستم بھی اپنی جان لیکر بھاگ جائے
جب سُنے طاعون اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
چار آنکھیں کیا ہوئیں گویا قیامت آ گئی!
موت کا پیغام اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
کوئی اپنا دخل دے اتنی کہاں اُس کی مجال
جس جگہ پر چاہتے ہیں گھر بناتے ہیں چوہے
بدگمانی سے کسی کی آنکھ جھپکے کس طرح
سیند نعمت خانہ میں شب کو لگاتے ہیں چوہے
وقت آخر بھاگ جاتے ہیں عزیز و اقربا
نزع میں بہر عیادت روز آتے ہیں چوہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

تمت
 

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 54 سے 56
ص 54

ہندوستان کی تاریک حالت ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخی اوراق بےکس بیوہ کی نامراد آہوں سے لکھے ہوئے ہیں۔ اور مزا یہ ہے کہ اس مسئلہ میں نئی اور پرانی روشنی والے دونوں شریک ہندومسلمان سب ایک اتمام ہندوستان بس دہاتی میں شریک بلکہ قدیم تاریخ کی آنکھ تو ان کی پروردحات پر اور بھی خون کے آنسو بہاتی ہے۔
اس خفیف الحرکتی کے اسباب کی بدولت ہندوستان کے غافل ہندو مسلمانوں نے ایک کروٹ بدلی اور بیداری کے کچھ کچھ آثار نظر آنے لگے۔ لیکن ابھی تک اصلاحی اثر بہت کم قبول کیے گئے۔ صرف اخباروں میں غل غپاڑہ مچایا گیا۔ اور بےوقوف ہندوستان کی دولت لوٹنے والوں شاطروں نے اس میں بھی اپنا کام کر لیا۔ ہماری یاد میں بدقسمت ہندوستانی کبھی کسی امر میں اتفاق سے کام نہیں لیتے۔ لیکن بخلاف اپنی جبلی عادت کے شادی بیوگان میں سب خودغرض تنزل طلب اور مدبر نیکدل جھوٹے سچے بڈھے جوان سب ایک زبان ہو کرہمہ تن کوشش میں مشغول ہوئے اور ان کی آزادی اور حریت کے دعوےکو جلی حرفوں میں لکھ کر ملک میں پیش کرنے لگے۔
لیکن اس کے ساتھ مردوں کی خواہش کاپہلو نہایت تاریکی میں ڈال دیا۔ اور ان کی اشتہا کی طرف سے بالکل انکھیں بند کرلیں۔ اور ان کی آزادی کے سامنے ایک آہنی دیوارکھڑی کردی۔ اس واسطے کہ شریعت کا عام حکم مردوں کے واسطے چار نکاح تک کرنے کا ہے اوردرحقیقت دنیاوی لحاظ سے اس کی ضرورت بھی تھی۔ کہ اگر پہلی بیگم صاحب سے کچھ کھٹ پٹ ہو جائے تو پریشان خاطری سے سو رہنے کی حاجت نہ رہے۔بلکہ دوسرے محل میں آرام سے بسر ہو اور جو وہاں بھی رنج کا سامان رہتا ہو تو تیسری راحت دل بغل میں ہو۔ ان کے بھی نازو غمزہ کا تھرمامیٹر حد اعتدال سے زائد ترقی کر جائے تو چوتھی ماہوش پری پیکر حور جنت چوتھی کی دلہن بن کر بستر استراحت کو بغل کو گرم کرے۔
مگر مدبران ملک نے اس دروازے ہی کو بند کر دیا۔ اور ایک شادی سے زیادہ ناجائز

ص 55

پھر کہتے ہیں اورصلاح دیتے ہیں کہ زینہار ہرگز دو بیبیاں نہ کی جائیں۔ ورنہ مبتلا کی طرح جان آفت میں ہو جائے گی۔ ؂
میری سنو اگر نہیں قبول گوش کر
دو بیبیاں نہ کیجیو زنہار بھول کر
اب بتائیےکہ ایک بیوی کو جب یقین کامل ہو گیا کہ میاں آگے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ تو وہ بھلا کہاں سیدھی رہنے والی ہے ۔اس کا دماغ عرش معلیٰ پر کیوں کرنہ پہنچ جائے۔ وہ جانتی ہے کہ میاں کی معراج ترقی کی حد مجھ ہی تک قراردے دی گئی ہے۔ حرام کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور دو بیبیوں سے ملّا نے پرہیز لکھ دیااب جو کچھ ہوں میں ہی ہوں۔ اس سے تمام مردوں کے اقتدار میں بٹّہ لگ جائے گا۔ اور ان سے محبت و اتحاد کا ایک لمحہ بھر بھی ان کے دماغ میں گذر نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ آزدی اور حریت کے خیال نے اس فرقے کے کان میں کچھ اور ہی پھونک دیا ہے۔ بہر کیف عورتوں کی چل پوں کو اب عام نگاہوں سے مردوں کی نہ دیکھنا چاہیئے۔ اور اس زنانہ بغاوت کی آتش کو مردانی بہادری سے بجھانا چاہیئے۔ کیونکہ ہمارے اقدار کے واسطے یہ شورش سخت مضر ہے۔ جاپان اور روس کی حکایتی سن کر عورتوں کا آزادی کے واسطے غل غپاڑہ کچھ بیجا ہنسی ہے ۔ بہرحا ل گو ملکی مدیر اس امر کو دنیا کی ترقی ک واسطے نیک فال سمجھتے ہوں۔ لیکن یماری ذاتی رائے اس کے خلاف ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرفہ ڈگری دینے والے ضرات اگر ہماری اپیل پر غور نہ کریں گے۔ تو مردانے تمام مقدمے ڈس مس ہو جائیں گے۔ اور انگلستان کی طرح ہندوستان بھی اس امر میں بکھر کر رہ جائے گا۔

ص 56

ملکی بہروپیئے
انکی تصویر کو سو رنگ بدلتے دیکھا
جس طرح بطن بہروپیے چار پیسے کمانے کے واسطے اپنی وضع قطع مردمی۔ انسانیت سے ہاتھ دھو کر لہنگا، ساری یا پائجامہ، دوپٹہ، محرم کرتی پہن کر ناک میں نتھ، کانوں میں بالیاں، پور پور چھلّے، گلے میں طوق و ہنسلی طرح طرح کے زیورات پاؤں میں مہندی ملکر عام خلقت کو تماشائی بنا کرزنانہ لباس میں بھیک مانگ لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض شربت فروش ہندو مسلمان ہیں۔ جو محض بیجا خوشامد اور معکوس ترقی اور تنفر آمیز تہذیب کی دوڑ میں اپنی آبائی طرزو روش کو چھوڑ کر مرزئی، انگرکھا، کرتہ، دھوتی، پائجامہ، گھٹنّا، عبا، قبا، چوغہ، چپکن اور تلی ٹوپی، چرکوش پگڑی، شملہ دیسی لباس پوشاک کہ خیرباد کہہ کر مجازی جنٹلمین بننے کی فکرمیں ڈاڑھی۔ مونچھوں کا صفایا بول کر افلاس اور مصیبت کو اپنے گلے کا ہار بنا لیتے ہیں جو ملک کی تباہی اور بربادی کا ایک پیش خیمہ ہے۔
اس مبارک زمانے میں جبکہ گورنمنٹ کے عالی شان اور بے نظیر اقبال کی وجہ سے اعلیٰ درجے کا امن و اطمینان حاصل ہے۔ افسوس ہے کہ ان برکات سے ہم کو فائدہ اٹھانے کی مطلق لیاقت نہیں بلکہ روز بروز قعر مذلت میں گرتے جاتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اوبار و بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے۔ ہندوستان کی قحط سالی جس وضعداری سے اپنا قدم آہستہ آہستی ترقی کے میدان میں بڑھاتی جاتی ہے اور جس سلاست روی کی چال سے دل میں گھر کرتی جاتی ہے۔ وہ قابل تقلید ہے۔ لاکھ پیداوار ہو مگر یہ نیک بخت اپنی جگہ سے ٹسکتی ہی نہیں۔ بلکہ روز بروز گرانی کا پلہ تحت السرا کو چلا جاتا ہے۔
اکثر بندگان خدا آٹھ پہر کی مزدوری کے بعد چار پانچ دم سے ٹکڑا ٹکڑا کھا کر بسر کرتے ہیں اور فاقے اور سردی کے مارے مرنڈا ہو رہے ہیں۔ایک طرف افلاس و مصیبت کا یہ رونا دوسری
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
*ص۔51*

کر نے کا کھلا خلا موقع دے دیا جائے۔ہر شہرمیں نارمل اسکول جاری ہوں پردے کی قید اُٹھادی
جائے۔ زنانہ کانگریس اور زنانہ کانفرنس منعقد ہو-زنانہ ڈیپو ٹیشن ترقی بیگم کی خدمت
میں روانہ کیا جائے ۔ زنانہ نمایشگاه کھولی جائے جس میں منتخب لیڈیاںشریک ہو کر
مروول کی دلچسپی کا پورا پورا سامان مہیا کریں ۔ زنانہ پولیس مقرر ہو جو رات کو پہرہ دیاکرے
زنانی کچہر یاں ہوں ۔زنانہ پارلیمنٹ مقرر ہو- زنانہ باقاعدہ فوج ہو جن کے پاس بجائے
تلواربندوق کے تیرمژگاں اور تیغ نگاہ قدرتی ھتیار موجود ہوں اور یہ زنانہ عملہ رات کو حکومت کیا کرے ۔(چیرز)
صاحبو! تعلیم کے فوائد سے تو ہندوستان کے تمام لوگ آگاہ ہیں-کیونکہ اس مقدس سرزمین پر ایک قوم پہلے حکمرانی کر چکی ہے۔جنکی زبان سنسکرت تھی-
اس زبان میں نہایت عمدہ و نفیس فلسفہ اور لاجک کی موجود تھیں۔اس کے بعد ایک زمانہ آیا کہ لوگ یہا ں آکر آباد ہوئے۔جنہوں نے علم کو بہت ترقی دی-
بغداد،قرطبہ،غرناطہ کے دارلعوم کیا یاداشت
؀۱ صفحہ مٹ سکتے تھے۔ہمارے ہی اسلاف جنہوں نے پرانے یونانی علوم کو اتنی ترقی دی۔گویا ذرہ سے آفتاب بنادیا۔پھر نتیجہ کیا ہوا ٹائییں ٹائیں فش۔آج
غیر ملکو ں کی جاہل قومیں بھی ہماری نسبت بہ اچھی حالت میں۔ ہیں۔
یورپ اگرچہ فی زمانہ علوم وفنون میں ضرب لمثل ہے۔مگر پرُانی کتاب سے معلو ہوتا ہے اسکو یہ نعمتف۔ اسپین کے دارلعوم نے دی۔نتیجہ یہ ہوا گُرو۔ گڑ ہی رہے اور شاگرد شکر ہو گئیے۔ہندوستان کے ہندو مسلمان کو تعلیم راس نہیں۔
نزلہ بہ عضو ضعیف میر یزدیہ یہ
لوگ جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا ہی گد ھے بنتے جائیں چنانچہ في الحال ایک ہیڈ کلر ک بنگلو ر میں غبن کے جرم میں کر میںدوروپے ۶ سال کی قیداور آٹھ ہزار جرمانہ سزا یاب ہوا۔ساری آفت اسے علم کی بدولت بھگتا پڑی ۔
ایک اور
مسئلہ تھا اتحا اور اتفاق کا ہے اس کی نسبت میری رائے خلاف ہے ،در حقیق ہندوستان میں اتفاق و اتحاد نہ ہوناچاہیے۔کیونکہ یہ مشہور ہے زیادہ مٹہاس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں ہندوستان میں آپس میں کٹ کٹ مرنا بہت اچھا ہے۔آمندنی برقرار رہتی ہے۔وکلا کی جیبیں بھری رہتیں ہیں ۔جیل خانہ کا بازار گرم ۔سر پھٹول ہولی کامزاد ے جاتی ہے-
پو لیس کی مٹھی گرم ہوتی ہے۔جھوٹے گواہوں کو رقمِ کثیر حاصل کرنے کا مو قع ملتا ہے ۔اہل عملہ
گرہ کاٹنے کا موقع ملتا ہے اخباروں کی اشاعت کی میں ترقی ہوتی ہے۔متعصب اور ہٹ دہرمی


*ص- 52*

کا درخت بار آور ہوتا ہے۔ ایک بیوقوف کبھی
اپنی چکنی چپڑی باتیں کر کے چند تتنفس کو اپنا
ہم خیال بنالنا چاہتا ہے۔اور خود لیڈر بننا چاہتا ہے تو دوسرا عقل مند اسے توڑ تاڑ پھینک دیتا ہے۔مزا تو اِس میں ہے کہ ایک لارڈ کرزن کو کوستا
ہے تو دوسرا دعاؤں کا مینہ برساتا
ہے۔ اک سر فکر کو بے نقط سنا تا ہے تو دوسرا ستائش میں مبالغہ سےکام لیتا ہے۔نتیجہ یہ دونوں نااہل
جھو ٹے کہلاتے ہیں،سمجھدار چندیا سہلاتے اور بھیجا کھاتے ہیں۔
غرضکہ اس گپ شپ سے لوگوں بھلا ہوجاتا ہے۔۔
چونکہ بنگال کے متعلق سوسشل ریفارم سے خاص دلچسپی رکھتا ہوں اورمیں خیال کرتا کہ
میں نے کسی حد تک تمام تر الم غلم سوسائٹیوں کے قوائد کو عام طور پر اصلاح دی ہے۔
اس وجہ سے اسکے ضروریات کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ اتفاق کی امید رکھنا بیوقوفی اور
سفلہ پن ہی نہیں ہے۔ بلکہ حماقت ہے۔
الغرض میں وہی کہنا چاہتا ہوں جو شیخ چلی مرزا ستا اور لالہ بو کھل
نے کہا ہے۔
ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانا چاہیے ۔اپنی ہنڈیا اپنی ڈوئی درحقیقت یہ بڑا وسیع
اور نازک مسلہ ہے۔لیکن صاحبان آپ سب جانتے ہیں کہ اب وہ پرانا دقیانوسی زمانہ
رخصت ہو گیا
اوراب زندگی کےتمام مشاغل میں عام بیداری پیداہوتی جاتی ہے اورنئے ترقی یافتہ خیالات کےتمام مشاغل میں اپنا قدم آگے بڑھاتے جاتے ہیں اور یہ مشرق اور مغرب کی زندگی تعلق کا نتیجہ ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ قوم میں حد درجہ خوشامد سیان پن چہچہور پن دیگرے نیست کا مادہ سما رہا ہے ۔صاحبو مجھکو اب یاد دھانی کی کوئی ضرورت نہیں کہ اگلے زمانے
میں ہر قوم میں ایک چوہدری یا میر محلہ یا بزرگ ہوتاتھا ۔جس کا لحاظ اور پاس تمام قوم پر واجب تھی مگر فی زمانہ وہ شخصی حکومت اُٹھ گئی۔اور
ہر محلہ میں پارلیمنٹ قائم ہونے لگی اور ایک عام ہڑبونگ مچ گئی ہے ۔
جس کو دیکھو شیخ چلی بناہوا ہے۔ اور یہ احمق الدین کبھی کاشت کار لوگوں کی مصیبت پر روتے ہیں
پ کبھی ٹکس کے بارگراں کی شکایت کرتے ہیں۔غرض وہ غل غپاڑہ مچا کھاہے۔ جس سے ہمارے ہند میں خلل پڑ گیا ۔اِن بیہودہ خیالات کی طرف تو ہم توجہ
نہیں کرنا چاہتے رونا پیٹنا عورتو ں کا کام ہے؀
تامردیو مر روی فاصلہ دارد
چلتے چلاتے آنجناب کی توجہ جانب ایک بات آئی ہے جب تک قوم اپنی اصلی حالات پر واپس


*ص۔ 53*

نہ آ یئگی اسکی بہبود ی نہ ہو گی کیا معنٰی پرانی چکیاں ہوں ، وہی پرُانا چر خہ ہو ۔کا غذکے بدلے بھوج پتر ہو -سادی غذا ہو کچے مکان بر،
وہی رسی گاڑھا ہو۔ ریل بند ک دی جائے ۔وہی بیل بھنسیےہوں ۔
ستو باندھ کرسفر پیدل کرتے ہوں
کالی کملی انگوچھا دہوتی ایک طرز کی دیسی سوت جو باپ بنائے بیٹا پہنے۔ چمڑ ہا جوتا۔وہی
لہنگا وہی ساڑھی ۔آ ٹے کے بد لے نمک کھایا
جا ئے
کیو نکہ سستا ہے
شکر کے بد لے شیرہ ہو تو آج ملک سنبھل سکتا ہے۔ مگر بلّی کے منہ
سے خون کا مزا نہ چھوٹنا مشکل ہےج؀
آب تو
چسکا پڑ گیا ہے کمبخت پی کا

••••••==•٭٭٭٭٭٭٭••••••
ملکی ریفارمر وں کی خدمت میں اپیل

کیوں حضرات آپ لوگوں نے باوجو د جامہ مردی کے ذہنی طرفداری کا بیڑ ہ ُاُ ٹھا لیا اور پردہ غیر ضروری ہونے مین مسلےُڈھال ڈھال کر ملک میں زنانہ جوش پھیلانا شروع کیا ۔

حالی صاحب کو کچھ معلوم نہ تھا تو نکاح بیوگان پر دھواں دھار نظمیں لکھیں
عورتوں کی بیسکیی ے بسی دکھائی اُنکی اولیت ثابت کی۔
مولوی نذیرصاحب نے ایامی لکھ ملک کو متوجہ کیا۔ کہ بیوہ عورتوں کی شادی ک جائے
اس بارے میں قرآن وحدیث ایک کر دیاعقلی و نقلی دلائل سے پائہ ثبوت تک پہنچا دیا
کہ ملک کی اندرونی حالت کا مطلع مدت سے مکدر ہورہا ہے۔اسکی خاص وجہ بیوہ کی آہ سحری ہے ۔
دنیا کی کوئی ٹکڑہ ایسی عجیب اور دہشت ناک القابات کی نظیر نہیں پیش کر سکتا جیسی کہ
 
صفحہ 70 - 74
صفحہ 70

ہوائے میرا تب سے اس محفل میں آنا جب سے سارا دیس ہمارےکھاتر تمنے چھانا

چھند دوسرا زبانی کیتا پری کے

آئی ہوں میں دور سے چھیڑ کی کرکے یاد مجھ کو بھی رلوائے کے کرو اپنا دل شاد
باسی ٹکڑے دو مجھے دل کھول کے گاؤں گانا ایسا گاؤں تم کو بھی نچواؤں
تم کو بھی نچوا کر داد اپنی پاؤں داد اپنی پا کر گھر اپنے جاؤں


ٹھمری زبانی کیتا پری کے


ناد بھی کرو موسے بتیاں دم پھرکتا ہے ون رتیاں

جی کانپت تمھری صورت سے دھڑکت ہیں موری چھتیاں

دم چاٹتا ہو بھونکن لاگوں ماروں دوٹوں لتیاں

ناؤ جی کرو موسے بتیاں


ہولی کتیا پری کی سبھا میں

ناؤ کو سمجھاوے کوئی انگیا رنگ میں بھجوئی
بحث کی ناحک اس نے سب سے عزت مفت میں کھوئی
ناؤ کو سمجھاوے کوئی


غزل زبانی کتیا پری کے


چا لیے نے میٹ دی عزت ہماری ان دنوں ہو رہا ہے گریہ بے اختیاری ان دنوں
ہائے یہ میرا چمن اور اس طرح برباد ہو سمٹ رہی ہے آہ یہ باد بہاری ان دنوں
نظم سے ہم کو نہ مطلق تھا علاقہ کیا کہیں ہو نہیں سکتی ہے اب مطلب بر آری ان دنوں
اعتراضوں سے ہوا ہے ناک میں دم اس قدر شکل پہچانی نہیں جاتی ہماری ان دنوں
ہم تو سمجھے تھے کہ چپ ہو جائیں گے آخرکو سب کفش کاری ہو رہی ہے پھر کراری ان دنوں
منہ دکھانے کے نہیں قابل رہے دنیا میں ہم منہ چڑھاتی ہے ہمارا ہر کہاری ان دنوں
گر ذرا اعزاز کا اظہار ہم کرنے لگیں ٹکس ہو جائے گا پھر ہم سب پہ جاری ان دنوں


غزل دوسری زبانی کتیا پری کے

دل نہ گلدستہ اردو سے ہو شاد کبھی ہم نہ مانیں گے اس بحث میں استاد کبھی


صفحہ 71
زندہ جب تک رہی ایک جان پہ لاکھوں صدمے بعد مرنے کے ہوئی کم نہ یہ بیدار پری
منے حجام کا احسان نہیں ہے ہم پر کام آتا نہ تھا ہمارے کوئی فصاد کوئی
اب تو اردو میں بھی منہ کھول نہیں سکتی ہیں ہم بھی اس باغ میں تھے قید سے آزاد کبھی
اب تو خط بھی نہیں آتا ہے میاں آتش کا بھول کر بھی نہیں کرتے ہیں صبا یاد کبھی
نام رکھنے لگے سب اہل زباں ہنس ہنس کر آہ تقدیر سے کی ہم نے جو ایجاد کبھی
میری تقدیر کا فوٹو تو وہی کھینچیں گے مل گئے راہ میں بھولے سے جو بہزاد کبھی
اس قدر ان کی مرمت ہوئی اللہ اللہ ساتھ دیتے نہیں اب پنچ میں بھی غاد کبھی

غزل حسب حال

انی ہیں یہ اعتراض برچھی کہ سب کے دل میں کھٹک رہے ہیں
خران خرگاہ رو رہے ہیں سگان احمق بھڑک رہے ہیں
بگڑ کے حجام منہ پھلائے ہیں ہونٹ اس کے لٹک رہے ہیں
خفا ہیں مستایہ ضد نئی ہے تھرک رہے ہیں سٹک رہے ہیں
خزاں یہ آئی ہے مثنوی پر بہار ہے اب نہ ہے وہ گلشن
بجائے بلبل غریب الو چک رہے ہیں پھدک رہے ہیں
نہ عقل ان کو کہ بات سمجھیں نہ ذہن ایسا کہ تہہ کو پہنچیں
اٹھے نہ جب اعتراض ان سے تو منہ ہر ایک کا یہ تک رہے ہیں
کبھی یہ کہتے ہیں مذہبی جنگ ہو رہی ہے چچا سے ہم سے
کبھی تعصب میں اپنے آ کر جو منہ میں آتا ہے بک رہے ہیں
جو بات معقول تھی سناؤ تو اس میں حیلے حوالے لکھوں
جہالتوں سے بھرے ہوئے ہیں حماقتوں سے بہک رہے ہیں
مثال دیں گے تو الٹی دیں گے سمجھ سے خالی ہے ذہن عالی
نہ فہم سے مس نہ عقل سے حس جہالتوں سے سنک رہے ہیں

صفحہ 72
غضب یہ ہے طاہرہ کو دیکھو کہ بے تکا راگ گا رہی ہے
تو منے نائی مٹک رہا ہے تمام لونڈے تھرک رہے ہیں
زبان قابو میں اب نہیں ہے تو یہ اشاروں میں رو رہی ہے
سمجھ میں آتا نہیں کسی کے تو لوگ حسرت سے تک رہے ہیں
یہ منقلب غاد کیوں پڑے ہیں سبب نہیں اس کا ہم کو کھلتا
کسی نے پینے کو دی نہ افیوں تو مر رہے ہیں سسک رہے ہیں
نہ کام شیطان تیرے آیا نہ سئیاں شہدے نے منہ لگایا
کئے تھے جو اعتراض ہم نے وہ برق بن کر چمک رہے ہیں
یہ ظرف چھوٹے جو بھر گئے ہیں تو سب طرف سے چھلک رہے ہیں
یہ ضد لگی ہے یہ ہٹ پڑی ہے غلط بھی دیکھو تو کچھ نہ بولو
غریب بچے یہ نا سمجھ ہیں شریر ناداں بلک رہے ہیں
کمال تحقیق میں ہمارے کبھی نہ آئے گا فرق اس سے
عروج دیکھا ہے احمقوں نے تو بن کے کولا دھک رہے ہیں

فقرے غاد پری کی درخواست میں زبانی منی حجام
دکھا چکی تو کرتب کتیا کونے میں بیٹھ تومیا
کیا سبھا میں تو نے نام اب ہے غاد پری کا کام

لاؤ غاد پری کو

سبھا میں غاد پری کی سواری آتی ہے تمام نیچ کی اس وقت خواری آتی ہے
جو گول ٹوپی ہے سر پر تو ہاتھ میں رومال پھلا کے توند یہ شامت کی باری آتی ہے
غضب بڑھاپے کا پھٹکار سی برستی ہے گماں یہ ہوتا ہے گویا چماری آتی ہے
خضاب منہ سے چھٹا ہے خدا خدا کر کے گراں یہ توند ہے گویا کہاری آتی ہے
کبھی جو ہنس کے کسی کی طرف لپکتی ہے سمجھتے سب ہیں کہ کتیا شکاری آتی ہے
رقیب سے جو اسے خواب میں تلمذ ہے اس کے واسطے لڑنے گنواری آتی ہے


صفحہ 73

شعر خوانی غاد پری کی
شیطان کا کام حسن پہ میرے تمام ہے گو سیتلا کے داغ ہیں پر غاد نام ہے
محفل میں سب کے سامنے رہتی ہوں نقاب دن رات مجھ کو بس انہی باتوں سے کام ہے
سر پر لگائے دھپ جو اسی کی کنیز ہو خاموش جو رہے وہ میرا خود غلام ہے
الٹی خدا نے دی ہے مجھے عقل اس قدر ہوتی اگر سحر تو میں کہتی ہوں شام ہے
پوشاک تو سفید ہے چہرہ سیاہ ہے گویا اودھ کی صبح میں یہ کالی شام ہے
یہ جھوٹ پر دیا ہے خدا نے مجھے فروغ پایا اسی کی وجہ سے مال حرام ہے
الٹی ہے مت کے ہو گئی احمق کی میں شریک بڑھیا ہو گو کہ میں پہ مری عقل خام ہے

چھند زبانی غاد پری کی
پڑی ہوئی تھی اوندھی میں اوپر تھے دلال یہاں بلا کر آپ نے مچا دیا بھونچال
مچادیا بھونچال کہ یہاں مجھے بلوایا بھوکی گھر سے آئی تھی کچھ نہ کھلوایا
روپ سروپ مہاراج کا میرے دل کو بھایا لیکن تو احمق تھا جو اس پر اترایا

ٹھمری زبانی غاد پری کے
مجھ پر جوتے خوب پڑے او حجام مجھ پر جوتے
جس کو دیکھو الٹی مت ہے لڑن والے پر گاج پڑے
او حجام
چندیا موری ہو گئی ڈھیلی بہت پڑے بھئی بہت پڑے
او حجام
جیسی مرمت موری بھئی ہے کوئی گدھی کا کھبر کرے
او حجام

ساون زبانی غاد پری کے
بن پیا گھٹا نہیں بھاوے قسمت پر اب رونا آوے

صفحہ 74
سر پھر نہ اٹھائیں ہم سب بہنیں کوؤ ایسا جوتا برسا دے
ہاتھ جوڑت ہوں منتی کرت ہوں اب نہ مہکا بات سنا دے
میں تو دکھیا جنم کی ماندی کوؤ بید دیکھن نہ آوے

غزل زبانی غاد پری کے
پھنسے ناحق کو ہم اے پنچ تیرے دور ساغر میں لکھی تھی اس قدر ذلت ہمارے بھی مقدر میں
کسی استاد کی بھی غلطیوں کے ہم نہیں قائل کہ ہٹ دھرمی کا سودا بھر گیا ہے آجکل سر میں
شگوں کہنا نرالا اور دکھا سانپ اپنا مشرب ہے کہ ایسا بولتی ہیں عورتیں بھی آجکل گھر میں
حمل کہتی ہوں جب میں ان کو غصہ آ ہی جاتا ہے حمل میرا گرا دیتے ہیں آخر ایک ٹھوکر میں
طبیعت چلبلی ہے اور لونڈوں سے محبت ہے خدا کے سامنے بھی میں یہی کہہ دوں گی محشر میں
کوئی حجام مل جائے تو اپنا سر منڈا ڈالوں یہی سودا بہت دن سے سمایا ہے مرے سر میں

ہولی زبانی غاد پری کی
لاج رکھ لے گدھیا ہماری- میں چیری تمہاری
پھروں ہوں ماری ماری
پہلے میں کلکتے گئی تھی- ساری دولت ماری
مال پرایا گھر میں رکھ لو - ایسی کرو ہوشیاری
کہیں نہ ہوے عاری
جس کا پاؤ مال گھما دو- کیا کوؤ تم کا ماری
آنکھ بچے گٹھری ٹہلے- پھر بنو اناری
کوڑی کوڑی منہ سے اٹھاؤں ایسی ہوں کھلاری
اب جو بولے منہ سے کوئی - جب ہی دنیا گاری
میں تو ہوں گھیاری


غزل زبانی غادپری کے
مرحوم شاعروں سے بھی فریاد کیجیے آتش کو ذوق و رند کو بھی یاد کیجیے
مارا ہے کیا ظریف نے یارو ! دہائی ہے اب کس سے جا کے شکوہ بیداد کیجیے
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
گلدستۂ ظرافت صفحہ 36

عرصہ ہوا ہوا مسٹر ٹیپو نے بھی اسی کاوش میں اپنیجان دی تھی۔ جن کی خبر تم نے لوکل مسٹر ٹیپو کی وفات کی سرخی سے لکھی تھی۔ یہی مولانا تھا جن کو کاٹنے کو دوڑا تھا۔ آخر ایک لاٹھی میں خاتمہ ہو گیا۔ مولوی صاحب کا نام تم نے شرمندگی سے نہیں لکھا تھا۔
ابھی تم ان کی گردش قلم سے اچھی طرح واقف نہیں ہو۔ ایک نکتہ میں تمہاری ہستی اور نیستی کا انقلاب دکھا سکتے ہیں۔ تمہاری بساط کیا ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔
اب تمہارے مرنے کا وقت قریب ہے۔ اللہ اللہ کرو۔ چرخہ کاتنا تو تمہاری تقدیر میں ہمیشہ سے لکھا تھا۔ مگر نکتہ سنجوں کی بدولت تم اس چرخے سے بچ گئیں۔ ایک برا چرخہ تمہارے گلے پڑا۔ اب بڑھاپے میں اٹھتی جوانی دکھاتی ہو۔ یہ اجوائن کی تھیلیاں کس کو پسند آئیں گی۔
زندوں کو تو تم ہمیشہ ستاتی رہی ہو۔ اب تم نے مردوں کو ستانا شروع کیا۔ مرگھٹ سے مردے دہائی دے رہے ہیں کہ اس مردار نے ہم کو ذلیل و رسوا کیا۔ اور ہماری خاک کو بھی برباد کیا۔ آتش کی روح قبر میں بے چین ہے کہ کم بخت گوشۂ مرقد میں بھی چین سے نہیں سونے دیتی۔ مفت میں یاروں کو بدنام کرتی ہے۔
ابھی کیا ہے۔ بہت بدتر تمہاری حالت ہو گی۔ اور دانے دانے کو محتاج ہو جاؤ گی۔ یہ اہل قلم کی دشمنی ہے۔ کچھ ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔
یاد رکھو کہ تم کبھی ان کو ماہران فن میں شامل نہیں کر سکتی ہو۔ صباؔ اور رندؔ ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار جا رہے ہیں۔ اور وہ ایک کاکوری کے گدھے پر مع اینٹ پزادہ کے لدے ہوئے ہیں۔ تم گلے میں رسی باندھ کر کھینچتی ہو اور تمہارے ہوا خواہ ڈنڈے مارتے ہیں۔ مگر گدھا گدھا ہے اور گھوڑا گھوڑا۔
کھوسٹ مرزا اگر اب بھی نہ مانیں گے اور درپردہ تمہاری طرفداری کریں گے تو بڑھاپے میں ذلیل ہوں گے۔ اور خضاب کے ساتھ ساتھ تمام سیاہی منہ پر دوڑ جائے گی۔
تمہارے لونڈوں کی ٹائیں ٹائیں فش کوئی اثر نہیں دکھا سکتی۔ یہ چوراہے کے کتے ہیں۔ بھونکتے ہیں۔ بھونکنے دو۔ اس کا اثر علمی مذاق والوں پر کوئی صورت نہیں پیدا کر سکتا۔ اور یہ غل غپاڑہ گوزشتر سے زائد وقعت نہیں رکھتا۔ مسٹر ظریف کے قلم کی ذرا سی ششکار ان کے واویلا کے واسطے برسوں کافی ہے۔
-------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 37

آج کل منے حجام کو تم نے خوب اپنے گھر کا چودھری بنا رکھا ہے۔ یہ کس کسوت تو انہوںنے پھینک دی اب شیروانی کی جیب میں چند استرے اور ناخن گیریاں اور قینچیاں اور ایک ڈبیا مرہم کی لئے پھرتے ہیں۔ سنا ہے بد گوشت خوب کاٹتا ہے۔ اس شایستہ نائی کی روزی کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے عید کا دن ہے۔ گھر گھر خوشیاں ہیں۔ سوئیاں پک رہی ہیں۔ شادیانے بج رہے ہیں۔ یہ آئینہ لئے ہوئے خدمت میں حاضر ہیں۔ آپ بھی شرما شرمی ضرور چار ٹکے ان کے کیسے میں ڈالیے نہیں تو ہونٹھ لٹک آئیں گے۔ اور بہت مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ عرض کریں گے۔ خداوند غلام اسی امید پر سال بھر حضور کی جوتیاں اٹھایا کرتا ہے۔ خدا سلامت رکھے۔ ہمیشہ سے ہماری عید بقر عید کو پرورش ہوا کرتی ہے۔ ہماری تہواری میں رخنہ نہ ڈالئے۔
ایک ڈرامے پر ایک روباہ خصلت نے اعتراض کیا۔ "چہ داند بوز نہ لذات ادرک" کیوں صاحب یہ وہجیاں کیسی۔ کیا کسی درزی صاحب نے اپنا گدڑی بازار دکھایا تھا۔ اس سے تو پھٹا پرانا گودڑ کڑوا تیل کی صدا لگائی ہوتی تو مزا آتا۔ اب یہ کتر بیونت کام نہیں دے گی۔ درزی اور حجاموں کی حمایت کیا۔ مگر بقولے تم کیا کرو مزاج ہی پاجی پرست ہے۔ تمہاری صحبت میں ہمیشہ ایسے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔
دیکھو خالہ اماں۔ اب بھی کہنا مانو۔ اور ان افعال قبیحہ سے باز آؤ ورنہ مسٹر ٹیپو کی طرح مولانا کے قلم کی لٹھ بازی سے تمہارا بھی خاتمہ ہو گا۔

راقم تمہارا بھانجا ابلیس
-------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 38

تاج الملوک کا نوازش نامہ لَکھّا بیسوا کے نام

کیوں قحبۂ زمانہ، حرافۂ روزگار تو نے پہلے بکاؤلی کے راستے میں تمام عالم کو اپنے دام تزویر میں قید کیا تھا۔ اور ابلہ فریبی سے ہزار ہا شرفا کو اپنا غلام بنایا تھا۔ ہمارے چھ بھائی قید کئے اور ہزاروں کا مال و متاع لوٹا۔ چوسر کے بہانے سے بڑے بڑے رئیسوں کا رنگ روغن اڑایا۔ جس کو آنکھ کا اندھا گانٹھ کا پورا پایا خوب مال کھایا۔ اب پھر کایا پلٹ ہو گئی۔ مرغی کی طرح خاک چاٹ کر الٹ گئی۔ لنڈھکتی ہوئی چودہویں صدی میں پھر اپنی اصلی حالت کے ساتھ جنم لیا۔ اور بربادی اپنا نام رکھ لیا۔ پنچ کی چوسر بچھا کر کالے سر کا ایک نہ چھوڑا۔ پہلے تیرے پاس بلی تھی۔ اب کتیا سے مطلب براری کرتی ہے۔ رنگ بد رنگ سب مار لیتی ہے۔ بہت کچھ پو بارہ ہوتے ہیں۔ مال مردم خوری کا مزہ ہے۔ پانسہ کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر لنڈھکتی پھرتی ہے۔ ہر ایک سے ٹیڑھی بات بولتی ہے۔ اگرچہ میں نے تیری بہت کچھ گوشمالی کر دی تھی۔ اور امید تھی کہ تو ہزار پلٹے کھا کر بھی اس کو یاد رکھے گی۔ افسوس تو نے بالکل بھلا دیا۔ کیا تجھ کو اپنی پوسی (بلی) اور میرا نیولا یاد نہیں ہے۔ دل کھول کے بازی بد چکی ہے۔ اور ہار چکی ہے۔ میری لونڈی ہو چکی۔ میں نے تجھ سے عقد کرنے سے انکار کیا تھا۔ مگر پھر بھی تو اپنی میاؤں پر قایم ہو گئی۔ اور اس جنم کی ساری باتیں بھول گئی۔ اری چرخہ کیوں دیوانی ہوئی ہے۔ کچھ شامت آئی ہے۔ بڑھاپے میں اپنا منہ کالا کرائے گی۔ پانسے کی طرح ماری ماری پھرے گی۔ کوئی نہ پوچھے گا۔ ہر گھر سے ٹکا سا جواب ملے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اور نہ تجھ میں حسن جوانی ہے۔ زبان کی کنجی ہے۔ منہ میں گھنگھنیاں بھری ہیں۔ مگر اس پر شیطانی حرکت کی خواستگار ہے۔ کاکوری کا نام ہنسواتی ہے۔ بہت سے رئیسوں کو لوٹ چکی ہے مگر ؎

نہ ہر جائے مرکت لوان تا ختن
کہ جا ہا سپر باید انداختن

خدا کو تیرے افعال بد کی سزا دینا منظور تھی جو تجھ سے مولانا ظریف سے سابقہ پڑا۔ سمجھی تھی کہ پہلے میرے ساتھ بلی تھی اب کتیا ہے۔ کچھ کام چل جائے گا۔ لیکن یہ نہ معلوم
-------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 39

تھا کہ تیری قسمت سے یہ بھی تاج الملوک نکل آئیں گے۔ اور قلم کے ڈنڈے سے کتیا کو ختم کر دیں گے۔
جان و مال ہار جائے گی۔ کوئی شریک نہ ہو گا۔ کرد فی خویش آمدنی پیش سچ ہے۔ ہر کمالے راز والے ہر زوالے را کمال۔ افسوس ایک دن تھا کہ تو اپنی بساط شطرنج یعنی صفحات اخباری میں ہر ایک شہ کو مات کر دیا کرتی تھی۔ اور شیطان کی مدد سے بڑے بڑے مدبران ملک کی توہین پر کمر بستہ تھی۔ دو چار لونڈے لاڑے ساتھ تھے۔ انہیں فوج سمجھتی تھی۔ اور کوس لس الملک * مجاتی تھی۔ یا ایسی گنی سادھی ہے کہ نہ منہ سے بولتی ہے نہ سر سے کھیلتی ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
یاد رکھ یہ مولانا ظریف ہیں تیرے ساتھ بہت کچھ رعایت کی ہر طرح کے ناز اٹھائے، ہر طرح کے نخرے اٹھائے اور ہنسی خوشی ٹال دیا۔ کیا تو نہیں جانتی ہے کہ ہر فرعونے را موسیٰ۔ تو نے حجام اور دھوبی کے بھروسے پر اخبار نکالا۔ اور مولانا کے مراتب اعلیٰ کا خیال نہ کیا۔ ان کے ایک قلم کی گردش میں تو کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اور تیری بساط الٹ پلٹ ہو گئی۔ اب وہ تیرے گہرے یار پلیتن تیری طرف رخ نہیں کرتے۔ گھر گھر ماری ماری پھرتی ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں۔ آہ تیرا کیا نمکدان ٹوٹ گیا۔ ہم کہہ چکے تھے کہ نائیوں کی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ ان کے بہکانے میں نہ آنا۔ مگر تو نے نہ مانا
مگر تجھ کو کیا معلوم تھا کہ ظریف سے تیری بازی اس طرح ہار جائے گی۔ جُگ ٹوٹ جائے گا۔ گھر میں آرام سے سونا نصیب نہ ہو گا۔ ہرداؤں وہی تین کانے ہوں گے۔ کیا تجھ کو یہ شک ہوتا ہے کہ اگر مولانا مثنوی کو مٹا دیں گے تو میرا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اور پھر لکھا بیسوا کا کوئی پوچھنے والا نہ رہے گا۔ یہ ایک غلط خیال ہے۔ نثر کا قصہ گل بکاولی بہت اچھی عبارت سے قدیم اردو زبان میں موجود ہے۔ جس سے تمام عالم فیض یاب ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ خود مولانا ایسے نامنصب نہیں ہیں وہ اس مثنوی کو اصلاح دے کر اردو کا سلیس اور زیب جامہ پہنا کر اس کو اور چمکا دیں گے۔ اور زبان کی خرابی کا بد نما دھبہ اس کی پیشانی سے مٹا دیں گے۔ جو اس کے نا سمجھ ضدی مصنف کی کج فہمی سے آج تک چلا آتا تھا اور باوجود اصلاح کے بھی اس پر عمل نہ کیا گیا۔ کیا تو چاہتی ہے کہ مثنوی اسی خرابی میں پڑی رہے۔ اور اس کو کوئی سخن سنج نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اور قدر داناں سخن اپنی میز
-------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 40

تک اس کو نہ آنے دیں۔
در حقیقت مثنوی میں بوے کچوری مے آید۔ اور نظم کے دیکھنے والے زبانداں اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ دکھا سانپ والا کیسا مہمل جملہ بیان کیا گیا۔ اس لہنگہ پھریا پر مونج کی بخیا بالکل بدنما اور خراب معلوم ہوتی ہے۔
شاہوں کے مراتب کا خیال وہ شخص کیا کر سکتا ہے جس نے آنکھ کھول کر کہار کی زبان سیکھی ہو۔ کجا راجہ مہرا اور کجا تاج الملوک۔ ہاں اگر کسی لائق شاعر نے ایسی جرأت کی ہوتی تو مثنوی کا نفس قصہ بہت نفیس تھا۔ اور وہ قابل داد ہوتا۔ اسی طرح مطالب بہت سے خبط ہو گئے۔ اور نفس قصہ کو بھی گویا مٹا دیا۔ مثنوی کا پڑھنے والا جب قصے کا مطلب نہیں سمجھتا تو اس کو خاک مزا نہیں آتا۔ اور وہ اٹھا کر کوڑے میں پھینک دیتا ہے۔ اس پر زبان بھونڈی، محاورات غیر فصیح، عبارت خبط، ایک مصرعے کو دوسرے سے ربط نہیں۔ رعایت کی بھرمار، خراب پہلو۔ استاد سخن فہم تھا۔ اس نے شاگرد کے جب ناز بیجا دیکھے سمجھ گیا کہ یہ شیطان یوں نہ مانے گا جب تک کوئی اس کی اچھی طرح مرمت نہ کرے۔ اور میری اصلاح کی قدر نہ کرے گا جب تک یہ اچھی طرح ٹھوکر نہ کھائے۔ اسی واسطے استاد کی زندگی میں ان کے شاگردوں نے بھی استاد کا منظور نظر سمجھ کر مثنوی پر ہاتھ صاف نہیں کیا۔ بعض نے اشارۃً کنایۃً سمجھایا۔ مگر مصنف ماشاء اللہ سے ایسے سمجھ دار نہ تھے جن کو اشارہ کافی ہوتا۔ اب مولانا کے چابک نے بیدار کر دیا۔ اور تم کو تینوں تلوک نظر آنے لگے۔ مثنوی کی غلطیوں کا خود اقرار ہونے لگا۔ مگر پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ در اصل مولانا کا احسان تمام طرفداران کو ماننا چاہیے۔ اور ان کا مشکور ہونا چاہیے ۔ کہ عفونت آمیز گندی زبان کو اصلاح سے مزین فرما کر دیکھنے کے قابل بنا دیا۔ وگرنہ آئندہ ردیوں میں پھینک دی جاتی۔ سوا اس کے پنساری کی پوڑیاں باندھی جاتیں اور کسی کام کی نہ تھی۔ اور اب بھی اگر کوئی ان کی بیش بہا رائے کی ناقدری کرے گا اور موتیوں میں تولنے والے اعتراضات کو نہ مانے گا تو ایک دن یہی حال ہونا ہے۔ تم سے ایک طرح کی مجھ کو امید تھی کہ تم زمانے کی ٹھوکر اٹھا چکی ہو، کچھ دھوپ میں بال نہیں سفید کئے ہیں۔ بڑے بڑے استادوں کی زیر مشق رہی ہو اور اس آخری جنم میں بھی آ کر تم نے اپنا وہی جال پھیلا دیا تھا۔ اور اخبار کے صفحوں کو بساط چوسر بنا رکھا تھا۔ بجائے نقارے کے پریسوں کی کھٹا کھٹ برابر چلی جاتی تھی۔ بلی
-------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
گلدستۂ ظرافت صفحہ 75

توبہ ہے اب سے منہ نہ چڑھوں گی ظریفؔ کے
میں ہوں کنیز آپ کی آزاد کیجئے
بوڑھی ہوں توند لے میں جاؤں کہاں کہاں
اک ہاتھ مار کر اسے برباد کیجئے
جی چاہتا ہے بولیاں پنڈت کی سیکھ لوں
مل جائے اک گنوار تو استاد کیجئے
گانی تھی اور ناچنی تھی وہ بڑی کمال
اس شاعری پہ آنکھ سے بس صاد کیجئے
الفاظ جو غلط ہوں انہیں لائیے ضرور
اور منہ پھلا کے لوگوں سے فریاد کیجئے
اٹھیں نہ اعتراض دئیے جائیں گالیاں
آخر کو ضد سے آپ ہی ایزاد * کیجئے

غزل زبانی غاد پری کے

کسی کے اعتراضوں نے عجب اندھیر ڈھایا ہے
زمیں کو زلزلہ ہے آسماں چکر میں آیا ہے
اٹھائے ہیں وہ صدمے مٹ نہیں سکتے کبھی دل سے
کسی کے ایک فقرے نے کیا سب کا صفایا ہے
گھٹا غلطی کی ہے مینہ اعتراضوں کا برستا ہے
کسی کی مثنوی کے باغ پر کیا ابر چھایا ہے
خضاب ایسا مزین عارض ناقص پہ ہوتا ہے
گماں ہوتا ہے بطخا منہ پہ گوبر مل کے آیا ہے
مٹانے سے مٹیں کیا اعتراضاتِ بجا ہم سے
دلائل سے قوی اس میں اڑنگا بھی لگایا ہے
حساب شاعری جب حشر میں ہو گا کہہ دوں گی
کہ میں نے مثنوی کے عیب کو بالکل چھپایا ہے
چھپاؤں منہ ندامت سے سر محفل نہ کیوں اپنا
کہ میں نے چالیوں کے نام پر دھبا لگایا ہے
ہوئی تھی تیز ایسے ویسوں کو میں گالیاں دے کر
سنازی کا ٹکا * آخر یہ ان سے میں نے پایا ہے
وہ کہتا مثنوی کیا تم ذرا دیوان تو دیکھو
خوشامد سے درآمد سے کسی سے رنگ لایا ہے
۔۔۔۔۔

فقرے منہ بند پری کی درخواست میں

کاتی رات مزے میں سب
بیٹھ ری کٹنی نیچے اب
بہت کی تو نے میری خوشامد
منہ بند پری کی اب ہے آمد
لاؤ منہ بند پری کو
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 76

آتی عجب انداز سے منہ بند پری ہے
غیں غیں ہے زباں تک نہیں قابو میں ذری ہے
موٹی ہے زباں بات نہیں منہ سے نکلتی
گونگی کے اشاروں میں فقط جلوہ گری ہے
منہ شرم سے ہر ایک کا تکتی ہے ہمیشہ
کیا گلشن عالم میں چراغ سحری ہے
زیور نہیں درکار مخنث کی ہے صورت
یہ بھینس ہے چہلے کی جو کیچڑ میں بھری ہے

شعر خوانی منہ بند پری کی

معمور ہوں ذلت سے حماقت سے بھری ہوں
کچھ کہہ نہیں سکتی ہوں میں منہ بند پری ہوں
وہ شمع ہوں گل کرنے کو محفل جسے اٹھے
اس باغ میں جہاں میں نسیم سحری ہوں
زندہ نہ رکھے گا مجھے سن لے گا جو نائی
میں کفر کے شہزادے پہ سو جاں سے مری ہوں

چو بولہ منہ بند پری کا

راجہ اندر ناؤ سو گئے دیا نہ کچھ انعام
جاتی ہوں مرگھٹ میں یہاں مرا کیا کام
سن رے مستادیورے * تو میری اک بات
آتی تھی گھر ناؤ کے میں آج کی رات
شہزادہ اک روسیہ سوتا تھا نادان
اس بھتنے کو دیکھ کر نکلی میری جان
اتری اپنے تخت سے رنج بہت اٹھائے
سوتا تھا وہ مردہ سا ہاتھ پاؤں پھیلائے
کالی صورت دیکھ کر دل کا گیا قرار
بھونڈے نقشے پر کیا خوب سا پیار
دل میرا لگتا نہیں محفل میں اس آن
اب کوئی دم کی میں مہمان
اس کو گر تو لائے گا کھینچ کر مکار
لونڈی تیرے پاؤں کی بنوں گی بے تکرار

جواب مستادیو کا

گھر میں منے ناؤ کے تو سب کی سردار
تجھ سے کر سکتا نہیں ہر گز میں انکار
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 77

پھوٹ تو منہ سے اپنے کچھ تو مجھے بتا
پتا دے ملعون کا لاؤں ابھی اٹھا

جواب منہ بند پری

جا تو بیچوں بیچ میں کیچڑ کے درمیان
سوتا ہے اک بدشکل مہری پر نادان
جوتا میں دے آئی ہوں اپنا اسے نشان
کالے چمڑے کے نشان سے تو اسے پہچان

سوال مستادیو کا

لایا شہزادہ کو میں جا کر ہندوستان
معشوق اپنا او قحبہ جلدی سے پہچان

جواب منہ بند پری کا

یہی ہے میرا لخت دل یہی ہے میری جان
مائی باپ ہے یہی میرا میں اس پر قربان

جگانا منہ بند پری کا شہزادے کو

سوتے ہو کیا بے خبر چھوڑ کے تم کفار
آنکھیں کھولو اپنی پتا نیند سے ہو ہشیار

جاگنا شہزادے کا اور گھبرا کر کہنا

کھونٹا میرا کیا ہوا چھوٹا کدھر مکاں
سوتا تھا میں کیچڑ میں لایا ملچھ کہاں
نا وہ کالی مہرے ہے نہ وہ میرا گھر
خواب یہ میں دیکھوں یا ہو گیا ہوں خر

گانا شہزادے کا عالم حیرت میں

کھینچ کر کون ملچھ آہ یہ لایا مجھ کو
کس ستم کیش نے سوتے سے جگایا مجھ کو
لا کے ناحق کو عبث آہ ستایا مجھ کو
یہ تکلف تو کسی طور نہ بھایا مجھ کو
بس میں قحبہ کے مجھے چھوڑ دیا ہائے غضب
ڈھونڈنے کوئی بھی دفتر میں نہ آیا مجھ کو
حیف صد حیف کسی نے نہ خبر لی میری
میرے پرجا نے عبث دل سے بھلایا مجھ کو

گانا شہزادے کا

مجھے آہ تقدیر لائی کہاں
کہ منہ بند بھتنی ہے گوگنی جہاں

مجھے آہ تقدیر

گدھیا یہ باندھی گئی میرے سر
اسے چھوڑ کر اب میں جاؤں کہاں

مجھے آہ تقدیر

ترس آتا ہے مجھ کو حالت پہ اس کی
کہ مفلوج ہے اور ہے ناتواں

مجھے آہ تقدیر
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 78

زباں تک نہیں قابو میں اس کی ہے
پڑی کس مصیبت میں اب میری جاں

مجھے آہ تقدیر

دیکھو تم میری طرف گھر کا لوت مت نام
گھر میں میرے لاکھوں ہیں دھوبی اور حجام
جو ہونا تھا سو ہوا اب کیا پچھتانا
اب تو میرے جال میں آ گئے ہو نانا
نام اپنا بتا کر کرو دل کو شاد
میں خوشی میں آن کر بانٹوں گی پرشاد

جواب شہزادۂ کفر کا

اونچوں میں رہتا ہوں عیش ہے میرا کام
شہزادہ ہوں میں ہند کا کفر ہے میرا نام

سوال شہزادہ کا منہ بند پری سے

تو بھتنی کس قوم کی اپنا نام بتا
پھوڑا سا سینہ پر تیرے نکلا ہے یہ کیا

جواب منہ بند پری ک

قوم کی میں بھتنی ہوں منہ ہے میرا بند
اوندھی سیدھی لیٹ کر کروں تجھے خر سند
رہتی ہوں میں کاکوری گدھی ہے میرا نام
نفرت سے اس قوم کی ہوئی ہوں میں بدنام

سوال شہزادہ کا

جلدی بتلا اب مجھے اس دم اے مردار
لا کر تیرے پاس مجھے کس نے کیا خوار

جواب پری کا

تجھ پر میں عاشق ہوئی چلتے چلتے رستا
اٹھا منگایا یاں تجھے بھیج کے مرزا مستا

شعر خوانی بہ اشارۂ منہ بند پری

آ مرے پاس کہ پتھر پہ جماؤں تجھ کو
چھاپہ خانہ کی ذرا کل سے دباؤں تجھ کو
دل کو بھاتی ہیں جو بھونڈی سی ادائیں تیری
میں اشارے سے ذرا لے لوں بلائیں تیری
لیٹ پہلو میں تو گھر بھر کو میں برباد کروں
آگ دکھلا کے پریسوں کو میں دل شاد کروں

جواب شہزادے کا

قوم میں اپنی کوئی دے گا نہ کھانا مجھ کو
مار ڈالے گا ابھی جان سے نانا مجھ کو
مجھ احمق نہ سمجھ خوب سیانا ہوں میں
تو اگر گونگی ہے کمبخت تو کانا ہوں میں
بیسوا تجھ سے زمانے میں نہ ہو گی کم قوم
آپ بدنام ہوئی ہم سے چھڑائے ہم قوم
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 79

بھیج مستا کو مجھے کھینچ بلایا تو نے
کفر کو خوب ہی پھندے میں پھنسایا تو نے

جواب منہ بند پری کا اشاروں سے

موت کا لطف ہے ایسی ہی ملنساری میں
پھیکی پکتی ہے نمک جب نہ ہو ترکاری میں
دل میں تو خوش ہے کہ کیا لڑ گئی قسمت میری
مجھ سی منہ بند پری کو ہے محبت تیری
شرم تجھ کو نہیں اے کاٹھ کے الو آتی
ہے چھچھوندر کی بند سے ترے خوشبو آتی
دیکھ پچھتائے گا برباد اگر تل ہو گا
پھر نہ موقع تجھے کم بخت یہ حاصل ہو گا

جواب شہزادے کا

وصل کرنے پہ میں راضی ہوں مگر اس عہد کے ساتھ
اب کسی غیر کا ہر گز نہ پکڑنا تو ہاتھ
دوسرے یہ کہ سنی نائی کی ہے میں نے سبھی
ساتھ لے چل کے ابھی مجھ کو ذرا دکھلا لا

جواب اشاروں میں منہ بند پری کا

بے ہودہ بات زباں پر نہیں لاتا کوئی
گھر میں حجام کے اشراف ہے جاتا کوئی
دیتا حجام کی کسوت پہ عبث جان ہے تو
وہ تعصب میں بھرا ہے ارے نادان ہے تو
ایسی جا سیر کو اشراف نہیں جاتے ہیں
قوم پاجی کی ہے بے عقل یہ اتراتے ہیں
آفت آ جائے گی تجھ پر ارے دیوانہ ہے
ایک کمبخت ہے شیطان کا وہ نانا ہے
نام تیرا جو کوئی اس کو بتا دیوے گا
ٹھونک دے گا وہ مجھے تجھ کو مٹا دیوے گا

جواب شہزادے کا

جھوٹ ہے جھوٹ ہے واللہ یہ سب بات تری
میں سمجھتا ہوں کہ حیلا ہے یہ سب گھات تری
مرزا مستا کے یہاں رات کو تو جاتی ہے
ساتھ لیتے ہوئے اس سے مجھے شرماتی ہے

جواب پری کا

بات ایسی تو زباں سے نہ نکالو صاحب
چونچ کو بند کرو منہ کو سنبھالو صاحب
مجھ کو مستا سے برا کام جو کرنا ہوتا
آدمی زاد پہ کس واسطے مرنا ہوتا
میں پری ہو کے بنڈیلے پہ فدا جان کروں
ایڑی چوتی پہ موئے بھوت کو قربان کروں

جواب شہزادے کا

روز لونڈوں کو تو کوٹھے پہ بلاتی ہے تو
پھر مرے سامنے باتیں یہ بناتی ہے تو
صبح ہوتی ہے میری جان نہ پھسلا مجھ کو
بھیرویں جلد ذرا چل کے سنا لا مجھ کو
-------------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
گلدستۂ ظرافت صفحہ 11

سیاہ پوش رہیں گی۔ مگر صدائے برنخواست۔ کسی معشوق مزاج کے تیور بھی میلے نہ ہوئے۔ اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ غریب کے نام پر کسی بھوکے تماش بین کو کوئی چیز دے دی جاتی۔
شاگردوں نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے۔ مگر مفلسی کا برا ہو کہ فاتحہ بھی نہ دلا سکے۔ آخر اسی وبال کے ہاتھوں قحط سالی کے آچار نمودار ہوئے۔ اور سب کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ لیکن قسمت میں حرام کے پیسہ سے فاتحہ لکھوا چکا تھا۔ بلبل ہند کا چہلم نہ ہو اس کے کیا معنی۔
اس قحط اور گرانی کے پر آشوب زمانہ میں جب کسی کی دعا اور نماز سے پانی نہ برسا تو رنڈیوں کو یہ خیال ہوا کہ ہم بھی کوئی نیک کام کریں۔ شاید تیرے نشانہ پر بیٹھ جائے۔ زمانہ نے بی ادھا بگن کو ابھارنا شروع کیا۔ کیونکہ نودولتوں میں قضا و قدر نے اس کا نمبر پہلے چپکا دیا تھا۔ ع

قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند

شاہی زمانہ میں ممُولا جان بائی تھی۔ جس کو نوچیوں کا بہت شوق تھا۔ تین چھوکریاں تھیں۔ شیریں جان، محبوب جان، جھمن جان۔ آخرالذکر عبداللہ ڈہاڑی کی آشنا تھی۔ اور وہی ان کو قصائیوں کے پھندے سے چھڑا لایا تھا۔ اور تعلیم دے کر رنڈیوں میں شامل کرا دیا۔ ان کے بھائی محمد حسین بھی دم چھلے کی طرح ہمراہ رکاب تھے۔ جن کی ذات سے دھابگن اور سجاد کی صورت عالم ایجاد میں آئی۔ ادھا بگن کی روزی کا دروازہ جب کشادہ ہو گیا تو محمد علی سے صاحب سلامت رہی۔ آخر گنیش پرشاد کوتوال کی اردلی میں پیش ہو گئیں۔ یہ امید کہاں تھی کہ اب زندگی بھر کوتوال کے پھندے سے چھٹنا نصیب ہو گا۔ لیکن کمائی کھانے والوں کی قسمت رسا تھی۔ کوتوال جیل خانہ ہوا کھانے چلے گئے اور یہ قید سے رہا ہو گئیں۔ تقدیر کا پتہ جلپور جا کر الٹ گیا۔ اب کیا تھا خوشامد خورے، چاپلوسی فوج در فوج گھسنے لگے۔ اور تعمیر عمارت کا شوق بڑھتا گیا۔ سجاد کے دو لڑکے تھے۔ رنڈیوں کے خاندان میں تو لڑکیوں کی چاہ ہوتی ہے۔ مگر ان کی خوش نصیبی سے لڑکے بھی کچھ لڑکیوں سے کم نہیں کماتے ہیں۔ ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کو پیچھے سے سمجھ آتی ہے کوئی آگے سے فہمیدہ ہوتا ہے۔
آخر صلاح یہ ٹھہری کہ دونوں کی بسم اللہ کا دھوم دھامی جلسہ ہونا چاہیے۔ زندگی میں کچھ دل کے ارمان نکلیں ۔ کھانا کمانا روز کا ہے۔ یہ چکی تو قسمت میں ہمیشہ سے لکھی ہے۔ مگر جلسہ ہو تو کیونکہ اس واسطے کہ چودہراین، بدر منیر، ماہ منیر کی برادری سے تو خارج ہو چکی تھیں۔ کسی مجرے میں ادھابگن اور کامنی کو مبارکباد ملی۔ یہ اکیلی لے کر چلتی ہوئی۔ اس کی پنجایت ہوئی۔ یہ کچھ منمنائیں۔ برادری سے نکال دی گئیں۔ دل نے صلاح دی کہ اس کا مشورہ اللہ باندی سے کرنا چاہیے۔ وہ یہ پاپڑ بیل چکی ہے۔ یہ اب
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 12

اللہ سے چاہتی تھی کہ کوئی پھٹ رنڈی ہتھے چڑھے۔ ایک تو چاول والی نظیر اسے خارج کر چکی تھی۔ دوسرے کربلا میں ذلت ہوئی۔ آخر تو تو میں میں کے بعد یہ بات قرار پائی کہ ہم تم دونوں چودھرائن بن جائیں۔ کچھ گنڈوں کو دینے لینے کا وعدہ کر کے ابھار دو۔ وہ رنڈیاں اکھیڑ لائیں۔ خدا کے فضل سے یہ بات تم کو آسان ہے۔ تمہارا بھائی سجاد بڑے بڑے نوابوں کی دولت گھسیٹا کرتا ہے۔ دوسرے ایک شیطان صورت چنڈو باز مرزتی مشہور مرثیہ گو طبل شاگردی بجاتا ہے۔ کچھ خکاکوں سے کہو یہ بھی سارنگیوں میں شامل ہیں۔ دن بھر گز پکڑے ہوئے تنا ریں ریں کیا کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک کو عروج دو جو سب رنڈیوں کو بہکاتا پھرے کہ تمہیں چودہراین گالیاں دیتی ہیں۔ حقیر سمجھتی ہیں۔ شہروں شہروں گاؤں گاؤں جاؤ ایک ایک ڈیرہ دار کو بلاؤ۔ آخر جابجا خفیہ کاروائیاں شروع ہو گئیں۔ اور رنڈیوں میں چودہرائن کی طرف سے برہمی پیدا ہو چلی تھی کہ بدر منیر چودہرائن کو حیدر آباد دکن میں یہ خبر ملی۔ وہ پیٹ پکڑے ہوئے فوراً لکھنؤ آ دھمکیں۔ رنڈیوں کو بلا کر پنجایت کی۔ ملکہ اور لطیفاً کے شکوے دفع کئے۔ سب رنڈیوں کو تسلی اور تشفی دی۔ بمبئی، کلکتہ، حیدر آباد، عظیم آباد، میرٹھ، بنارس، الہ آباد، کانپور، آگرہ، باندہ، رامپور تار دیے کہ ہم نے اس اس وجہ سے ادھا بگن کو خارج کر دیا ہے۔ اب کوئی رنڈی ان کے جلسہ میں شریک نہ ہو۔ جب لکھنؤ میں کام نہ نکلا تو بریلی اور رامپور گئیں۔ انہوں نے کہا ہم کو چودہرائن کا تار آ چکا ہے۔ ہم نہیں شریک ہو سکتے۔ پھر دیہات کا قصد کیا وہاں بھی چودہرائن کے خطوط روانہ ہو چکے تھے۔ لہذا بے نیل مرام واپس آئیں۔ بہت سے گنڈوں نے زور لگایا اور دھمکایا مگر کچھ پیش نہ گئی۔ تین رنڈیاں خارج شدہ ننھی، کلو، ونی وئمو اور نیوتنی کی شریک ہوئیں۔ جلسہ کا سامان شروع ہو گیا۔ مکان میں اندر باہر استر کاری ہوئی۔ کھانا پکا۔ حصہ تقسیم ہوا۔ مگر نیت بخیر نہ تھی۔ کھانے نے روغنی طباقوں ساتھ ساز کر لیا اور سب کھانا کڑوا ہو گیا۔ دوسرے بلبل ہند کی روح بھوکی تڑپ رہی تھی۔ بھلا وہ کب کسی کو ٹھنڈے پیٹوں کھانے دیتی۔ قہر درویش بر جان درویش۔ دوبارہ کھانا تقسیم کیا گیا۔ ملیح آباد کی مہندی پر بہت زور لگائے گئے۔ وہ اس اقرار پر راضی ہوئی کہ اگر ننھی شریک نہ ہو گی تو میں آؤں گی۔ جلسہ میں آئی ننھی کو دیکھ کر نہ حقہ پیا نہ پان کھایا۔ سیدھی اٹھی چلی گئی۔
تقن گونڈہ کی طوائف کے کپڑے کسی عاشق مزاج نے تیزاب میں ڈال کر جلا دئیے۔ بیچاری کا بہت نقصان ہوا۔ دوشنبہ کے دن ٹھاٹ سے ٹھاٹھ بندی ہوئی۔ روشنی شروع ہوئی۔ رئیسوں کو داخلہ کے کارڈ بھیجے تھے۔ بغیر کارڈ کے کوئی آنے نہیں پاتا تھا۔ بجلی کی روشنی نور کا عالم۔ کوٹھوں پر کرسیاں بچھی تھیں۔ پان سگریٹ موجود۔ محفل بہت اچھی سجی تھی۔ رات کا دن تھا۔ مسلمان و ہندو علیحدہ علیحدہ کرسیوں پر جلوہ گر۔ جو آتا تھا
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 13

دس روپیہ سے تین روپیہ تک نیوتہ دیتا تھا۔ نوکری سے برطرف تھیں۔ یہ تحصیل اس واسطے کی گئی کہ کچھ دنوں تک بیٹھ کر کھائیں۔ شہر کے بہت سے رئیس شریک جلسہ تھے۔ تعجب تو یہ تھا کہ ایک مقدس مقام کے مولوی مفتی بھی شریک جلسہ تھے۔ شہر کے نامی گرامی حکیم صاحب الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی سفتہ گوش بنے ہوئے سجاد کی شاگردی کا حق ادا کر رہے تھے۔ رنڈیوں کی طرف سے صفر تھا۔ کچھ گڑھے والی سرائے کی ٹکاہیاں کچھ نئے گاؤں کی خانگیاں شریک حال۔ کوئی صورت ایسی نہ تھی جو دل کو لبھاتی، کوئی آواز ایسی نہ تھی جو فرحت بخش ہوتی۔ گانے والیوں کا قحط تھا۔ پہلے خود ناچیں پھر رئیس بھانڈ پھر باندے والی ناچنے کھڑی ہوئی تھی کہ پائجامہ کھل گیا۔ ایک تاریکی اور سناٹا چھا گیا اور سناٹا چھا گیا اور ایک قہقہہ پڑا۔ پھر اللہ باندی کی لڑکی ننھی پھر بھانڈ اور مردانی ناچا۔ جوان بڑھیاں لنگڑی لولی سب ملا کر سترہ رنڈیاں جن کے واسطے دو مہینہ تک دوڑ دھوپ رہی۔ دو چار مصنوعی رنڈیاں بھی شریک حال تھیں۔ بی اللہ باندی نے بھی مجرا کیا۔ اور پھر سجاد نے باجا بجایا۔ باقی رات بھر بھیروں ناچا کیا۔ گویا پہلی بسم اللہ غلط ہوئی۔ اس خوشامد پر بھی رنڈیاں شریک نہ ہو سکیں۔ صبح ہوتے ہوتے جلسہ برخاست ہوا۔ پہلے ایک مقدس مولوی منہ چھپائے ہوئے نکلے۔ جانا ہی چاہتے تھے پھاٹک سے باہر قدم رکھتے ہی بلبل ہند منمناتا ہوا قدموں پر جا گر پڑا۔ خدا سلامت رکھے۔ غلام نے جس دن سے انتقال کیا روح ایک ٹکڑے روٹی کو ترس رہی ہے۔ شراب تو کہاں ممکن اب کوئی کھانے کو پوچھنے والا نہیں۔ آج چالیسواں دن ہے جوڑہ دینا کیسا کسی نے ایک چلو بھر پانی بھی نہ دیا۔ روح پرفشار قبر کیا کم تھا جو بھوک کا عذاب سہتی۔ کارکنان قضا و قدر کو دل دلاسا دے کر یہاں تک آیا ہوں۔ حضور سے ایک گذارش ہے ادھا بگن نے جو پہلے حصہ بانٹا تھا اور خوش نیتی سے کڑواہٹ اس میں مل گئی تھی جس کے جرم میں دوبارہ گنہگاری دینی پڑی تھی وہ فاضل رقم ہاتھ اٹھا کر میرے نام بخش دیجیے۔ آپ کو بھی ثواب ہو اور میرے چالیسویں کا کام بھی ہو جائے گا۔ جوڑے کی فکر کبھی اور کر لوں گا۔ فی الحال چار رئیسوں کو تو معلوم ہو جائے گا کہ بلبل ہند کا چالیسواں دھوم دھام سے ہو گیا۔ مولوی صاحب نے ہر چند جان چھڑانا چاہی۔ بہت کچھ لاحول پڑھا۔ مگر وہ کب کھسکنے والا تھا۔ دوسرے چالیس روز کے فاقہ سے صورت سوال ہو گئی تھی۔ ملا کو رحم آ گیا۔ ہاتھ اٹھا کر فاتحہ دے دیا اور ثواب بلبل ہند کی نذر کر دیا۔ وہ یہ کہتا ہوا اپنے مقام پر واپس ہو گیا ؎

میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوئی
خون کے چھاپے لگے دیوار میں
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 14

رنگ میں بھنگ

خدا آباد رکھے لکھنؤ کو پھر غنیمت ہے
نظر کسبی سڑی رنڈی کی صورت آ ہی جاتی ہے

واللہ غنیمت ہے۔ لاکھ لکھنؤ مٹ گیا۔ پس گیا۔ قحط سالی سے تباہ ہو گیا۔ کھد گیا۔ طاعون نے نورا لگا کر صفا چٹ میدان بنا دیا۔ مگر ماشاءاللہ اس بڈھے شہر کے وہی دم خم ہیں۔ اس میں کوئی مہینہ عید سے خالی نہیں جاتا اور پھر یہ خوشی دن دونی رات چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ ؎

آسماں کی کب ہے طاقت جو چھڑائے لکھنؤ
لکھنؤ مجھ پر فدا ہے میں فدائے لکھنؤ

ہندوستان میں جہاں ملکی بہی خواہوں کے دو گروہ ہیں اور اپنی قوم کے پولیٹکل معاملات کے کیل کانٹے کے درست کرنےمیں سرگرم پائے جاتے ہیں۔ جن کو کانگریس اور کانفرنس کے معزز خطاب سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ وہاں خدا رکھے لکھنؤ میں ارباب نشاط کی بھی دو پارٹیاں ہیں۔ یا یوں کہئے کہ طوائفان شہر کی دو ٹکڑیاں ہیں۔ بڑے جہاز کی ناخدا تو بی بدر منیر و ماہ منیر عرف نتہوا، بچوا ہیں اور چھوٹی کشتی جو ڈبکوں ڈبکوں میکند ہے اس کی ملاحی زمانہ کج رفتار کے ہاتھوں ع

آدمیاں گمشند ملک خدا خدا گرفت

کے مصداق ہو کر چاول والی نظیر کے حصہ میں آئی ہے۔ اول الذکر چودہرائن کے یہاں تو خدا کے فضل سے سال بھر میں ایک آدھ دھوم دھامی جلسہ ہو جاتا ہے۔ ابھی دو چار دن کی بات ہے رشک منیر کی چھٹی میں وہ قیامت کی پری زاد نورانی محفل تھی کہ سبحان اللہ۔ چشم فلک نے بھی نہ دیکھی ہو گی۔ ہندوستان کی مشہور اور حسین طوائفوں کا جمگھٹا تھا۔ جو دیکھ چکا ہے اس کی نظر سے ساری دنیا کے جلسے اتر گئے اور جس نے نہیں دیکھا وہ آج تک کف افسوس ملتا ہے۔ اس کا جلسہ کا رشک مخالف پارتی کو بہت کچھ ہوا اور ایک مدت سے یہ خیال گدگدا رہا تھا کہ کوئی موقع ملے تو اس کا جواب دیا جائے۔ خدا خدا کر کے بی اللہ باندی کے یہاں نواسی تو نہ ہوئی نواسا پیدا ہوا۔ چار نا چار خوشی کا صیغہ گرداننا پڑا۔ اگرچہ زمانۂ سلف میں مدت حمل نو مہینہ تھی مگر زمانہ نے ہر نہج میں ترقی کی ہے۔ برسوں کا سفر ریل کے
-------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 15

ذریعے دنوں میں طے ہوتا ہے۔ تار پر چشم زدن میں صد ہا کوس خیر پہنچ جاتی ہے۔ مرغی کے بچے 21 دن کی جگہ چشم زدن میں کل کے ذریعے سے اچھلتے کودتے نکل آتے ہیں۔ پھر مدت حمل کا گھٹنا کچھ تعجب خیز امر نہیں۔ ننھی تو فرزند پیدا ہونے سے باچھوں تک کھل گئی۔ بڑے بڑے ساہ جی مارے خوشی کے کپا ہو گئے۔ نانی کے اگلے پچھلے آشناؤں میں مسرت کی ہنڈیا گرم ہونے لگی۔ شیخ، سید، مغل، پٹھان، اسٹر مصتر ایرا غیرا ملو تیلیا ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ خواجہ بدیع الزماں تو مارے خوشی کے منہ سے طبلہ بجا رہے تھے۔ اور ہمارے خان صاحب جن کا عاشقی میں نمبر حد جنون تک پہنچ چکا تھا ریشہ خطمی ہوئے جاتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ پختہ انناس پھٹ کر رہ گیا ہے۔ ادھر اچھن اپنی بہادری جتا رہا تھا۔ عجب بم چخ تھی۔ کوئی کس کی سنے اور کس کی نہ سنے۔ غرض کہ پرانے برتنوں پر نئی قلعی اور نئے برتنوں پر جدید پوڈر ہونے لگا۔ گھر کی ذرا ذرا سی چیز مانجی گئی۔ صاف کی گئی۔ زر کی طرف سے مالدارے را حکایت کنند۔ اب دوسرا پہلو بھی نواسہ کی تشریف آوری سے قوی ہو گیا۔ ایک میراثی بھی گھر کا ہو گیا۔ اس خوشی کا کیا پوچھنا۔ مثل مشہور ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ اللہ باندی کی چودہرائن چاول والی نظیر تھی۔ لیکن ان کو ان سے کسی قدر نفرت تھی۔ وجہ یہ تھی کہ پارہ کی ممتا کی لونڈی وزیرن اور وزیرن کی پروردہ نظیر۔ گو در گو ۔ نجیب الطرفین۔ پھر ان کی صاحبزادی بچوا جو رضا حسین ڈیرہ دار سے ہے۔ جس کی خدمت میں امراؤ کا لڑکا ظہور ہر وقت پیش رہتا ہے۔ اس سبب سے چاول والی اس مسند نشینی کی مستحق تصور نہ کی جاتی تھی۔ اور چودہرائن کا یہ خیال کہ آبادی جان گوری بی بی کی لونڈی ایک گورے سے پیدا ہوئی۔ اللہ باندی کھلونہ بھانڈ سے پیدا ہے۔ امانی کی ماں موجود ہے۔ یہ سب تحقیقی ہے۔ ان کی ذات میں کون بٹا لگا سکتا ہے۔ آخر نا اتفاقی کی بم پھوٹ نکلی۔ چار رنڈیوں کی چودہراہٹ کتے کے منہ کی ہڈی ہو گئی۔ دنوں میں نزاع پڑ گئی۔ آپس میں کھٹ پٹ شروع ہو گئی۔ ظاہر میں تو کچھ دیہاڑیوں کے بارے میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں۔ ایک ڈہاری خان کی رائے کچھ خلاف تھی۔ یہ چودہراہٹ کی گذی بھی ٹھکانے سے نہ تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ کالی امراؤ کا حق ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ گوہر کے دم تک چودہراہٹ کا منصب ختم ہو گیا۔ چونکہ چاول والی نظیر اپنی دال گلا چکی تھی ؎
***** ؟؟؟

چودہراہٹ کی بدھی ان کو پہنائی جا چکی تھی۔ ہر کسے را بہر کارے ساختند
------------------------------------------------------------
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 49

کہہ سکتے ہیں کہ فاقہ کشی میں جبکہ آپ لوگ نان شبینہ تک کو محتاج رہیں اتحاد اور اتفاق کو قایم رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طاعون اور ہیضہ نے ایک دم سب کو چٹ کرنا شروع کیا۔ کبھی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں بھاگتے پھرے۔ اس میں جانیں بھی تلف ہوئیں اور مایہءِ بساط بھی زوال پذیر ہوتا رہا۔ چھوٹی مچھلیوں کو بڑی مچھلیاں کھا گئیں۔ تعصب کی آتش نے دونوں کو ازکار رفتہ کر دیا۔ اب آپ لوگوں پر ایک مچھر بغیر توپ بندوق کے حکومت کر سکتا ہے۔ اور آپ کی نکیل ایک چھوٹے سے مدبر کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے۔
آخر میں نہایت صدق دلی سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کی بدولت چند روزہ حکومت کر لی۔ اور جہاں تک مجھ سے ممکن ہوامیں اثبات کی کوشش کروں گا کہ آینہ برد ؁۷۰ء آپ کے ساتھ زیادہ کانٹ چھانٹ نکریں۔ چاہے بھوکے مریں۔ ننگے رہیں ۔ لیکن جانیں سلامت رہیں۔

لال بجھکّڑ کا لکچر
گذشتہ ہفتے میں ایک چو مغزا لکچر جو مسٹر لال بجھکر نے دنیاکی جوتی پیزار پر مقام اوجاڑ نگر ضلع نیست و نابود میں دیا تھا۔ اور جس میں عالمگر بیوقوفی پر ایک سخت حملہ کیا تھا۔ جنگلی زبان سے ترجمہ کر کے ہدیہ ناشناسان کیا جاتا ہے۔ وھو ھذا
صاحبو! آپ نے وحشت آباد کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے! مجھے فخر ہے کہ یہ ایسی قابل درسگاہ ہے کہ جہاں مسٹر بوکھلاہٹ و مولوی شیخ چلّی جیسے آزاد خیال فلاسفر نے ذانوئے ادب تہ کیا ہے۔ مجھے شروع سے اوجاڑ نگر ضلع نیست و نابود کی زیارت کا شوق تھا اور یہ شوق اس مقصد پر مبنی تھا کہ میں غیر مہذب صاحبوں کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جب میں افریقہ کے کوہستان میں تھا تو میرا یہ خیال تھا کہ اوجاڑ نگر کا مستقبل بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ آج مشاہدہ سے میں اپنے خیال کی تائید پاتا ہوں۔ میرا مقصد خاص یہ ہے کہ دنیا کے معاملات میں دلچسپی حاصل کروں اور اس کی حالت یہ ہے کہ ؂



ص 50
اہل دنیا کافران مطلق اند
روزو شب ورذق ذق ودربق بق اند
خاصکر ہندوستان جنت نشان کےہندو مسلمان کی حالت غور طلب ہے۔ طرز تعلیم کا مسئلہ عملی طور پر حل کرنے میں میں اس پر بحث کروں گا۔ کہ آج جو طرز تعلیم جاری ہے وہ ہندوستانیوں کو بہتر بنانے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ میں ایک سرے سے تعلیم کو ہندوستان کے خلاف سمجھتا ہوں۔ جوں جوں یہ تعلیم حاصل کرتے جاتے ہیں اور پستی کی طرف نزول ہوتا جاتا ہے۔
؂ لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

ایک جانب علیہ الکھ پڑی کے بیان کی شہادت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہےکہ عموماً جاہل اور ان پڑھ خدا ترس معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان میں ایثار نفس کا مادہ موجود ہے! دیکھئے بوجھا اٹھانے والے مزدور سب جاہل ہیں۔ بھیک مانگنے والے خدا کے نیک بندے سب اجہل ہیں۔ کاشتکار جاہل لوہار بڑھئی چمار سُنار دھوبی سقے سب جہالت کے دریا میں غوطے لگا رہے ہیں۔ اور ان میں ایثار نفس کا مادہ موجود ہے۔ ایثار نفس اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کو کسی مشقت میں عار نہیں۔ (نعرہ تعریف) اگر خانخواستہ یہ تعلیم کے جواہر سے آراستہ وپیراستہ ہو گئے اور ان کے دل و دماغ میں ہوائے حکومت سما گئی۔ تو تمام شافائے شہر کی مٹی خاک میں مل جائے گی۔ اور ان کو سوائے پھیک یا افیون کھا کر سو رہنے کے اور کچھ نہ بن پڑے گا۔ میرے نزدیک تعلیم کا دروازہ یکلخت بند کر دیا جائے۔ اور انگلش ڈیریس میں سب کو آراستہ و پیراستہ کر کے گدھوں کی طرح بوجھا لادا جائے۔ اودا ٹھیل کینچھنے کی ڈگری دی جائے۔ ورنہ صاحب لوگوں کی طرح ٹفن کھانے کے عادی ہوگئے تو یہ تر نوالہ ان سے چھوٹنا محال ہے۔ بہرحال کچھ ہو میں تعلیم کے سراسر خلاف ہوں۔
؂ پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب
جو کھیلو گے کودو گے ہو گے نواب

اس اثر کو طلبائے علیگڑھ نےاچھی طرح محسوس کر لیا۔ اور آئندہ پرنسپل صاحب کی عنایت سے امید ہے کہ وہ تعلیمی دریہ کو پھونک دیں گے۔ اور اس الماغوچی کشمکش سے نجات حاصل کر کے مزے اڑائیں گے۔ اور ٹرسٹی صاحبان اس خیال کی تائید کر کے مدد دیںگے۔ کپاس کے معاوضے میں تعلیم نسواں فائدہ دہ ثابت ہو گی۔ بشرطیکہ کے آزادی کے ساتھ حاصل
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
-----------
صفحہ 41
-----------

کے معارضے میں کتیا پال رکھی تھی ۔ اور بجائے کالا منہ کرانے کے پریسوں کی سیاہی ہر گزر تھا اس جال میں ایک نہ ایک اٹیلا رئیس پھنس جاتا تھا ، اور تم گالیاں سنا کر اس کر اس کا روپیہ ٹھگ لیتی تھیں ، وہ بھی کچھ سمجھ کر کہ ؂

۔معشوق کی گالی سے تو عزت نہیں جاتی ۔

تم کو چرح دے جاتا تھا اور کچھ بھینٹ چرھا کر اپنی جان چھڑا لیتا تھا ۔ تم کو یہ لت ایسی پڑ گئی تھی جیسے بلی کے منہ کو خون کا چسکا ۔ تم سمجھ لیتی تھیں کہ میں میدان مار لیتی ہوں ۔اور بازی جیت جاتی ہوں۔ اسی بخیہ پر مولانا کے ساتھ بھی بازی کھیلنا چاہی ۔ وہ ایک پرانے کھلاڑی تھے ۔ تمہاری چال سمجھ گئے ۔جب تم بازی کھیلنے بیٹھتی ہو کتیا بھونکتی ہے ۔ کھلاڑی ہار جاتا ہے تو پہلے انہوں نے اپنے لٹھ سے کتیا کا سر بھرتا کر دیا۔ اور مسٹر ٹیپو کے ساتھ اس کو بھی کالعدم کر دیا۔

اعتراض کی گرمی نے سب کو ٹھنڈا کر دیا اور تمہاری چودر کی ساری گوٹیں ماری گئیں پہلے تو کلموہے، بدھیئے، بکرے ، مرزا ستا والے کا سر کچل دیا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ نائی والی گوٹ مار لی۔ پھر درزن کی حالت چیتھڑے چیتھڑے ہو گئی۔ رنگ بد رنگ۔ الم غلم ۔ تھو خیرا سب کو روسیاہی نصیب ہوئی۔ اب تم جان کی بازی لگائے کھیل رہی ہو۔ اور سوائے تین کاٹے کے کچھ نہیں آتا۔ ہار جاؤ گی اور یقینی ہار جاؤ گی۔ اس جنم میں تمہاری جان کو یہی تاج الملوک تھے ۔ اور یہی سہرا انہیں کے سر ازل سے لکھ ہوا تھا۔ اب اپنی روانگی کا سامان کرو۔ ؂

۔۔۔ہر روز عید نیست کہ حلوا خورد کسے۔۔۔

راوم شہزادہ تاج الملوک
-----------
صفحہ 42
-----------


مولانا ظریف کے نام تاج الملوک کا شقہ

مسٹر ظریف در اصل تمہارا وجود منکران اعتراضات کے واسطے مشفق ناصح کا کام دے رہا ہے۔ جب خاقانی اور غالب کے پیچ در پیچ مضامین خیز اشعار بعض بعض مااہواری رسالے اور ہفتہ وار اخبار حل کر دیا کرتے ہیں۔ اور اکثر ملکی ہمہ دان مفہوم سمجھ کے مزا اٹھاتے ہیں۔ تو یہ صریحی اور بدیہی اعتراضات کس گنتی اور شمار میں تھے جو ہر شخص نہ سمجھ جاتا۔ لیکن اس میں ذرا سی کسر تھی۔ وہ یہ کہ مولانا کا انداز تحریر مہذب اور ثقہ تھا۔ اس کو سمجھنے والے صرف وہی ولگ ہو سکتے تھے جو اس پایہ اور مرتبے کے تھے۔ چنانچہ نامی نامی اخباروں نے ان عالی مضامین اور قابل قدر اعتراضات کو تسلیم کر کے اس کی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ چند ان کوتہ نظروں نے جن کے دلوں میں تعصب اور موروثی کاوش اور دلی بخارات اور بد خیالات بھرے پڑے تھے۔ ان اعتراضات کو بھی تعصب کا جامہ پہنانا چاہا۔ اور ان کے ہمنوا جو پرانے گیدڑ جو اندرونی آتژ تعصب روشن کر رہے تھے چل پوں مچانے لگے۔ مگر اس واویلا اور دہائی کا سب ب سخن فہم سمجھ گئے ؂
۔۔۔ مہ فشاند نور سگ عف عف کند ۔۔۔
اور اس لیے کوئی الزام مولانا کی کامل تحقیق اور وسیع نظری پر نہیں آیا۔ اور ان کے معنی خیز اور گہرے اعتراضات کی وقعت اور ترقی پذیر ہوتی گئی۔ ؂

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہء آفتاب را چہ گناہ

فہم و دانش سے بہرہ رکھنے والے تو قدر افزائی کرنے لگے۔ اور حقیقی اور واقعی اعتراض کو دیکھ کر اس کتاب کی اصلاح کرنے لگے۔ لیکن بیجا طرفدار اور ہٹ دھرم حمایتی مرغے کی ایک ہی ٹانگ بتانے والے اور اپنی قدیمی جبلی عادت سے باز نہ آئے۔
یہاں تک کہ بعض مفسدہ پرداز طبیعتوں نے کھینچ کھانچ کر اس کو مذہبی تعصب سے تاویلیں کر کے قومی غیرت دلائی اور ہمنوا بنا کر زبردستی میدان لارزار بنا لیا۔
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
گلدستۂ ظرافت صفحہ 85

دی۔ مگر اس خوف کے مارے جان نکلی جاتی ہے۔ کہ پلیگ ہر سال صفائی کا داروغہ بن کر آتا ہے اور ہندوستان کی لاکھوں بکریاں گرگ کر اجل کے حوالے کر دیتا۔
بات یہ ہے کہ ہم خود بھوکے ہوتے ہیں۔ قاعدے کی بات ہے کہ نزلہ بر عضو ضعیف میریزد۔ کمزور سمجھ کر ہمیں کو دباتا۔ وہ لوگ اس بیماری سے محفوظ ہیں جو مرغن کھانے کھاتے ہیں اور ہماری کمزوری ظاہر ہے کہ انسانی خوراک کا کوئی حصہ ہم کو میسر نہیں آتا۔
چوپایوں کو خوراک ملتی ہے۔ در حقیقت بغیر سرکاری امداد کے ہمارا چوبردہا نہیں چل سکتا۔ ہماری نکیل گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جب ذرا ہم سر اٹھاتے ہیں۔ وہ ایک جھٹکا دیتی ہے کہ ہم ناک مل کے رہ جاتے ہیں۔ ورنہ ڈنمارک میں آج کل جو نمایاں ترقی قابل رشک ہو رہی ہے وہ گورنمنٹ کی اندرونی اور بیرونی مدد سے ہے۔ راتوں کو گورنمنٹی ہمزاد ان کی کاشتکاری کرتے ہیں۔ اور ان کی خشک زمین میں نلوں کے ذریعے سے آب رسانی کرتے ہیں۔ کھیتوں کو سر سبز کرتے ہیں۔ اناج کاٹ کر غلہ کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اگر ایسی رعایت اور مہبانی ہم ہندوستانیوں کے ساتھ کی جائے تو آج ہندوستان انگلستان سے وقعت اور منزلت میں کچھ کم نہ ہو۔ کیونکہ ماشاءاللہ ہندوستانی ان سوکھی ہڈیوں پر بھی محنت میں کچھ کسی سے کم نہیں ہیں۔ زراعت میں یہ حالت ہے۔ اور صنعت میں یہ حال ہے کہ اپنی بری اور بھدی چیز غیر ممالک کی نفیس اشیاء سے اچھی معلوم ہوتی ہے۔ ہندوستان کا ٹاٹ یورپ کی زربفت سے عمدہ ہے۔ یہاں کی چڑیل وہاں کی پری سے بہتر ہے۔ ہم کو حب الوطنی کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اور ہم لوگوں کو غیر ملکی اشیاء کی صفائی اور خشنمائی کو بالکل فراموش کر دینا چاہیے۔ اس کی سفید دانہ دار شکر قند سیاہ سے بدتر ہے۔ اور یہ نفرت جب تک دل میں قائم نہ ہو گی اور غیر ملکی چیزوں کی طرف سے آنکھ نہ بند کر لی جائے گی۔ اس وقت تک دل کی آنکھیں روشن نہ ہوں گی۔ لیلیٰ را بچشم مجنوں باید دید ؎

کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف
دل کے آنے کے ڈھنگ ہیں کچھ اور

ہم کو اپنی نورانی گدڑی سنبھالنا چاہیے ؎

کہن خرقۂ خویش پیراستن
بہ از جامۂ عاریت خواستن
----------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 86

ہم کو لازم ہے کہ اپنی ڈفلی منڈھ کر بجائیں اور کچھ نہ ہو تو غل قش چل پوں مچا کر ملک میں ہل چل ڈال دیں۔ جس سے گورنمنٹ کی نظروں میں ہماری وقعت ہو۔ اور ہم کو بھی مرد سمجھے۔ بغیر اس کے عزت حاصل کرنا مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

مسٹر سیون 7 کا آخری چارج

اے والیان ملک۔ اے مہتران قوم۔ اے راجگان و نوابان۔ اے شریف قوم۔ اے رذیل قوم۔ اے دانا و اے نادان میرا مدت مدید سے خیال ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں تمام شریف اور پاجیوں سے خفیہ ملاقات کروں اور باری باری سے اپنے دربار میں بلاؤں۔ افسوس وہ وقت تو نصیب نہ ہوا۔ اور میری رخصت کا زمانہ قریب آ گیا۔ ؎

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میں جانتا ہوں کہ آج تمام دنیا کے ہال میں آپ لوگ میری ملاقات کو جمع ہوئے ہیں۔ دنیا کی اسٹیج پر اجلاس کرنے کا دستور قدیم الایام سے مروج ہے۔ چنانچہ آج تک دھوبی، مہتر، بھنگی، بہشتی، کبڑئیے دن بھر کی چھوا چھو اور ہٹو بچو اور لہسن پیاز کی دھرمار اٹھا پٹخ کے بعد آٹھویں دسویں پنچایت کر کے ایک موٹے تازے احمق کو اپنا مکھیا بنا لیتے ہیں جو ان کی چندیا سہلاتا ہے اور بھیجا کھاتا ہے۔ اس طرح کی بے وقوفی میں اتفاق وقت سے آج میں بھی پھنس گیا ہوں ۔ ایسے ایسے اجلاس کی بدولت بہت سے کام کی باتیں نکل آتی ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی قدر میری طرز حکومت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تو اس کی اصلاح میں دوسرے دربار میں پہنچ کر کر دوں۔ مگر مجھ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تمام دنیا کی رائے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔ میں ہمیشہ سے شہرت طلب واقع ہوا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ

میرے کارنامے آبِ زر سے لکھے جاویں

کیونکہ تاریخی واقعات اور قوم کے گرے پڑے آثار سے ماضیت اور کس مپرسی کا نقشہ ہو بہو
----------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 87

کھنچ جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ میرے زمانۂ حکومت میں بہت سے واقعات ایسے ہوئے جن کو لوگ کبھی نہ بھولیں گے۔ جدید شاہ ایران کا ایرانی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا اور ایران میں پارلیمنٹ کا قائم ہونا۔ اور مالی معاملات کی نگرانی میں پورا اختیار حاصل کرنا۔ تجارت کے متعلق عہد و پیمان کی تکمیل۔ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں آ جانا۔ یہاں تک کہ وزیر کا تقرر پارلیمنٹ کے اذن سے ہونا۔ اس کے بعد سب سے زبردست واقعہ ہز میجسٹی امیر حبیب اللہ خاں دائی کابل کا دورۂ ہندوستان ہے جو خاص کر تمام ہندو مسلمانوں کی خوشنودی کا باعث ہوا۔
پھر مشرقی بنگال اور پنجاب کی شورشیں اور بغاوتیں شروع ہوئیں اور اسی جھپٹ میں لالہ لاجپت رائے اور بگھو حلوائی بھی آ گئے۔ کہ کرد کہ نیافت۔
لوگوں کی باغیانہ حرکتوں نے گورنمنٹ کو ان سے اس قدر بدظن کر دیا کہ مابدولت کی نگاہ میں ان کا ذرا بھی بھروسہ نہ رہا۔ اور آخر دو چار مڈھ پکڑ کر بھیج دئیے گئے۔ تو ان کا نشہ بغاوت ہرن ہو گیا۔ اور جب

ادہادہند شکایتوں کی بھر مار

کے بعد بھی مابدولت خاموشی اختیار کر بیٹھے تو آتے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ اور سمجھ گئے کہ سرکار کو دیوی کی بھینٹ چڑھانے کی ضرورت ہے۔ پھر آخر بغاوت وفاداری کے ساتھ بدل گئی اور خوشامد کی ٹٹوی دوڑنے لگی۔ گورنمنٹ ایسی ہے، ویسی ہے، ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے، بزرگوں کا مقولہ ہے کہ مار کے آگے بھوت بھاگتا ہے۔ اخبار ۔۔۔۔۔۔ کے سابق ایڈیٹر جو جیل خانہ کی نذر کر دیے گئے۔ شاہ مراکو کی عیش پرستی نے یہاں تک پاؤں پھیلائے کہ دارالبیضاء میں ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ ناعاقبت اندیش لوگ اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے۔ سخت افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اگر یہی نا اتفاقی رہی تو مراکو کی قدیم سلطنت کا آفتاب جلد غروب ہو جائے گا۔ اور اس ہولناک منظر کو خاموشی اور حسرت کے ساتھ تمام لوگ دیکھیں گے۔ مابدولت کا غصہ اس سے زیادہ ہوتا جاتا ہے اور قریب ہے وہ زمانہ کہ ہم ناخوش جائیں مسلمان ایک سبب سے۔ ہم کو زیادہ منحوس سمجھتے ہیں اور وہ نواب محسن الملک بہادر کی بے وقت موت ہے۔ افسوس صد افسوس!
----------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 88

ہندوستان میں ہماری یادگار

ہم ہندوستان میں اپنی چند یادگاریں قائم کئے جاتے ہیں جن میں خاص کر ذکر کے قابل صرف ایک قحط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری اس انمول یادگار کے آثار تمام ہند پر ظاہر ہیں اور آئندہ اس مبارک آفت کا سامنا آنے والا ہے جس کی وجہ سے آئندہ مسٹر ایٹ 8 کی گورنمنٹ کو اور ان کے عہدہ داروں کو اپنی ساری قوتیں اور قابلیتیں کام میں لانا ہوں گی اور بے چینی اور دوہائی تہائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ صحیح ہے کہ ایسی حالت میں ہمارا چارج دینا کسی طرح موزوں اور مناسب نہ تھا۔ مگر میرے خیال میں میری روانگی ذاتی حرکت کا نتیجہ نہیں ہے پس مجھ کو اپنا حسن انجام خدمت دکھا کر اپنا اعزاز قائم کرنا ہے۔
آج جو تکلیف پبلک کو دی گئی ہے اس میں زیادہ ضروری کام انجام پا سکتے ہیں۔ یہ بات زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ میں اس کارروائی کو جو عام کی مصیبت کی سختی کم کرنے کی غرض سے میں نے تجویز کی ہے یا آئندہ کرنا چاہتا تھا۔ جس قدر زیادہ غل غپارہ کے ساتھ ممکن ہو گلا پھاڑ پھاڑ کر بیان کر دوں۔ کیونکہ آج بہت موٹے موٹے اشخاص، بڑے بڑے زمیندار قسمت ہند کے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ

اس واویلا سے کچھ فائدہ نہ ہو گا

آپ سب آپس میں مل کر تمام مختلف اسباب مصیبت کی گٹھری اپنے سر پر اٹھا کر دقتوں اور پریشانیوں کی گلیوں میں گشت لگائیے۔
ان دنوں ایک ایسا خفیف امر ہے جس کے خیال و اندیشہ سے امیر و غریب سب کی روح پر پرواز کھولے ہوئے طاعون کی امداد کی منتظر ہے۔ اور افلاس کا دیو ان کے پیچھے لٹھ لئے ہوئے گھوم رہا ہے۔ نا اتفاقی کی جوتی پیزار برابر مرمت کر رہی ہے۔ ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے کو ملک کے ہونہار لوگ میٹھی نیند سو رہے ہیں اور خود غرض اپنے فائدہ کی غرض سے ان کی کملی کترنے اور جیب کترنے کو بھائی بنا رہے ہیں۔ یہ خود غرض لوگ سر مونڈن کرنے کی غرض سے دوست بننا چاہتے ہیں۔ ان کے دام فریب میں ایک مظلوم سرشار قوم آ جائے تی۔ پس چونکہ ہماری امیدوں پر پانی پھیرا جاتا تھا۔ یہ بہتر معلوم ہوا کہ خشک سالی کے وبال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے اور کوئی حیلہ شرعی اختیار کیا جائے۔ شعر

صوفی داند ہر آنکہ اہل درد است
کیں حادثہ جہاں ادیب مرد است
----------------------------------------------------------------

گلدستۂ ظرافت صفحہ 89

در زیر فلک سر کشی آغاز مکن
اے خوشۂ گندم آسیانہ کرد است

اس ڈبل کارروائی

کی ابتدا میں تم سب لوگ بھڑکتے تھے۔ قحط سالی کے نام سے بخار چڑھتا تھا جب ہم نے سوچ سمجھ کر ذرا باگ ڈھیلی کر دی۔ اور چمکارنا شروع کیا کہ تم گھبراؤ نہیں دلجمعی اور اطمینان سے محنت اور جانفشانی کی تخم ریزی بے فصل خریف کے کاٹنے کے واسطے ہنسیا لئے ہوئے کھیت میں ڈنڑ پیلا کرو۔ جب وہ زمانہ بھی نکل گیا تو پھر ایک دوسری ہوا باندھی کہ اگرچہ فصل خریف نہ ہوئی مگر اس کی کسر ربیع میں بالکل نکل جائے گی۔ ایک دم سے اٹھارہ اناج بو دینا اور گنے کے کھیت میں گھیاں کی بیل پھیلا دینا۔ آلو خود بخود پیدا ہو جائے گا نہیں تو شکر قند، گاجر، مولی، گوبھی کے پتے غذائے لطیف کا کام دیں گے۔ بالآخر وہ دن بھی گذر گئے اور چنے کے کھیت گدھے چر گئے تو وہی

پرانا راگ الاپنا شروع کیا

جب ستمبر کا مہینہ گذر گیا اور ہمارے جال کا ایک ایک تار کھلنا شروع ہو گیا۔ ستمبر ہی میں ایک بوند نہ برسی اکتوبر بھی اپنا توبڑا خشک لے کر چلا گیا۔ اگہنے کے دھان کے واسطے سنچائی کی ہوا بندھوائی۔ مگر اوس چاٹے کبھی پیاس بجھتی ہے آخر دوسری خریف بھی نہ ہوئی۔ دھان کا آٹھواں حصہ بھی پیدا نہ ہوا۔ اس پر مزید چوٹ یہ ہوئی کہ باجرا، جوار، مکی جو غریب غرباء کی خوراک ہیں وہ بھی نیست و نابود ہو گئے تو ہمارے چھکے چھوٹ گئے۔ اب یوں سمجھنا چاہیے کہ معمولی پیداوار کا چہارم حصہ بھی پیدا نہ ہوا۔
مجموعی کاشت ستر لاکھ ایکڑ زمین پر ہوتی ہے۔ وہ بھی اوسط درجہ کی ہوئی۔ اوکھ کی پیداوار اس سے بہت کم ہوئی جس کی دو مہینہ سے سیوا کی جاتی تھی۔ اور سب کسان منہ میٹھا کرنے کو زبان چاٹ رہے تھے۔ خلوا خوردن را روئے باید۔ بعض ضلعوں میں چارہ ابھی سے کم یاب ہے۔ اور بہت گراں ہے۔ آدمیوں تک کو گھانس کھانے کو نہیں ملتی۔ ستمبر اور اکتوبر میں پچھواء ہوا چلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین میں نمی کا نام بھی باقی نہ رہا۔ اور اس کا افسوس ہے کہ جن دریاؤں سے آب رسانی میں مدد لی جاتی ہے وہ خود ایک ایک قطرہ پانی کو محتاج ہیں۔ یہ موجودہ زمانہ کا افسوس ناک پہلو ہے۔

روئی نہ کپاس کولہو سے لٹھم لٹھا

تجاری اجناس میں روئی نے پشم برابر بھی ساتھ نہ دیا۔ کپاس کی جنس ادن مقامات میں آبے سانی کے صیغہ کی گڑن برابر جاری ہے۔ کچھ تھوڑی بہت پیداوار کا *** کیا ہے۔ سب گاؤں والے کھیتی میں سر کھپا رہے ہیں۔ لیکن موسم سرما نومبر کا مہینہ بھی جواب دے چکا۔ پانی برسنا کیسا، اوس تک نہ گری۔
----------------------------------------------------------------
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-----------
صفحہ 43
-----------

جس میں اصل اعتراضات چھپ جائیں ورنہ ساری قلعی کھل جائے گی۔ اور اس منشاء کو بد ترین پہلو کے ساتھ پنچ میں رٹنا شروع کیا۔ اس سے غرض یہ تھی کہ تمام مہذب دنیا اس سے کنارہ کش ہو جائے۔ اور ہم بیجا اور سخت الفاظ سے اپنا کام نکال لے جائیں۔ مسٹر ظریف تمہارا درد ان پھکڑ بازوں کے واسطے غنیمت ہو گیا۔ اور ان کو جیسی کچھ امید تھی وہ زاویہء گمنامی میں پڑ گئی۔ بے شک تم نے انہی کی زبان میں ان کو سمجھایا۔ اب نائی۔ درزی۔ گاد وغیرہ وغیرہ اپنی اپنی زبان میں مطلب سمجھ گئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم اس میدان میں کامیاب ہو کے رہو گے۔ کیونکہ تم بھی میری طرح مستقل مزاج اور بردبار ہو۔ یہی علامت کامیابی کے ہے۔ اور یہی بات مجھ میں تھی جس سے میں اپنے ارادے میں کامیاب ہوا۔ گھر سے نکلتے ہیں حرامی حلالی سے کام پڑا۔ جب میرے چاروں بھائی گل بکاؤلی کی تلاش میں نکلےہیں تو میں بھی خدا کا نام لےکر اور اپنی زر قسمت کو محک امتحان پر کسنے کے لئے چل کھڑا ہوا۔ جس طرح تمہارے راستے میں سجادی ملی ہے مجھ کو بھی لکھا بیسوا سے امن کرنا پڑا تھا۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ وہی بیسوا لکھا بیسوا ہے۔ تمام حرکات و سکنات اس سے ملتے ہیں۔ چاروں بھائی تو میرے غلام بن چکے تھے۔ میں سردار سعید کی خدمت میں فیضیاب ہوا جس طرح تم منشی کی سرپرستی میں ہو پہلے تو لکھا بیسوا کا حال دریافت کیا۔ چوہے بلی کا قصہ سنا۔ چوسر کا حال معلوم کیا۔ اس کے ہتھکنڈے چالبازیاں سیکھیں۔ نیولا پالا۔ چوسر کھیلی۔ وہ بازی ہار گئی۔ یہاں تک تو میرا تمہارا قصہ قریب قریب ہے۔

پھر وہاں سے میں نے فقیری ٹھاٹھ اختیار کیا۔ اور گوہر مقصود کی تلاش میں صحرائے پر خار میں جا نکلا۔ جس کی تاریکی میں ہر گز دنا ور رات میں فرق نہیں معلوم ہتا تھا۔ سفیدی اور سیاہی میں کچھ بھی امتیاز نہ کیا جاتا تھا۔ اذدہے بھوکے منہ کھولے
پڑے تھےفارستان میں تمام جسم لہو لہان ہو گیا۔ سامنے ایک دیو پہاڑ سا بیٹھا نظر آنے لگا میں سمجھ یہ پہاڑ ہے۔ جیسے ہی میں نے قدم بڑھایا فوراً اس دراز قد نے سر اٹھایا۔ اور خوشی سے بولا خدا کی شانجس نے مجھے لقمۂ لذیذ بعد مدت کے دے دیا۔ غرض کہ ہزاروں تدبیروں اور سیکڑوں عقل آرائیوں سے اس کو بھی تابعدار کیا۔ اور آخر وہی باعث ہوا باغ گل بکاؤلی تک پہنچنے کا۔

میں دیکھتا ہوں تو تمہارے سیکڑوں بھتنے چمٹے ہوئے ہیں۔ اور ہزاروں چڑیلیں تم پر حملے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
-----------
صفحہ 44
-----------

کر رہیں ہیں ۔ اور کالےدیو۔ سفیددیو یہاں تک کہ بعض شیاطین تر نوالہ سمجھ کر بغلیں بجارہے ہیں۔ اور بجائے خؤد بہت خوش نظر آتے ہیں۔ مگر تم استقلال اور مردانگی کے ساتھ نظر بہ خدا رکھو۔ یہ سب آپ ہی آپ رفع ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمہارے دوستوں کو وہ
عملی فلیتہ یاد ہیں جس سے سیکڑوں بلائیں پناہ مانگتی ہیں۔ بڑے بڑے جن جلاکر خاک کر دیئے اور بہت سی چڑیلیں پھونک دیں۔تو یہ چند شیاطین کس شمار و قطار میں ہیں۔دو چار عمل تو تم نے ایسے کیے جن سے بہت سی بلائیں دفع ہو گئیں۔ جیسے سئیاں شہدے والا فلیتہ۔ سجادی والے خط کا نقش۔ غاد کی خرابی۔ غزل کی دھونی۔ اللہ اللہ ان کے صدمے سے اب تک بعض مردے دہائی دے رہے ہیں۔ اور بعض توبہ کر رہے ہیں۔ دہائی ہے مولانا ظریف کی۔ اب کبھی سجادی کے بہکانے سے پنچ کے صفوں میں قدم نہ رکھیں گے۔اور بعض جل کر خآک ہوگئے۔ ان کی راکھ برباد ہو گئی۔

سچ تو یہ ہے کہ تم سب مرحلے طے کرلائےاور اب منزل مقصود پر قدم رکھ کر کرس لمن الملک بجانے والے ہو۔ اور بہت جلد تمہارا تسخیر کا عمل کارگر ہو جائے گا۔ سارے بھتنے مسخر ہو جائیں گے۔اور اس باغ کی بکاؤلی کی شادی کا سہرا تمہارے سر باندھا جائے گا۔ اور بہت دھو م سے شادی ہو گی۔ اور سجادی لونڈی جہیز میں ملے گی۔ غالباً یہ پیش گوئی ہماری عنقریب پوری ہو جائے کیونکہ ہر مصیبت کے بعد راحت ہے۔

راقم ۔ تاج الملوک
 
Top