گلزار صاحب کی دو غزلوں سے متعلق مدد

مومن مخلص

محفلین
گلزار صاحب کی ایک نظم ہے مرزا غالب کے لئے جس کا نام کچھ اس طرح ہے "غالب بلّی مرن کے محلے میں"، کیا آپ میں سے کوئی پوری نظم جانتے ہیں؟

اور دوسرا ایک شعر کہ " میں سگریٹ تو نہیں پیتا لیکن ہر آنے والے سے پوچھ لیتا ہوں کہ ماچس ہے؟ بہت کچھ ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں"۔مہربانی کر کے مجھے کوئی اس شعر کی پوری غزل پیش کر دیجیے۔
 
گلزار صاحب کی ایک نظم ہے مرزا غالب کے لئے جس کا نام کچھ اس طرح ہے "غالب بلّی مرن کے محلے میں"، کیا آپ میں سے کوئی پوری نظم جانتے ہیں؟

اور دوسرا ایک شعر کہ " میں سگریٹ تو نہیں پیتا لیکن ہر آنے والے سے پوچھ لیتا ہوں کہ ماچس ہے؟ بہت کچھ ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں"۔مہربانی کر کے مجھے کوئی اس شعر کی پوری غزل پیش کر دیجیے۔
بھائی مومن مخلص صاحب۔ میرے پاس گ
گلزار صاحب کی ایک نظم ہے مرزا غالب کے لئے جس کا نام کچھ اس طرح ہے "غالب بلّی مرن کے محلے میں"، کیا آپ میں سے کوئی پوری نظم جانتے ہیں؟

اور دوسرا ایک شعر کہ " میں سگریٹ تو نہیں پیتا لیکن ہر آنے والے سے پوچھ لیتا ہوں کہ ماچس ہے؟ بہت کچھ ہے جسے میں پھونک دینا چاہتا ہوں"۔مہربانی کر کے مجھے کوئی اس شعر کی پوری غزل پیش کر دیجیے۔
بھائی مومن مخلص صاحب ۔ آپ کو درکار گلزار کی دو نظموں میں سے ایک میرے پاس ہے وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
غالب

بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
سامنے ٹال کی نُکڑ پہ بٹیروں کے قصیدے
چند دروازوں پہ لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے
اور دُھندلائی ہوئی شام کے بےنُور اندھیرے سائے
ایسے دیواروں سے منہ جوڑ کے چلتے ہیں یہاں
چُوڑی والان کے کٹرے کی بڑی بی جیسے
اپنی بُجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازے ٹٹولے

اِسی بےنُور اندھیری سی " گلی قاسم " سے
ایک ترتیب چراغوں کی شُروع ہوتی ہے
ایک قرآنِ سخن کا بھی ورق کُھلتا ہے
اسد اللہ خاں غالِب کا پتہ ملتا ہے

نظم کا عنوان : غالِب
شعری مجموعہ : " چاند پُکھراج کا " صفحہ نمبر : 152 شاعر : گُلزار ناشر : رُوپا اینڈ کمپنی ، انصاری روڈ، نئی دہلی ، انڈیا


 

فاتح

لائبریرین
گلزار بے چارے نے کوشش تو بہت کی لیکن کبھی با وزن شعر نہیں کہہ سکا۔۔۔ اس لیے ہم نے کبھی اس کی بے وزن "چیزوں" کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
 

الف عین

لائبریرین
گلزار بے چارے نے کوشش تو بہت کی لیکن کبھی با وزن شعر نہیں کہہ سکا۔۔۔ اس لیے ہم نے کبھی اس کی بے وزن "چیزوں" کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
متفق۔ لیکن پڑھنے کی زحمت ان کے خیالات کی وجہ سے کی جا سکتی ہے!!
ان کو ہندی کا شاعر ہی سمجھ لیں جیسا کہ یہاں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
متفق۔ لیکن پڑھنے کی زحمت ان کے خیالات کی وجہ سے کی جا سکتی ہے!!
ان کو ہندی کا شاعر ہی سمجھ لیں جیسا کہ یہاں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔
ہندی کے چھندوں کا مجھے بہت زیادہ تفصیل سے تو علم نہیں ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ گلزار جو "چیزیں" لکھتا ہے وہ چھند کے اصولوں کی بجائے عروض کے مطابق لکھنے کی کوشش کرتا ہے جس میں وہ ناکام ہی رہتا ہے۔
 
گلزار بے چارے نے کوشش تو بہت کی لیکن کبھی با وزن شعر نہیں کہہ سکا۔۔۔ اس لیے ہم نے کبھی اس کی بے وزن "چیزوں" کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
متفق۔ لیکن پڑھنے کی زحمت ان کے خیالات کی وجہ سے کی جا سکتی ہے!!
ان کو ہندی کا شاعر ہی سمجھ لیں جیسا کہ یہاں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔
ہندی کے چھندوں کا مجھے بہت زیادہ تفصیل سے تو علم نہیں ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ گلزار جو "چیزیں" لکھتا ہے وہ چھند کے اصولوں کی بجائے عروض کے مطابق لکھنے کی کوشش کرتا ہے جس میں وہ ناکام ہی رہتا ہے۔
گلزار صاحب کی شعرباوزن نہیں ہوتے یہ بات بڑی عجیب سی لگ رہی ہے کیونکہ اپنے محدود علم کے مطابق تو مجھے گلزار کے اشعار میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ میرا شعری علم اور ذوق بڑا محدود سا ہے اور مجھے یہ سچ قبول کرنے میں ذرا بھی تعامل نہیں کہ مجھے علمِ عروض کی الف بے کا بھی پتا نہیں۔ اردو محفل میں جب مختلف بحور پر گفتگو ہوتی ہے تو وہ میرے سر پر سے گزر جاتی ہے بلکہ اکشر تو میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہوں مگر پھر اقبال عظیم صاحب کی بات یاد کرکے تھوڑی ڈھارس بندھتی ہے کہ " شاعری کے لئے عروض سے معمولی واقفیت کافی ہوتی ہے اور اصل چیز شعر گوئی کی صلاحیت ہے۔" اقبال عظیم صاحب اچھے شاعر بھی تھے اور بہت طویل عرصے تک عروض پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ جہاں تک وزن کا تعلق ہے میں اس میں عام طور پر غلطی نہیں کرتا اور اسے سمجھتا بھی ہوں کیونکہ یہ چیز والد صاحب سے ورثے میں ملی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ تو بلٹ ان ہے۔ اسی حوالے سے مجھے تو گلزار کے اشعار میں بےوزنی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اپنے محدود شعری علم کے باعث اسے سمجھ نہیں سکتا۔ بہر حال میرے نقطہ نظر کے مطابق تو گلزار کے اشعار میں وزن ہوتا ہے ۔ جہاں تک خیالات کی بات ہے وہ اتنے اچھوتے اور دل کو چھو لینے والے ہوتے ہیں کہ دل سے بے اختیار واہ نکل جاتی ہے۔ گلزار ہندی کے نہیں بلک اردو کے شاعر ہیں۔ اردو کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اور اپنی شاعری میں ہندی پنگل نہیں بلکہ اردو عروض استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اردو سے محبت کرتے ہیں۔اردو سے محبت کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی فلم " نمکین " میں وہ وحیدہ رحمٰن کی زبان سے لفظ " لفظ " ادا کرواتے ہیں۔ بیٹی پوچھتی ہے " ماں لفظ کیا ؟" وحیدہ رحمٰن کہتی ہے " شبد " پھر ایک آہ بھر کر کہتی ہے " سب کچھ بدل گیا۔ نہ وہ تہذیب رہی نہ وہ زبان رہی۔" اسی طرح فلم " دل سے " میں ایک گیت لکھا " چل چھیاں چھیاں" جو شاہ رخ خان پر فلمایا گیا۔ اس گیت میں کہتے ہیں " ہو یار مرا خوشبو کی طرح۔ ہو جس کی زباں اردو کی طرح۔" ایک مرتبہ حیدر آباد دکن ایک فنکشن میں گئے۔ حیدر آباد دکن ایک زمانے میں اردو کا مرکز رہا ہے۔ وہاں مجمع میں انہوں نے بڑے جذبے سے پڑھا " ہو یار مرا خوشبو کی طرح۔ ہو جس کی زباں اردو طرح۔" مگر ظاہر ہے وقت بدل گیا ۔ اب وہاں کے لوگ ہندی کے حامی ہو گئے اس لئے مجمع نے اردو کے بارے میں جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کیا جس پر ان کو بڑی مایوسی ہوئی۔ اب میں ان کا کچھ کلام پیش کرتا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان کے کلام میں وزن ہے یا نہیں۔
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

شام کے سائے بالشتوں میں ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
اُن کو شاید عمر لگے گی آنے میں
--------------------

جب بھی آنکھوں میں اشک بھر آئے
لوگ کچھ ڈوبتے نظر آئے

اپنا محور بدل چکی تھی زمیں
ہم خلا سے جو لوٹ کر آئے

چاند جتنے بھی گم ہوئے شب کے
سب کے الزام میرے سر آئے

چند لمحے جو لوٹ کر آئے
رات کے آخری پہر آئے

ایک گولی گئی تھی سوئے فلک
اک پرندے کے بال و پر آئے
------------------------

ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا
ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا

ایک سناٹا دبےپاوں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا

بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطہ کھانے
نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا

میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا

کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے، نہ پتہ جانے کا
---------------------
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

جس کی آواز میں سلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے

لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے

جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے

شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لئے دل نہیں تھوڑا کرتے

جاکے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو
خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے
-----------------------
 

الف عین

لائبریرین
ہندی غزلیں ہندی پنگل پر منحصر نہیں ہوتیں۔ بلکہ ہندی کا شای ہی کوئی شاعر ہو جو لفظ پنگل سے آشنا ہو، یہ سب سور داس، تلسی داس کے زمانے میں تھا۔ ہندی غزلوں کا بھی اردو عروض سے ہی تعلق ہوتا ہے، لیکن وہ بھی صوتی قافئے استعمال کرتے ہیں۔ اور غلط حروف کا اسقاط کر دیتے ہیں۔ (جیسے ہ، ح،)۔ یہی عمل کہیں کہیں گلزار بھی کر جاتے ہیں۔
 

سازندہ

محفلین
جناب میں نہ تو ادیب ہو نہ شاعر نہ لکھاری
اورکسی بھی لکھنے والے کا اصل نقاد یعنی اسکو پسند کرے یا ناپسند کرے وہ عام قاری ہی ہوتا ہے
تو کہاں جن صاب نے گلزار صاب کی شاعری کے وزن پر اعتراض اٹھایا ہے انکے لئے فقط اتنا عرض کر دو، کہ ہو سکتا ہے اصناف شعر یا غزل میں قافیہ یا ردیف ، بحر یا جو بھی شاعری کی بنیادی ضروریات ہیں، ادب کی دنیا میں گلزار صاب ان میں سے کسی معیار پر پورا نہ اترتے ہوں
لیکن، بحثیت ایک عام پڑھنے والے یا سننے والے ، آ پکے نام سے بھی میں واقف نہیں، اور نہ ہی شائد کوئی آ پکو جانتا ہو، لیکن اس صفحہ پر میری وجودگی، مجھے غالب کی سالگرہ 27 دسمبر کے حوالے سے ایک تحریر میں گلزار صاب کی لکھی غالب کی گوگل سرچ یہاں لے آ ئے۔ اگر مگر ، ادھر ادھر، چونکہ چنانچہ ، کی بحث میں الجھے بنا ، الفاظ، پیغام، پیغام میں چھپی محبت اور خلوص، سمیت تشبیہات ، یہ سب ملا کر آ پ جیسے دو اور بھی مل جائیں تو شائد گلزار صاب کی دھول کو کہ پکڑ پائیں۔ معزرت چاہتا ہو۔، ایک ادبی صفحے پر ، کسی کے فن کہ اسقدر بے توقیری ، اور ناقدری پہلے کبھی نہ دیکھی۔ ؟ آپ انکے لکھے پر تبصرے کریں، اس پر تنقید کریں، شاعری کی اصناف پر پرکھ کر انکو نظم، نثر غزل کی بنیاد پر رد کریں، لیکن کیا بات ہوئی، انکی شاعری میں وزن نہیں ، اسلئے کبھی توجہ ہی نہ دی۔ اس میں حسد کی بو آ رہی ہے
 

ضیاء حیدری

محفلین
کھول دیں زنجیرِ در اور حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہہ پہر ہونے کو ہے
(پروین شاکر کے اس شعر کی تشریح کوئی صاحب کردیں، مہربانی ہوگی
 
Top