باذوق
محفلین
اردو شعر و ادب کو وقت کی چلچلاتی دھوپ میں چھوڑ کر احمد فراز کے بعد ایک اور تناور درخت رخصت ہوا۔
[arabic]انا لله وانا اليه راجعون[/arabic]
[arabic]كل من عليها فان[/arabic]
کل یہ دنیا جہاں ہے فانی
اب فقط رب کی ذات لافانی
کیوں نہ ٹپکے پلک سے اب شبنم
چھوڑ کر چل دئے ہیں رومانی
(محسن علوی)
دسمبر 1920ء میں ہندوستان کے مشہور اور مردم خیز شہر "شاہجہاں پور" میں پیدا ہونے والے معروف اور صاحب طرز ادیب و شاعر شبنم رومانی ، اسی (80) برس کی عمر میں کراچی میں 17-فبروری-2009ء کو انتقال کر گئے۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے برسوں پہلے شبنم رومانی کی شاعری کے متعلق کچھ یوں کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔
سخنوری اور ہنروری جس حسن توازن کے ساتھ شبنم رومانی کی نظموں اور غزلوں میں پائی جاتی ہے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ غزل ہو یا نظم ، شبنم موضوع کی مناسبت سے الفاظ کو اتنے سلیقے سے سلکِ سخن میں پروتا ہے کہ بیشتر مقامات پر زبان اور بیان پر اس کا عبور "اعجاز" کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
آزاد نظموں کو مقبول بنانے میں بھی شبنم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ شبنم ، رومانی الفاظ کی خارجی اور داخلی موسیقی ہر کماحقہ حاوی ہے۔
دوسری تمام چیزوں پر مستزاد شبنم کی فکری توانائی بھی بےحد جاندار ہے جو زندگی کا اثبات کرتی ہے ، جبکہ شبنم کے یہاں موضوعات کا اتنا تنوع ہے کہ ان کی پوری زندگی متنوع ہوتی ہے۔ شبنم کی شاعری سچی اور اچھی شاعری تو ہے ہی دیانتدارانہ شاعری بھی ہے !
~~ منتخب اشعار ~~
ہنس رہا ہوں آج کل بیٹھا ہوا
دولتِ شبنم غریب ، اہلِ بہار کے قریب
کاغذوں کے اک بڑے انبار پر
درد کے کچھ محاورے ، حسن کی کچھ علامتیں
درد پیراہن بدلتا ہے یہ ہم پر اب کھلا
صرف لفظوں کی دھنک کو شاعری سمجھتے تھے ہم
میری باتیں مہکی مہکی جیسے میر کے نازک شعر
ان کی باتیں سوچی سمجھی جیسے غالب کا دیوان
چاہو ، پر حد سے زیادہ نہ کسی کو چاہو !
بدل گئے مرے چہرے کے خوشگوار نقوش
غلطی کی تھی سو دشمن مرے احباب ہوئے
سمجھ رہا تھا تری آرزو کو میں آسان
اب کے بارش ایک ساتھی دے گی
ایک چہرہ بن گیا دیوار پر
[arabic]انا لله وانا اليه راجعون[/arabic]
[arabic]كل من عليها فان[/arabic]
کل یہ دنیا جہاں ہے فانی
اب فقط رب کی ذات لافانی
کیوں نہ ٹپکے پلک سے اب شبنم
چھوڑ کر چل دئے ہیں رومانی
(محسن علوی)
دسمبر 1920ء میں ہندوستان کے مشہور اور مردم خیز شہر "شاہجہاں پور" میں پیدا ہونے والے معروف اور صاحب طرز ادیب و شاعر شبنم رومانی ، اسی (80) برس کی عمر میں کراچی میں 17-فبروری-2009ء کو انتقال کر گئے۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے برسوں پہلے شبنم رومانی کی شاعری کے متعلق کچھ یوں کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔
سخنوری اور ہنروری جس حسن توازن کے ساتھ شبنم رومانی کی نظموں اور غزلوں میں پائی جاتی ہے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ غزل ہو یا نظم ، شبنم موضوع کی مناسبت سے الفاظ کو اتنے سلیقے سے سلکِ سخن میں پروتا ہے کہ بیشتر مقامات پر زبان اور بیان پر اس کا عبور "اعجاز" کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
آزاد نظموں کو مقبول بنانے میں بھی شبنم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ شبنم ، رومانی الفاظ کی خارجی اور داخلی موسیقی ہر کماحقہ حاوی ہے۔
دوسری تمام چیزوں پر مستزاد شبنم کی فکری توانائی بھی بےحد جاندار ہے جو زندگی کا اثبات کرتی ہے ، جبکہ شبنم کے یہاں موضوعات کا اتنا تنوع ہے کہ ان کی پوری زندگی متنوع ہوتی ہے۔ شبنم کی شاعری سچی اور اچھی شاعری تو ہے ہی دیانتدارانہ شاعری بھی ہے !
~~ منتخب اشعار ~~
ہنس رہا ہوں آج کل بیٹھا ہوا
دولتِ شبنم غریب ، اہلِ بہار کے قریب
کاغذوں کے اک بڑے انبار پر
درد کے کچھ محاورے ، حسن کی کچھ علامتیں
درد پیراہن بدلتا ہے یہ ہم پر اب کھلا
صرف لفظوں کی دھنک کو شاعری سمجھتے تھے ہم
میری باتیں مہکی مہکی جیسے میر کے نازک شعر
ان کی باتیں سوچی سمجھی جیسے غالب کا دیوان
چاہو ، پر حد سے زیادہ نہ کسی کو چاہو !
بدل گئے مرے چہرے کے خوشگوار نقوش
غلطی کی تھی سو دشمن مرے احباب ہوئے
سمجھ رہا تھا تری آرزو کو میں آسان
اب کے بارش ایک ساتھی دے گی
ایک چہرہ بن گیا دیوار پر