جناب ہم جیسے لوگ تشریف لے جایا کرتے ہیں کیونکہ میری بات دیوانے کی بڑ سے بڑھ کر نہیں اور رفو چکر تو منتظم اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوا کرتے ہیں کیونکہ اردو محفل کی جنتا کو ان سے بہت امیدیں بلکہ اُن کی کرشماتی شخصیت پر ایک مان ہوا کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ جب وہ نو دو گیارہ نہیں ہونگے تو پھر عوام ان کو ٹھنڈے پیٹوں تشریف کیسے لے جانے دی گی۔
جناب مباحثے کا آغاز تو آپ نے یہ کہہ کر شروع کیا ہے
تو جس چیز کو "نایاب" سمجھا جاتا ہے اس کے روابط دیکھیے گا:
قدیم فارسی شاعروں کا مکمل کلام (مع منطق الطیر از عطار و گلشنِ راز از شبستری و شاہنامہ از فردوسی)۔ بلکہ کیا کیا لکھوں
پہلی بات تو یہ کہ ہم نے نایاب نہیں بلکہ کمیاب کہا ہے دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ اس میں قدیم فارسی شعرا کا مکمل کلام ہے ہم نے فورا آپ کی بات پر لبیک کہتے ہوئے فخرالدین عراقی کی مشہور زمانہ غزل جس کا اہل علم میں ایک نام اور ایک مقام ہے کی تلاش شروع کی لیکن افسوس وہ نہ مل سکی۔
نخستین بادہ کاندر جام کردن
ز چشم مست ساقی وام کردند
جس کا مقطع کچھ اس طرح ہے
تو خود کردن راز خویشتن فاش
عراقی را چرا بدنام کردن
معلوم نہیں آپ نے کیسے کہہ دیا کہ اس میں تمام قدیم شعرا کا مکمل کلام موجود ہے۔
ایک اور غزل کی بہت تلاش کی لیکن نہ مل سکی
صنما رہ قلندر سزاوار بمن نمائی
کہ دراز دور دیدم رہ رسم و پارسائی
نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاکت تیغت
سر دوستان سلامت کہ تو خنجر آزمائی
بہ زمین چو سجدہ کردم ز زمین ندا بر آمد
تو مرا خراب کردی تو بہ سجدہ ریائی
آپ نے غالب کا ایک شعر لکھا ہے ہم پوری غزل نقل کردیتے ہیں(ایک درخواست ہے کہ ادھر بہت سارے میری طرح کے کم علم لوگ آتے ہیں تو وہ نہیں سمجھ پاتے کہ آپ قبلہ و کعبہ کس کو کہہ رہے ہیں اگر چہ آپ غالب کو کہہ رہے ہیں لیکن نام لکھنا احسن ہوتا ہے۔)
لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرہ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
فنا تعلیمِ درسِ بے خودی ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مہرِ عنواں پر
مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلود یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش پرستی تھی گلِستاں پر
بجُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر
نہ لڑ ناصح سے، غالب، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
آپ کے اس شعر کے جواب صرف اتنا ہی کہوں گا
اگر چہ قطرہ شبنم نہ پائید برسر خارے
منم آن قطرہ شبنم بہ نوک خار می رقصم
جناب آپ تو محسوس کرگئے ہیں آپ نے ہی ہلکی ہلکی چھیڑ چھاڑ کا آغاز کیا ہے حضور والا اگر ناراض ہوتے ہیں تو ہم ادبا خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ روحانی اور وارثی دنگل سے سیلاب آجائے گا تو چونکہ سیلاب ہمارے علاقے سے تو ایسے بھی تاریخ ساز تباہی و بربادی مچاتا ہوا نکل چکا ہے لیکن ڈر ہے کہ کہیں شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی قوم کے کوٹ سیال شریف کا رخ نہ کرلے
اسی لیئے روحانی وارثی دنگل کو ادھر ہی اختتام پذیر کرتے ہیں آپ جیتے ہم ہارے۔
بقول شاعر
جیت جانے میں کبر کا ڈر تھا
مات کھانے کے بعد یاد آیا