گلگت بلتستان پاکستان کا ہائیڈل بجلی گھر

الف نظامی

لائبریرین
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے انسٹرومینٹل لینڈنگ سسٹم کی اجازت دیدی ہے جس سے تمام موسموں میں لینڈنگ بارہ مہینے ہوسکے گی۔ یہی نہیں بلکہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر کھٹمنڈو سے گلگت اور کاشغر سے سکردو ایئرپورٹ پر جہاز آجا سکیں گے۔ ان دو فلائٹوں سے ٹورازم کو زبردست فروغ ملے گا کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماونٹ ایورسٹ کے لئے کھٹمنڈو (نیپال) کا ایئرپورٹ استعمال ہوتا ہے اور سکردو میں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو سمیت ایک درجن انتہائی بلند چوٹیاں ہیں۔ درحقیقت ٹورازم سے سرمایہ کاری اور بزنس کوزبردست فروغ ملتا ہے۔
بزنس مین پینل کے چیئرمین اور سارک چیمبر آف کامرس کے نائب صدر افتخار علی ملک نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا ”اس وقت پنجاب کی انڈسٹری اورتجارت کے لئے بجلی اور گیس دو بڑے مسائل ہیں۔ “وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ سے تفصیلی گفتگو میں انکشاف ہوا کہ تھوڑی سی سرمایہ کاری اور محنت سے گلگت اور بلتستان پاکستان کا ہائیڈل بجلی گھر بن سکتا ہے اور اس ذریعہ میں بہت کم سرمایہ کاری سے جو بجلی پیدا ہوگی اس کی قیمت ایک سے دو روپے فی یونٹ ہوگی جس سے تیل سے چلنے والے مہنگے بجلی گھروں پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بھی بچ سکے گا۔ صرف ایک روز پہلے چترال میں گرم چشمہ کے مقام پر دو پن بجلی گھروں کا افتتاح ہوا ہے۔ دونوں سو سو کلو واٹ کے ہیں۔ آغا خاں رورل سپورٹ پروگرام نے ان کے لئے اسی فیصد سرمایہ فراہم کیا ہے جبکہ بیس فیصد مقامی طور پر مہیا کیا گیا ہے۔ ایک بجلی گھر پر لاگت ساڑھے تنتالیس لاکھ روپے آئے گی۔ اس لئے یہ وقت ہے کہ پنجاب بجلی میں خود کفیل ہونے کے لئے گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کرے اور حکومت اس میں آغا خاں رورل سپورٹ پروگرام کی طرح 80 فیصد سرمایہ فراہم کرے بیس فیصد پنجاب کے سرمایہ دارادا کریں گے۔ خوش قسمتی سے اب قانونی طور پر اجازت ہے کہ پنجاب وہاں بجلی پیدا کرکے نیشنل گرڈ کے ذریعہ سے پنجاب میں جہاں چاہے استعمال کرسکتا ہے اس لئے اتنی اچھی پیشکش سے سرمایہ داروں کو فائدہ اٹھا کر پنجاب کو بجلی میں خود کفیل کرنا چاہئے۔ گیس کی تقسیم بھی برابری پر کی جائے۔
 
Top