گلہ لکھوں میں اگر، تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق، سفینہ ہو آشنائی کا
مرے سجود کی دیر و حرم سے گزری قدر
رکھوں ہوں دعویٰ ترے در پہ جبہ سائی کا
کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں اک حرف
اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا
دکھاؤں گا زاہد اس آفت دیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
طلب نہ چرخ سے کرناں راحت اے سودا
پھرے ہے آپ یہ کاسہ لئے گدائی کا
لہو میں غرق، سفینہ ہو آشنائی کا
مرے سجود کی دیر و حرم سے گزری قدر
رکھوں ہوں دعویٰ ترے در پہ جبہ سائی کا
کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں اک حرف
اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا
دکھاؤں گا زاہد اس آفت دیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
طلب نہ چرخ سے کرناں راحت اے سودا
پھرے ہے آپ یہ کاسہ لئے گدائی کا