مغزل
محفلین
غزل
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتاہے
پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اس خوف سے وہ پوشاک نہیں ، بس خواب بدلتا رہتا ہے
چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی
آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے
غلام محمد قاصر
(بشکریہ: سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد)
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتاہے
پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اس خوف سے وہ پوشاک نہیں ، بس خواب بدلتا رہتا ہے
چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی
آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے
غلام محمد قاصر
(بشکریہ: سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد)