فرخ منظور
لائبریرین
گلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں
ہُوا ہے دل کو سُرورِ شراب برسوں میں
خُدا کرے کہ مزا اِنتظار کا نہ مِٹے
مِرے سوال کا وہ دیں جواب برسوں میں
بچیں گے حضرتِ زاہد کہیں بغیر پیے
ہمارے ہاتھ لگے ہیں جناب برسوں میں
حیا و شرم تمہاری گواہ ہے اِس کی
ہُوا ہے آج کوئی کامیاب برسوں میں
یہ ضُعفِ دل ہی کی خُوبی ہے بلکہ ہے احساں
کبھی ہُوا تو ہُوا اضطراب برسوں میں
شبِ وصال اُسےکیوں نہ شرم آجائے
جب آئینہ سے بھی ٹوٹے حِجاب برسوں میں
ہمارے بعد کچھ ایسا ہُوا مزاج اُن کا
کہ لطف روز ہے سب پر عتاب برسوں میں
نگاہِ مست سے اُس کی ہُوا یہ حال مِرا
کہ جیسے پی ہو کسی نے شراب برسوں میں
کہاں ہُوا ہے رُخِ یار قابلِ بوسہ
یہ دن دکھائے گا یہ آٖفتاب برسوں میں
نہ کیوں ہو ناز مجھے اپنے دل پہ اے ظالم
کِیا ہے تُو نے جسے انتخاب برسوں میں
وہ بولے دا غ کی صُورت کو ہم ترستے تھے
مِلا ہے آج یہ خانہ خراب برسوں میں
(حضرت داغ دہلوی)
(داغ دہلوی)