گل برہنہ ہے یہ پوشاک تری دلکش ہے

تیرے ہاتھوں میں ابھی جھوٹ کی مہندی نہ لگی
تیرے سینے میں جو موتی ہیں وہ کم سن ہیں ابھی
تیرے پیروں نے اداسی کو نہ جانا ہوگا
تیری پتلی سی یہ گردن بھی فسانا ہوگا
کیا خبر ہوگی ترے دل کو تری آنکھوں کی
تیرے رخسار کی ہونٹوں کی گھنے بالوں کی
گل برہنہ ہے یہ پوشاک تری دلکش ہے
اف یہ مٹی بھی ترے بوجھ پہ کیوں عش عش ہے
کتنے درویش ترے حق میں دعا کرتے ہیں
کتنے بد حال تجھے دیکھ کے جی بھرتے ہیں
اسامہ جمشید
جون 2018
راولپنڈی
 
Top