گل فروشوں نے گرارکھی ہے قیمت گل کی۔۔۔ اصلاح طلب

زنیرہ عقیل

محفلین
ہے یہ اک اور نئی سخت مصیبت گل کی
گل فروشوں نے گرارکھی ہے قیمت گل کی

توڑ لیتے ہیں وہ گل کو بری بے دردی سے
جن کے دل میں نہ رہی تھی کبھی الفت گل کی

گل جو مُرجھائے تو ہوتے ہیں پریشاں کچھ تو
کچھ تو کہتے ہیں کہ بس ہے یہی قسمت گل کی

دعویٰ کرتے ہیں سبھی گل کی محبت کا یہاں
نہیں معلوم مگر ان کو بھی حرمت گل کی

مسلے جانے پہ بھی گل خوشبو ہی دے لوگوں کو
اس سے اندازہ کرو کیا ہے وہ نزہت گل کی

گل کی فطرت چمن آرائی و زیبائی ہے
بخشش و جود و سخا اور عطا عادت گل کی

رونقِ بزم ِ محبت ہے یہ تعظیم کرو
جانے کیوں رکھتے ہو تم دل میں عداوت گل کی

زنیرہ گل
 
محترمہ زنیرہ صاحبہ، آداب!
اچھی کاوش ہے۔ خصوصاً مطلع بہت پسند آیا۔

توڑ لیتے ہیں وہ گل کو بری بے دردی سے
جن کے دل میں نہ رہی تھی کبھی الفت گل کی
الفاظ کو ذرا سا بدل کر دیکھیں کہ آیا بیان مزید بہتر ہوتا ہے یا نہیں؟ مثلاً
توڑ سکتے ہیں وہی گل کو یوں بے دردی سے
جن کے دل میں نہ رہی ہو کبھی الفت گل کی

گل جو مُرجھائے تو ہوتے ہیں پریشاں کچھ تو
کچھ تو کہتے ہیں کہ بس ہے یہی قسمت گل کی
کون پریشان ہوتا ہے، یہ واضح نہیں ہے جس کی وجہ سے بیان الجھاؤ کا شکار ہے۔

دعویٰ کرتے ہیں سبھی گل کی محبت کا یہاں
نہیں معلوم مگر ان کو بھی حرمت گل کی
یہ اندازہ کیسے ہوا کہ محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو گل کی حرمت کا اندازہ نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ شعر کچھ تشنۂ الفاظ محسوس ہوا۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں ’’بھی‘‘ مجھے بھرتی کا لگ رہا ہے۔
دعویٰ کرتے ہیں سبھی گل سے محبت کا، مگر
چاک بھی کرتے ہیں پھر چادرِ حرمت گل کی

مسلے جانے پہ بھی گل خوشبو ہی دے لوگوں کو
اس سے اندازہ کرو کیا ہے وہ نزہت گل کی
دونوں مصرعوں میں ’’گل‘‘ کی تکرار یہاں مناسب نہیں لگ رہی۔ اس کے علاوہ یہاں بھی دوسرے مصرعے میں ’’وہ‘‘ زائد ہے۔ مزید یہ کہ نزہت کا یہاں محل مجھے سمجھ نہیں آسکا۔
مسلے جانے پہ بھی خوشبو ہی فقط دیتا ہے
اس سے اندازہ کرو کیسی ہے نزہت گل کی
یا پھر!
نیست ہوکر بھی بدلتی نہیں فطرت گل کی!

گل کی فطرت چمن آرائی و زیبائی ہے
بخشش و جود و سخا اور عطا عادت گل کی
دوسرا مصرعہ مجھے بحر سے خارج محسوس ہوتا ہے۔ ’’سخا اور‘‘ کو ’’سخاور‘‘ پڑھنا پڑ رہا ہے، یا پھر ’’اور‘‘ کو اُر۔ پہلی صورت تو جائز ہی نہیں، جبکہ اور کو ار تقطیع کرنا، جبکہ روانی میں خلل واضح محسوس ہو، اچھا نہیں ہوتا۔ ویسے عطا کے عین کا وصال، بمثل الف اور کے ر کے ساتھ کردیا جائے یعنی ’’او رتا‘‘ تقطیع کیا جائے تو وزن پورا ہوجائے گا۔ ہمارے بہت ہی محترم جناب ظہیر احمد ظہیرؔ صاحب اس کے جواز کے قائل ہیں۔


رونقِ بزم ِ محبت ہے یہ تعظیم کرو
جانے کیوں رکھتے ہو تم دل میں عداوت گل کی
مقطع یوں تو درست ہے، تاہم اگر دوسرے مصرعے کی ردیف اگر آپ کے تخلص کا ترجمان ہے تو پہلے مصرعے میں یہ کی بجائے وہ سے اشارہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا شاید۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

زنیرہ عقیل

محفلین
محترمہ زنیرہ صاحبہ، آداب!
اچھی کاوش ہے۔ خصوصاً مطلع بہت پسند آیا۔


الفاظ کو ذرا سا بدل کر دیکھیں کہ آیا بیان مزید بہتر ہوتا ہے یا نہیں؟ مثلاً
توڑ سکتے ہیں وہی گل کو یوں بے دردی سے
جن کے دل میں نہ رہی ہو کبھی الفت گل کی


کون پریشان ہوتا ہے، یہ واضح نہیں ہے جس کی وجہ سے بیان الجھاؤ کا شکار ہے۔


یہ اندازہ کیسے ہوا کہ محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو گل کی حرمت کا اندازہ نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ شعر کچھ تشنۂ الفاظ محسوس ہوا۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں ’’بھی‘‘ مجھے بھرتی کا لگ رہا ہے۔
دعویٰ کرتے ہیں سبھی گل سے محبت کا، مگر
چاک بھی کرتے ہیں پھر چادرِ حرمت گل کی


دونوں مصرعوں میں ’’گل‘‘ کی تکرار یہاں مناسب نہیں لگ رہی۔ اس کے علاوہ یہاں بھی دوسرے مصرعے میں ’’وہ‘‘ زائد ہے۔ مزید یہ کہ نزہت کا یہاں محل مجھے سمجھ نہیں آسکا۔
مسلے جانے پہ بھی خوشبو ہی فقط دیتا ہے
اس سے اندازہ کرو کیسی ہے نزہت گل کی
یا پھر!
نیست ہوکر بھی بدلتی نہیں فطرت گل کی!


دوسرا مصرعہ مجھے بحر سے خارج محسوس ہوتا ہے۔ ’’سخا اور‘‘ کو ’’سخاور‘‘ پڑھنا پڑ رہا ہے، یا پھر ’’اور‘‘ کو اُر۔ پہلی صورت تو جائز ہی نہیں، جبکہ اور کو ار تقطیع کرنا، جبکہ روانی میں خلل واضح محسوس ہو، اچھا نہیں ہوتا۔ ویسے عطا کے عین کا وصال، بمثل الف اور کے ر کے ساتھ کردیا جائے یعنی ’’او رتا‘‘ تقطیع کیا جائے تو وزن پورا ہوجائے گا۔ ہمارے بہت ہی محترم جناب ظہیر احمد ظہیرؔ صاحب اس کے جواز کے قائل ہیں۔



مقطع یوں تو درست ہے، تاہم اگر دوسرے مصرعے کی ردیف اگر آپ کے تخلص کا ترجمان ہے تو پہلے مصرعے میں یہ کی بجائے وہ سے اشارہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا شاید۔

دعاگو،
راحلؔ۔

بہت بہت شکریہ محترم
اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین
آپ کی راہ نمائی میں کچھ ترامیم کے بعد دوبارہ حاضر ہے


ہے یہ اک اور نئی سخت مصیبت گُل کی
گُل فروشوں نے گرا رکھی ہے قیمت گُل کی
توڑ سکتے ہیں وہی گل کو یوں بیدردی سے
جن کے دل میں نہ رہی ہو کبھی الفت گل کی
گل جو مرجھائے تو ہوتے پریشاں کچھ لوگ
اور کچھ لوگ کہیں، تھی یہی قسمت گل کی
دعوٰی کرتے ہیں سبھی گل سے محبت کا مگر
چاک بھی کرتے ہیں پھر چادرِ حرمت گل کی
مسلے جانے پہ بھی خوشبو ہی فقط دیتا ہے
یعنی مٹ کر بھی بدلتی نہیں فطرت گل کی
گل کا ہے کام دل و جاں کو معطر کرنا
دیکھ فیاضی ، عطا اور سخاوت گل کی
رونق بزم ِ محبت ہے وہ تعظیم کرو
جانے کیوں رکھتے ہو تم دل میں عداوت گل کی

زنیرہ گُلؔ
 
Top