گل نرگس

جانے ابا کو ان پھولوں میں وہ حسن کیوں نئیں نظر آتا ۔ جو ان پھولوں کا خاصہ تھا۔۔۔
شاید ابا بوڑھا ہوگیا ہے۔ اور ورڈزورتھ جوان تھا۔ اس لیے مگر۔۔۔۔۔۔
جوان تو میں بھی ہوں۔ اور پھولوں کو دیکھتا بھی ہوں۔ مگر ادھرمیں ٹکٹکی باندھی ادھر ابے نے دھموکا جڑا۔۔۔۔
آج ہمیں تقریباََ 16 واں دن تھا اس جھیل پہ آتے ہوئے۔ ان سولہ دنوں میں ہمیں بس ایک مچھلی ملی اور وہ نحیف ونزار سی۔۔۔۔ شاید وہ بھی ہماری طرح کئی دنوں سے فاقے میں تھی۔اس لیے میں نے ابا کی نظر بچا کر اسے واپس پانی میں پھینک دیاکہ ایک غریب ہی غریب کی کیفیت کو سمجھ سکتا ہے۔کاش میں ورڈزورتھ کے دور میں ہوتا تو اس سے اچھی ڈیفوڈلز لکھتا۔۔۔ تب میں غریب نا ہوتا۔ کیونکہ تب غربت نہیں تھی۔۔۔
مگر نہیں شاید ۔۔۔۔۔۔ تب بھی بہت غربت تھی ۔ ہاں وہ مدرسے کے منشی نے، جو خود بھی افلاس کی جیتی جاگتی تصویر تھی، بتایا تو تھا کہ تب بھی زندگی مشکل تھی۔ مگر لکھنے والے ان مشکلات کو فوکس نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے ہی حال میں مست الست پڑے رہتے تھے۔۔۔۔۔۔
لو اب ابا نے پھر آواز دے دی ۔۔۔۔
اوئے افلاطون کے بچے کیا ہر وقت الا بلا سوچتا رہتا ہے۔۔۔؟ کبھی کام پہ بھی دھیان دے لیا کر۔۔۔۔۔
کچھ نئیں ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا تو یہ کام چھوڑ کیوں نئیں دیتا۔۔۔۔؟
(ایک عدد دھموکا)۔۔۔۔ دیکھ یہ ہمارا خاندانی کام ہے ہم نئیں چھوڑ سکتے۔۔۔۔ آئندہ ایسی بات کی نا تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔۔۔۔
میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ابا نرم پڑ گیا۔۔۔
اچھا بتا میں اور کیا کروں۔۔۔۔؟
ابا تو کہانیاں اور نظمیں کیوں نئیں لکھتا۔۔۔۔۔۔۔ ابا لکھا کر نا۔۔۔۔!
پتر چھوڑ یہ کوئی کام ہے؟ ان فضولیات سے پیٹ نئیں بھرتا۔۔۔۔
ابا۔۔۔۔۔
چھوڑ اب ان باتوں کو ۔۔۔
لو جی ابا نے پھر سے ہونٹوں پہ قفل جما لیا۔۔۔۔ خاموشی کا قفل۔۔۔۔۔
وہی خاموشی جو شاید ہر غریب کی ازل سے ساتھی ہے۔۔۔۔!
ایک اور بات بتاؤں۔۔۔۔۔؟
ابھی کل ہی میری اپنے دوست سے دھواں دھار قسم کی لڑائی ہوئی ہے۔۔۔۔ ہمارے مزاجوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کے باوجود ہم دوست ہیں کہ ہم میں واحد مشترک چیز غربت ہے۔۔۔ اور میں نے بتایا نا ایک غریب ہی دوسرے کے دل کا محرم ہوتا ہے۔
شاید وہ امیر ہوتا۔۔۔۔ تو وہ بھی سارتر، ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ کی باتیں کرتا، اپنے باپ کی پھٹی ہوئی قمیض کو چھوڑ کر جینز کی بات کرتا۔ جس گھر میں کافی پکتی اس میں رہائش رکھتا۔۔۔ ہاں وہ ایسا کر سکتا مگر تب پھر وہ میرا دوست نا ہوتا۔۔۔۔ ہماری دوستی کی واحد بنیاد غریبی تھی۔۔۔ ہماری ملاقاتوں میں وہی باتیں ہوتی جو ایک غریب کرتا ہے۔ اور غریب کی باتیں ہی کیا ہوتی ہیں ۔۔۔
وہی باپ کی دھوتی، کبھی کبھی ملنے والا سونٹھ کا قہوہ اور وہی اپنے احسان دانش وغیرہ۔۔ کسی بھی غریب کی باتیں اس محور سے نئیں نکلیں ۔۔۔۔ اور سارے امیر امیروں والی باتیں کرتے ہیں۔ اور شاید میں بھی کرتا اگر اس جھیل پہ ڈیفوڈلز کو انجوائے کرنے آتا۔۔۔۔۔
مگر میں تو اپنے ابا کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے آیا ہوں۔۔۔۔ اور روز کی طرح آج بھی ابا کو میرے کھو جانے پہ غصہ آرہا ہے۔ کیونکہ اسے ہر روز کی طرح آج بھی مچھلیاں ملنے کی امید ہے۔۔۔
مگر مجھے پتہ اس جھیل میں موجود بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا چکی ہیں۔۔۔۔
مگر میرے ابے کو کبھی بھی میری اس بات پہ یقین نئیں آیا۔۔۔۔بلکہ اسکا اپنے رب کے اس فرمان پہ پورا ایمان ہے لاتقنطو من رحمت اللہ۔۔۔۔
اور مجھے ابا کی یہی عادت اچھی لگتی ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہو جائیں وہ اپنے رب کی رحمت سے نا امید نئیں ہوتا۔۔۔۔!
 
Top