گمرہی

La Alma

لائبریرین
گمرہی

ریگزارِ خیال میں
شوریدہ حال پھروں
گمانِ غالب یہی تھا
کہ اب کےلوحِ ذہن پہ میں نے
سروشِ غیب کی پکار پر
جو تیرے مراتب لکھے تھے
وہ ہونگے دائمی، سرمدی
مگر جب صحرائے خیال میں
فکر کی ہلچل سے
یقین کے ٹیلوں سے ریت پھسلی
تو میں نے اسے نجانے کیوں
ترے وجود کے عدم ثبات سے قیاس کیا
اسی ندائے غیب کی سرزنش سے
قرطاسِ ذہن پہ بکھرے
اب وہ سارے وہم و گماں
تادیب کے لائق ٹھہرے ہیں
 

La Alma

لائبریرین
علم الیقین اور حق الیقین کے بیچ ایک لمبی مسافت ہوتی ہے جو عمومًا عمر کے فاصلے پر محیط ہوتی ہے .راستے میں کئی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان راہِ راست سے بھٹک بھی سکتا ہے .اس لیے کون جانتا ہے کہ وقت کے کس پڑاؤ پہ انسان اپنی اصل منزل سے دور ہو جائے لہٰذا یہ سفر تو زندگی کی آخری سانس تک جاری ہے..

نوائے غیب پھر کس کی پروردہ ہے . . . ؟
نوائے غیب اسی آواز کی بازگشت ہے جب انسان سے یوم الست پوچھا گیا تھا " أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ، جس کے جواب میں سب نے اقرار کیا تھا "بَلَى شَهِدْنَا " ، کیوں نہیں ، ہم گواہی دیتے ہیں .
نجانے کیوں کہہ کر جسٹیفائی کیا جا رہا ہے یا خود کو گنجائش دی جا رہی ہے ؟

اس سوال کا جواب نہایت ہی پچیدہ ہے . سارا کھیل ہی اس "نجانے کیوں " کا ہے جب اقرارِ ربوبیت انسان کے خمیر میں رکھ دیا گیا ہے تو پھر منکرینِ خدا کا تصور ہی ناپید ہونا چاہیے .لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے .
خود کو جسٹیفائی تو با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ اپنا سب کیا دھرا شیطان کے کھاتے میں ڈال دیا جائے .انسان ازلوں سے یہی تو کرتا آیا ہے .
 

فلک شیر

محفلین
علم الیقین اور حق الیقین کے بیچ ایک لمبی مسافت ہوتی ہے جو عمومًا عمر کے فاصلے پر محیط ہوتی ہے .راستے میں کئی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان راہِ راست سے بھٹک بھی سکتا ہے .اس لیے کون جانتا ہے کہ وقت کے کس پڑاؤ پہ انسان اپنی اصل منزل سے دور ہو جائے لہٰذا یہ سفر تو زندگی کی آخری سانس تک جاری ہے..


نوائے غیب اسی آواز کی بازگشت ہے جب انسان سے یوم الست پوچھا گیا تھا " أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ، جس کے جواب میں سب نے اقرار کیا تھا "بَلَى شَهِدْنَا " ، کیوں نہیں ، ہم گواہی دیتے ہیں .


اس سوال کا جواب نہایت ہی پچیدہ ہے . سارا کھیل ہی اس "نجانے کیوں " کا ہے جب اقرارِ ربوبیت انسان کے خمیر میں رکھ دیا گیا ہے تو پھر منکرینِ خدا کا تصور ہی ناپید ہونا چاہیے .لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے .
خود کو جسٹیفائی تو با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ اپنا سب کیا دھرا شیطان کے کھاتے میں ڈال دیا جائے .انسان ازلوں سے یہی تو کرتا آیا ہے .
متن سے متعلق اپنے خیالات کی وضاحت کے لیے شکریہ، گو کہ شاعر کو اس کے لیے مجبور کرنا کچھ بدذوقی سے معلوم ہوتی ہے ۔
 
Top