سید شہزاد ناصر
محفلین
12000 اور 9000 قبل مسیح میں یورپ کے مغرب میں تقریبا 750 میل کے فاصلے پر بحر اوقیانوس میں ڈیڑھ لاکھ مربع میل رقبے اور 2 کروڑ افراد پر مشتمل زندگی سے بھرپور ہنستا کھیلتا دنیا کا آٹھواں بر اعظم ‘‘ایٹلانٹس’’واقع تھا جو ایک آفاقی واقعہ کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے ایسا افسانوی رنگ دینے کی کوشش کی کہ الف لیلہ کی کتابوں کو بھی مات دے دی۔اس سلسلہ میں متعدد انگریزی فلمیں بھی بنائی جا چُکی ہیں۔ جس میں حقیقت کم اور تصورات زیادہ نظر آتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ کسی سیارے کی مخلوق کرہ ارض پر اُتری تو یہی بر اعظم اس کے ہتھے چڑھ گیا۔ زبردست جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں یہ بر اعظم جو سرخ و سفید رنگت کے خوبصورت نقش و نگار والے مرد و خواتین پر مشتل تھا اور سائنس و ٹیکنالوجی میں کافی ترقی یافتہ تھا ، صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔کسی نے بتایا کہ یہ بر اعظم سمندر کی عمیق گہرایوں میں مفقود ہے۔ اس میں بسنے والے انسان اس دور سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور یہ کہ ہماری کئی آبدازوں نے ان کے پراسرار جہازوں کو سمندر کے نیچے رواں دواں دیکھا ہے جس کے باسیوں نے لیزر بیم اور دیگر انجانے ہتھیاروں سے ہماری آبدوزوں پر حملہ کیا جن کی رہنمائی ان کے بنائے ہوئے سپر کمپیوٹرز اور مصنوعی انسان کر رہے تھے ۔سوال یہ ہے کہ زیر آب ترقی یافتہ مخلوق انسانی اوپر آ کر اپنے بہن بھائیوں سے مل کیوں نہیں جاتی اور ان سے جنگ و جدل پر کیوں آمادہ ہے؟کیا وہ ہمیں وہی آفاقی مخلوق تو تصور نہیں کرتی جو انکے ااباواجداد اور انکے
بر اعظمی کی تباہی کا سبب بنی تھی۔
آئیے افسانوی دنیا سے نکل کر جدید سائنسی تحقیقات اور تاریخ کے آئینے میں اس پراسرار بر اعظم کا مشاہدہ کریں اور اس کے پراسرار حالات سے پردہ اُٹھائیں جو ہمارے لیے صرف دلچسپ ہی نہیں قابل عبرت بھی ہیں۔ کیونکہ کرہ ارض کا کوئی اور بر اعظم بھی انہی حالات کا شکار ہو سکتا ہے۔ ۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن قدرت کا اپنا سزا و جزا کا نظام اپنی جگہ برقرار ہے۔
سب سے پہلے 350 قبل مسیح میں ‘‘پلیٹو’’ نامی ایک شخص نے بر اعظم ایٹلانٹس کے بارے میں لکھا کہ ایال نٹس نامی بر اعظم اس دنیا میں موجود تھا۔ اس کا مجموعی رقبہ 154000 مربع کلومیٹر اور آبادی تقربا 2 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔اس پر ایک شاندار حکومت قائم تھی۔ اس کو ایک پہاڑی سلسلہ اپنے حلقے میں لئے ہوئے تھا۔یہاں کے باشندوں کا عقیدہ تھا کہ یہاں کے سب سے بلند پہاڑ پر ان کا خدا مسکن پذیر ہے۔ جگہ جگہ پانی کے چشمے موجود تھے۔ جنگلوں میں ہاتھی اور دیگر نسلوں کے جانور دندناتے پھرتے تھے۔کھیتی باڑی اور نقل و حمل کے لیےنہروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ دالسلطنت کے گرد چار دیواری تھی جس پر کانسی چڑھا ہوا تھا۔ محلوں اور عبادت گاہوں پر سونا چمکتے نظر آتا تھا۔ ۔اُس دور میں نصف کرہ ارض پر ایٹلانٹس کی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ وہ بحیرہ روم کی ایک عظیم سلطنت پر حکومت کرتے تھے جو مصر اور اٹلی کی سرحدوں تک پہنچتی تھی۔ ابتدا میں اہل ایلا نٹس نے خود کو ایسی قوم کے طور پر پیش کیا جو اخوت اور اخلاقیات کو ہر چیز پر فوقیت دیتی تھی۔لیکن آگے چل کر ان لوگوں نے ان اعلیٰ اقدار کو بھلا دیا اور قوت اور مادی حصول نے انکو غلط راہ پر ڈال دیا اور وہ پوری دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ لیکن پھر یونانیوں کے ہاتھوں ان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور پھر صرف ایک دن اور ایک رات کے اندر اندر اس براعظم کو سمندر نے نگل لیا۔
‘‘پلیوا’’ کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کو من گھڑت کہانی کہہ کر رد کر دیا لیکن تاریخ دانوں اور رازوں کے شوقین حضرات نے اس پر تحقیق و تفتیش کا دروازہ کھلا رکھا۔ چناچہ اس موضوع پر اب تک دس ہزار سے زائد کتابیں لکھی جا چُکی ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ دلچسپ ‘‘ اوتو ہنرچ’’ کی تصنیف ‘‘دی سیکرٹس آف ایلا نٹک ’’ ہیں۔ اوٹو اعلیٰ درجے کا انجینر اور سائنس دان تھا۔اس کی یہ کتاب اس کی موت کے بعد 1976 میں جرمنی میں شائع ہوئی جو اُس وقت کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب شمار کی جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سے ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں تاہم وہ اس کو سنسنی خیز مقالہ ضرور قرار دیتے ہیں۔
اوٹو نے اپنی تصنیف میں جو حقائق پیش کیے اور جو سوالات اُٹھائے ، اُس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور محقق سنجیدگی سے ایلائنٹس کے وجود پر تحقیق کرنے میں مصروف ہو گئے۔اوٹو کا استدلال تھا کہ ایٹلانٹس کہاں غائب ہو گیا؟ اگر سمندر میں غرق ہو گیا تو اس کو سمندر کی تہہ میں تلاش کیوں نہیں کیا جاتاَ؟اوٹو کی زندگی میں تو اس سوال کا جواب نہ مل سکا۔ لیکن اوشنو گرافی نے ہمیں بحر اوقیانوس کی تہہ کی مکمل تصاویر فراہم کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بحر اوقیانوس کو 9000 فیٹ بلند ایک پہاڑی سلسلہ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس میں شمال میں آتش فشاں پہاڑ بھی ہیں اور ان پہاڑوں کی کُچھ چوٹیاں سمندر میں باہر کو نکلی ہوئی ہیں ۔جن کو ہم جزائر اوزورس کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ سمندر کے اندر اس سطح مرتفع کا سائز اور شکل 350 قبل مسیح کے مصنف ‘‘ پلیٹو’’ کے اُس بیان سے بالکل ملتی جُلتی ہیں جو اس نے ایٹلانٹس کے بارے میں بیان کیا تھا۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوب مشرقی ریاست کیرولینا کے ساحل پر گول اور بیضوی شکل کے 3000 سے زائد گڑھے نظر آتے ہیں۔ اور سب سے اہم چیز وہ تشکیل شدہ دیوار ہے جو ان عجیب و غریب گڑھوں کے جنوب مشرق میں پائی گئی۔ اس دیوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی انتہائی شدید جھٹکے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ لیکن کیرولینا کے عجیب و غریب گڑھے اُن دو عظیم گڑھو ں کے مقابل کُچھ بھی نہیں جو ساحل سے پرے واقع ہیں جن کو ‘‘پورٹیکو’’ کی خندقوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ خندقیں 30000 فیٹ گہری اور 277000 مربع میل کی وسعت پر محیط ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عظیم گڑھے اور دیگر عجیب و غریب گڑھے سطح سمندر سے نیچے کس طرح وقوع پذیر ہوئے۔350 قبل مسیح کے مصنف پلیٹو نے عظیم آتشزدگی کو اس دور کی مخلوق کی مکمل تباہی کا حوالہ بھی دیا ہے۔
اوٹو ہنرچ کا خیال ہے کہ اُس آتش زدگی کا ذمہ داو وہ چھوٹا سا محر ف سیارہ تھا جو سورج کے گرد خطرناک منحرف المرکز مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سیارہ آسمان سے ایک دیو قامت راکٹ کی مانند کرہ ارض پر حملہ آور ہوا ۔ زیر بحر گڑھوں کی پیمائش کو مد نظر رکھتے ہوئے اُس سیارے کا قطر چھ میل کہا جاتا ہے۔
جب یہ سیارہ کرہ ارض سے 250 میل کی بلندی تک رہ گیا تو اس نے جلتی ہوئی ہائیڈروجن گیس کے شعلے خارج کرنا شروع کر دیے۔ اس کے پیچھے بیس یا تیس میل لمبی جلتی ہوئی گیسوں کی دُم شعلہ فشاں تھی۔ دو منٹ کے اندر اندر یہ سیارہ ہماری فضا کے سب سے ضخیم حصہ میں داخل ہو گیا اور پھٹ گیا۔ اس کے دو دیوقامت حصے جو کروڑوں ٹن وزنی تھی وہ پورٹیکو کے سمندر میں جا گرے جن سے موجودہ پورٹیکو کی خندقیں وجود میں آئیں۔ چھوٹے ٹکڑے کیرولینا میں جا کرے جو 3000 سے زائد گڑھوں کا سبب بنے ۔ اس سیارے کے دو اور بڑے ٹکڑے اس سلسلہ کوہ پر جا گرے جو بحر اوقیانوس کے وسط مین واقع ہے اور سطح زمین کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ انیع کی وجہ سے اس سلسلہ کوہ میں موجود تمام آتش فشاں پھٹ پڑے اور زلزلوں نے اس علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اُس دور کا خوبصورت بر اعطم ایٹلانٹس جو اسی علاقے میں واقع تھا اس خوفناک ترین حادثے کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس کی تمام عمارات پتھروں کا ڈھیر بن گئیں۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ ہر جانب قیامت کا سماں تھا۔ زمین نے نیچے گہرائیوں سے سُرخ گرم لاوا اُبل پڑا جو بحر اوقیانوس کی سطح پر بکھر گیا۔جس نے پانی کو اتنا گرم کر دیا کہ اس کے باعث سطح سمندر سے بیحد گرم بھاپ نہایت تیز رفتاری سے فضا کی جانب روانہ ہو گئی۔ ۔ تیز آندھیوں کے طوفان جن کے اپور سفید بادلوں جیسی چھتری تھی، فضا میں 15 کلومیٹر تک بلند ہو گئے، اس علاقے پر دھول اور گرم بھاپ کے ایسے عیم بادل چھا گئے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی
ایٹلانٹس کو سمندر نے نگل لیا: زمین نے نیچے سے اوپر خارج ہونے والے لاوہ کی بنا پر جو زیر زمین دباو پیدا ہوا اس کی وجہ سے ایٹلانٹس نیچے دھنسنا شروع ہو گیا۔ اوٹو ہنرچ کے تخمینے مطابق پورا بر اعظم ایٹلانٹس صرف 24 گھنٹوں میں سمندر کی تہہ میں روپوش ہو گیا۔ اور صرف پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیاں سطح آب سے باہر رہ گئیں۔ جن کو ہم جزائر اوزورس سے موسوم کرتے ہیں۔ اس طرح 350 قبل مسیح کے مصنف پلیٹو کے مطابق بر اعظم ایٹلانٹس صرف ایک دہشت ناک دن اور ایک دہشت ناک رات میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
اس سیارے کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔ تمام بر اعظموں میں زلزلے رونما ہوئے۔ جنوبی امریکہ کا شمال مشرقی کونا بحر اوقیانوس کی طرف جھک گیا اور شمال مغربی کونا اوپر اُٹھ گیا۔ اس آفاقی حادثے کے نتیجے میں فضا میں ایک زبردست سیاہ بادل جو زہریلی گیسوں سے بھرا ہوا تھا، ہوا کے ساتھ پھسلتا ہوا، کرہ ارض کے جس جس حصے سے گزرتا گیا ،وہاں کو نیست و نابود کرتا گیا۔ اس عظیم خوفناک سیاہ بادل کے ثبوت میں اوٹو ہنرچ سائبیرا کی مثال پیش کرتا ہے جہاں اُس زمانے میں برف نہیں تھی۔ وہاں ڈائنو سارز جیسے عظیم الجثہ جانوروں کا بسیرا تھا۔ وہ سب آنا فانا اس کی گرفت میں آ کر ہلاک ہو گئے۔
اس عظیم حادثہ کی بنا پر کرہ ارض اپنے گردشی مدار میں ڈگمگا گیا۔ جس کی بنا پر قطب شمالی ایک جانب جھک گیا ، موسم میں یک لخت تبدیلی آ گئی اور سائبیریا برف سے ڈھک گیا۔
اوٹو ہنرچ اس سلسلے میں مزید دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان خوفناک بادلوں میں کئی مکعب میل پانی بھی موجود تھا جو اُن عظیم سیلابوں کا موجب بنا جس کا ذکر بائیبل میں موجود ہے (غالبا طوفان نوح کا تذکرہ ہے)
350 قبل مسیح کی عظیم شخصیت پلیٹو نے اس حادثے کی بنا پر کیچڑ کے ایک سمندر کا تذکرہ کیا ہے جس کی بنا پر طویل عرصہ تک آبنائے جبرالڑ سے پرے جہاز رانی نا ممکن ہو گئی تھی۔ سیارے سے ٹکرانے کے باعث تباہی اس قدر شدید تھی کہ لوگ ایٹلانٹس کو بھلا بیٹھے ۔اوٹو ہنرچ کے تخمینے کے مطابق بنی نوع انسان کو اس حادثے سے سنبھلنے میں لگ بھگ تین ہزار سال لگے۔اس طویل مدت تک شمالی یورپ کے اوپر آتش فشانی راکھ کا ایک بہت بڑا سیاہ بادل چھایا رہا۔ وہ لوگ جو سیلاب وغیرہ سے بچ گئے تھےاس سیاہ بادل کے نیچے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ وہ آفتاب کو مدھم سُرخ رنگ میں ہی دیکھ سکتے تھے۔
400 قبل مسیح کے لگ بھگ جب انسان نے اپنی تہذیب کا دوبارہ آغاز کیا تو ایٹلانٹس اس کے لیے محض نام کے علاوہ کُچھ اور نہ تھا۔ زندگی سے بھرپور، میٹھے چشموں اور باغات سے لبریز، ہنستے کھیلتے خوبصورت چہروں سے آراستہ بحر اوقیا نوس کا یہ جگمگاتا ہیرا ‘‘ایٹلانٹس’’کہاں غائب ہو گیا ؟ کیا واقعی وہ بحر اوقیانوس کی تہہ میں محو خواب ہے؟
سو رہا ہے بحر کی آغوش میں
وہ جسے ایٹلانٹس کہتے تھے ہم
بر اعظمی کی تباہی کا سبب بنی تھی۔
آئیے افسانوی دنیا سے نکل کر جدید سائنسی تحقیقات اور تاریخ کے آئینے میں اس پراسرار بر اعظم کا مشاہدہ کریں اور اس کے پراسرار حالات سے پردہ اُٹھائیں جو ہمارے لیے صرف دلچسپ ہی نہیں قابل عبرت بھی ہیں۔ کیونکہ کرہ ارض کا کوئی اور بر اعظم بھی انہی حالات کا شکار ہو سکتا ہے۔ ۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن قدرت کا اپنا سزا و جزا کا نظام اپنی جگہ برقرار ہے۔
سب سے پہلے 350 قبل مسیح میں ‘‘پلیٹو’’ نامی ایک شخص نے بر اعظم ایٹلانٹس کے بارے میں لکھا کہ ایال نٹس نامی بر اعظم اس دنیا میں موجود تھا۔ اس کا مجموعی رقبہ 154000 مربع کلومیٹر اور آبادی تقربا 2 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔اس پر ایک شاندار حکومت قائم تھی۔ اس کو ایک پہاڑی سلسلہ اپنے حلقے میں لئے ہوئے تھا۔یہاں کے باشندوں کا عقیدہ تھا کہ یہاں کے سب سے بلند پہاڑ پر ان کا خدا مسکن پذیر ہے۔ جگہ جگہ پانی کے چشمے موجود تھے۔ جنگلوں میں ہاتھی اور دیگر نسلوں کے جانور دندناتے پھرتے تھے۔کھیتی باڑی اور نقل و حمل کے لیےنہروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ دالسلطنت کے گرد چار دیواری تھی جس پر کانسی چڑھا ہوا تھا۔ محلوں اور عبادت گاہوں پر سونا چمکتے نظر آتا تھا۔ ۔اُس دور میں نصف کرہ ارض پر ایٹلانٹس کی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ وہ بحیرہ روم کی ایک عظیم سلطنت پر حکومت کرتے تھے جو مصر اور اٹلی کی سرحدوں تک پہنچتی تھی۔ ابتدا میں اہل ایلا نٹس نے خود کو ایسی قوم کے طور پر پیش کیا جو اخوت اور اخلاقیات کو ہر چیز پر فوقیت دیتی تھی۔لیکن آگے چل کر ان لوگوں نے ان اعلیٰ اقدار کو بھلا دیا اور قوت اور مادی حصول نے انکو غلط راہ پر ڈال دیا اور وہ پوری دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ لیکن پھر یونانیوں کے ہاتھوں ان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور پھر صرف ایک دن اور ایک رات کے اندر اندر اس براعظم کو سمندر نے نگل لیا۔
‘‘پلیوا’’ کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کو من گھڑت کہانی کہہ کر رد کر دیا لیکن تاریخ دانوں اور رازوں کے شوقین حضرات نے اس پر تحقیق و تفتیش کا دروازہ کھلا رکھا۔ چناچہ اس موضوع پر اب تک دس ہزار سے زائد کتابیں لکھی جا چُکی ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ دلچسپ ‘‘ اوتو ہنرچ’’ کی تصنیف ‘‘دی سیکرٹس آف ایلا نٹک ’’ ہیں۔ اوٹو اعلیٰ درجے کا انجینر اور سائنس دان تھا۔اس کی یہ کتاب اس کی موت کے بعد 1976 میں جرمنی میں شائع ہوئی جو اُس وقت کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب شمار کی جاتی ہے۔ اگرچہ بہت سے ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں تاہم وہ اس کو سنسنی خیز مقالہ ضرور قرار دیتے ہیں۔
اوٹو نے اپنی تصنیف میں جو حقائق پیش کیے اور جو سوالات اُٹھائے ، اُس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور محقق سنجیدگی سے ایلائنٹس کے وجود پر تحقیق کرنے میں مصروف ہو گئے۔اوٹو کا استدلال تھا کہ ایٹلانٹس کہاں غائب ہو گیا؟ اگر سمندر میں غرق ہو گیا تو اس کو سمندر کی تہہ میں تلاش کیوں نہیں کیا جاتاَ؟اوٹو کی زندگی میں تو اس سوال کا جواب نہ مل سکا۔ لیکن اوشنو گرافی نے ہمیں بحر اوقیانوس کی تہہ کی مکمل تصاویر فراہم کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بحر اوقیانوس کو 9000 فیٹ بلند ایک پہاڑی سلسلہ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس میں شمال میں آتش فشاں پہاڑ بھی ہیں اور ان پہاڑوں کی کُچھ چوٹیاں سمندر میں باہر کو نکلی ہوئی ہیں ۔جن کو ہم جزائر اوزورس کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ سمندر کے اندر اس سطح مرتفع کا سائز اور شکل 350 قبل مسیح کے مصنف ‘‘ پلیٹو’’ کے اُس بیان سے بالکل ملتی جُلتی ہیں جو اس نے ایٹلانٹس کے بارے میں بیان کیا تھا۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوب مشرقی ریاست کیرولینا کے ساحل پر گول اور بیضوی شکل کے 3000 سے زائد گڑھے نظر آتے ہیں۔ اور سب سے اہم چیز وہ تشکیل شدہ دیوار ہے جو ان عجیب و غریب گڑھوں کے جنوب مشرق میں پائی گئی۔ اس دیوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی انتہائی شدید جھٹکے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ لیکن کیرولینا کے عجیب و غریب گڑھے اُن دو عظیم گڑھو ں کے مقابل کُچھ بھی نہیں جو ساحل سے پرے واقع ہیں جن کو ‘‘پورٹیکو’’ کی خندقوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ خندقیں 30000 فیٹ گہری اور 277000 مربع میل کی وسعت پر محیط ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عظیم گڑھے اور دیگر عجیب و غریب گڑھے سطح سمندر سے نیچے کس طرح وقوع پذیر ہوئے۔350 قبل مسیح کے مصنف پلیٹو نے عظیم آتشزدگی کو اس دور کی مخلوق کی مکمل تباہی کا حوالہ بھی دیا ہے۔
اوٹو ہنرچ کا خیال ہے کہ اُس آتش زدگی کا ذمہ داو وہ چھوٹا سا محر ف سیارہ تھا جو سورج کے گرد خطرناک منحرف المرکز مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سیارہ آسمان سے ایک دیو قامت راکٹ کی مانند کرہ ارض پر حملہ آور ہوا ۔ زیر بحر گڑھوں کی پیمائش کو مد نظر رکھتے ہوئے اُس سیارے کا قطر چھ میل کہا جاتا ہے۔
جب یہ سیارہ کرہ ارض سے 250 میل کی بلندی تک رہ گیا تو اس نے جلتی ہوئی ہائیڈروجن گیس کے شعلے خارج کرنا شروع کر دیے۔ اس کے پیچھے بیس یا تیس میل لمبی جلتی ہوئی گیسوں کی دُم شعلہ فشاں تھی۔ دو منٹ کے اندر اندر یہ سیارہ ہماری فضا کے سب سے ضخیم حصہ میں داخل ہو گیا اور پھٹ گیا۔ اس کے دو دیوقامت حصے جو کروڑوں ٹن وزنی تھی وہ پورٹیکو کے سمندر میں جا گرے جن سے موجودہ پورٹیکو کی خندقیں وجود میں آئیں۔ چھوٹے ٹکڑے کیرولینا میں جا کرے جو 3000 سے زائد گڑھوں کا سبب بنے ۔ اس سیارے کے دو اور بڑے ٹکڑے اس سلسلہ کوہ پر جا گرے جو بحر اوقیانوس کے وسط مین واقع ہے اور سطح زمین کے نازک ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ انیع کی وجہ سے اس سلسلہ کوہ میں موجود تمام آتش فشاں پھٹ پڑے اور زلزلوں نے اس علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اُس دور کا خوبصورت بر اعطم ایٹلانٹس جو اسی علاقے میں واقع تھا اس خوفناک ترین حادثے کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس کی تمام عمارات پتھروں کا ڈھیر بن گئیں۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ ہر جانب قیامت کا سماں تھا۔ زمین نے نیچے گہرائیوں سے سُرخ گرم لاوا اُبل پڑا جو بحر اوقیانوس کی سطح پر بکھر گیا۔جس نے پانی کو اتنا گرم کر دیا کہ اس کے باعث سطح سمندر سے بیحد گرم بھاپ نہایت تیز رفتاری سے فضا کی جانب روانہ ہو گئی۔ ۔ تیز آندھیوں کے طوفان جن کے اپور سفید بادلوں جیسی چھتری تھی، فضا میں 15 کلومیٹر تک بلند ہو گئے، اس علاقے پر دھول اور گرم بھاپ کے ایسے عیم بادل چھا گئے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی
ایٹلانٹس کو سمندر نے نگل لیا: زمین نے نیچے سے اوپر خارج ہونے والے لاوہ کی بنا پر جو زیر زمین دباو پیدا ہوا اس کی وجہ سے ایٹلانٹس نیچے دھنسنا شروع ہو گیا۔ اوٹو ہنرچ کے تخمینے مطابق پورا بر اعظم ایٹلانٹس صرف 24 گھنٹوں میں سمندر کی تہہ میں روپوش ہو گیا۔ اور صرف پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیاں سطح آب سے باہر رہ گئیں۔ جن کو ہم جزائر اوزورس سے موسوم کرتے ہیں۔ اس طرح 350 قبل مسیح کے مصنف پلیٹو کے مطابق بر اعظم ایٹلانٹس صرف ایک دہشت ناک دن اور ایک دہشت ناک رات میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
اس سیارے کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔ تمام بر اعظموں میں زلزلے رونما ہوئے۔ جنوبی امریکہ کا شمال مشرقی کونا بحر اوقیانوس کی طرف جھک گیا اور شمال مغربی کونا اوپر اُٹھ گیا۔ اس آفاقی حادثے کے نتیجے میں فضا میں ایک زبردست سیاہ بادل جو زہریلی گیسوں سے بھرا ہوا تھا، ہوا کے ساتھ پھسلتا ہوا، کرہ ارض کے جس جس حصے سے گزرتا گیا ،وہاں کو نیست و نابود کرتا گیا۔ اس عظیم خوفناک سیاہ بادل کے ثبوت میں اوٹو ہنرچ سائبیرا کی مثال پیش کرتا ہے جہاں اُس زمانے میں برف نہیں تھی۔ وہاں ڈائنو سارز جیسے عظیم الجثہ جانوروں کا بسیرا تھا۔ وہ سب آنا فانا اس کی گرفت میں آ کر ہلاک ہو گئے۔
اس عظیم حادثہ کی بنا پر کرہ ارض اپنے گردشی مدار میں ڈگمگا گیا۔ جس کی بنا پر قطب شمالی ایک جانب جھک گیا ، موسم میں یک لخت تبدیلی آ گئی اور سائبیریا برف سے ڈھک گیا۔
اوٹو ہنرچ اس سلسلے میں مزید دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان خوفناک بادلوں میں کئی مکعب میل پانی بھی موجود تھا جو اُن عظیم سیلابوں کا موجب بنا جس کا ذکر بائیبل میں موجود ہے (غالبا طوفان نوح کا تذکرہ ہے)
350 قبل مسیح کی عظیم شخصیت پلیٹو نے اس حادثے کی بنا پر کیچڑ کے ایک سمندر کا تذکرہ کیا ہے جس کی بنا پر طویل عرصہ تک آبنائے جبرالڑ سے پرے جہاز رانی نا ممکن ہو گئی تھی۔ سیارے سے ٹکرانے کے باعث تباہی اس قدر شدید تھی کہ لوگ ایٹلانٹس کو بھلا بیٹھے ۔اوٹو ہنرچ کے تخمینے کے مطابق بنی نوع انسان کو اس حادثے سے سنبھلنے میں لگ بھگ تین ہزار سال لگے۔اس طویل مدت تک شمالی یورپ کے اوپر آتش فشانی راکھ کا ایک بہت بڑا سیاہ بادل چھایا رہا۔ وہ لوگ جو سیلاب وغیرہ سے بچ گئے تھےاس سیاہ بادل کے نیچے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ وہ آفتاب کو مدھم سُرخ رنگ میں ہی دیکھ سکتے تھے۔
400 قبل مسیح کے لگ بھگ جب انسان نے اپنی تہذیب کا دوبارہ آغاز کیا تو ایٹلانٹس اس کے لیے محض نام کے علاوہ کُچھ اور نہ تھا۔ زندگی سے بھرپور، میٹھے چشموں اور باغات سے لبریز، ہنستے کھیلتے خوبصورت چہروں سے آراستہ بحر اوقیا نوس کا یہ جگمگاتا ہیرا ‘‘ایٹلانٹس’’کہاں غائب ہو گیا ؟ کیا واقعی وہ بحر اوقیانوس کی تہہ میں محو خواب ہے؟
سو رہا ہے بحر کی آغوش میں
وہ جسے ایٹلانٹس کہتے تھے ہم