مغزل
محفلین
غزل
گم ہوتے گئے آپ ہی امکان ہمارے
مشکل ہوئے جو کام تھے آسان ہمارے
مشکل ہوئے جو کام تھے آسان ہمارے
بکھرے ہو کہاں اے خس و خاشاک ِ تمنا
غائب ہو کدھر اے سروسامان ہمارے
غائب ہو کدھر اے سروسامان ہمارے
دریاؤں سے اب سوکھتا ہی جائے گا پانی
اور پھیلتے جائیں گے بیابان ہمارے
اور پھیلتے جائیں گے بیابان ہمارے
ہوگا نہیں موجود تواضح کے لیے کچھ
رک جائیں گے اب آپ ہی مہمان ہمارے
رک جائیں گے اب آپ ہی مہمان ہمارے
بازار ہیں اب ان کی جگہ رونقِہرشہر
یوں ختم ہوئے خودہی گلستان ہمارے
یوں ختم ہوئے خودہی گلستان ہمارے
بندے بھی درآمد کیے جائیں گے کہ سارے
شیطان ہوئے جاتے ہیں انسان ہمارے
شیطان ہوئے جاتے ہیں انسان ہمارے
باہر سے ہی مضبوط نظر آتے ہیں لیکن
اندر سے یہی جسم ہیں بے جان ہمارے
اندر سے یہی جسم ہیں بے جان ہمارے
معصوم ہیںاور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب تک
دشمن ہیں ان احوال سے انجان ہمارے
دشمن ہیں ان احوال سے انجان ہمارے
چوروں کی ظفر کوئی ضرورت نہیں باقی
مامور ہیں اب خود ہی نگہبان ہمارے
مامور ہیں اب خود ہی نگہبان ہمارے
ظفر اقبال