گناہ لذّت آشنا، ترانہ زا رباب ہے - سروش بھوپالی

کاشفی

محفلین
غزل
(سروش بھوپالی)
گناہ لذّت آشنا، ترانہ زا رباب ہے
ابھی فضا میں کیف ہے، ابھی ترا شباب ہے
نہ داغِ قلب درد زار ہے، نہ آفتاب ہے
کسی کے بحر ِ حسن کا یہ مشتعل حباب ہے
تجلّیوں کی شوخیاں سمٹ کے حسن بن گئیں
ہزار سادگی سہی، شباب پھر شباب ہے
وہی حیاتِ مضطرب، وہی وفورِ بیخودی!
مجھے نشاط جلوہ کی نہ تاب تھی، نہ تاب ہے
لبوں کے شوخ رنگ سے نظر کے دور حسن میں
شراب میں سرور ہے، سرور میں شراب ہے
سکون و ہوش نام ہے فریبِ اصطلاح کا
جسے جنوں سے عار ہو، وہ"کافر ِشباب" ہے
نہیں نہیں! یہ توبہ کیا؟ فضا تو دیکھ ناصحا!
کہ ساغرِ بہار میں شراب ہی شر اب ہے
سکون سے ضد نہیں، مگر دل ِحزیں کو کیا کروں
جسے نگاہِ لطف بھی پیامِ اضطراب ہے
کمالِ ہوش ہے یہی کہ ہو نثارِ بیخودی
نہیں ضرورتِ حجاب، جلوہ خود حجاب ہے
سروش کی تباہیاں لطافتوں میں کھوگئیں
شباب پر بہار ہے، بہار پر شباب ہے
 
Top