فرخ منظور
لائبریرین
گناہ
اے مرے جذبۂ اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہوئے، گاتے ہوئے دل کے ہم راہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے، انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں مرے ہاتوں نے کئی زنجیریں
اے روایات میں پالی ہوئی روحِ تقدیس
تو نے احساس کی عظمت کو تو سمجھا ہوتا
اے کہن زادۂ اوہام و رسوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھ کو ہر راہ پہ ہر صبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے اِک دن کوئی یہ بھی پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اصحابِ دل آرا میں نہیں
(مصطفیٰ زیدی)
اے مرے جذبۂ اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہوئے، گاتے ہوئے دل کے ہم راہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے، انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں مرے ہاتوں نے کئی زنجیریں
اے روایات میں پالی ہوئی روحِ تقدیس
تو نے احساس کی عظمت کو تو سمجھا ہوتا
اے کہن زادۂ اوہام و رسوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھ کو ہر راہ پہ ہر صبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے اِک دن کوئی یہ بھی پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اصحابِ دل آرا میں نہیں
(مصطفیٰ زیدی)
آخری تدوین: