گورِ غریباں – علی حیدر نظمؔ طباطبائی

علی وقار

محفلین

۱
وداعِ روزِ روشن ہے گجر شامِ غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم گھر کی طرف کس شوق سے اُٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے
۲
اندھیرا چھا گیا دُنیا نظر سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اُٹھا کر آ نکھ اُدھر اِک ہوُ کا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جرس کی دور سے آواز آ تی ہے کہیں پیہم
۳
کبھی اک گنبدِ کہنہ پہ بومِ خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکووں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دُنیا سے الگ اک گوشۂ عزلت میں ہوں پنہاں
کوئی پھر کیوں قدم اِس کنجِ تنہائی میں دھرتا ہے
۴
قطار اک سامنے ہے مولسریوں کے درختوں کی
وہاں قبریں ہیں کچھ مِٹیّ کے جیسے ڈھیر ہوتے ہیں
ہر اک نے مر کے بس دوگز کفن گز بھر زمیں پائی
بسانے والے جو اِس گاؤں کے تھے سب وہ سوتے ہیں
۵
نفس بادِ سحر کا نالۂ پُر درد بلبل کا
ہوے بیکار سب اُنکو اُٹھا سکتا نہیں کوئی
رہی بے فائدہ مستوں کی ہُو حق شور قلقل کا
ہیں ایسے نیند کے مارے جگا سکتا نہیں کوئی
۶
نہ چولہے آگ روشن ہے نہ اب اُنکے گھڑے پانی
نہ گھر والوں کو اب کچھ کام ہے فکرِ شبستاں سے
نہ بی بی کو سرِ شام اِنتظار اب ہے نہ حیرانی
نہ بچے دوڑتے ہیں اب کہ لپٹیں آ کے داماں سے
۷
وہی ہیں یہ جنہیں وقتِ درو مہلت نہ تھی دم بھر
وہی ہیں ہاتھ چلتے رہتے ہی تھے بیشتر جن کے
وہی ہیں یہ جنھوں نے ہل چلائے گیت گا گا کر
بڑے سرکش درختوں کو گراتے تھے تبر جن کے
۸
نہ دیکھیں حال اِن لوگوں کا ذِلّت کی نگاہوں سے
بھرا ہے جن کے سر میں غرّۂ نوّابی و خانی
یہ اِنکا کاسۂ سر کہہ رہا ہےکج کلاہوں سے
عجب ناداں ہیں وہ جِن کو ہے عُجبِ تاجِ سلطانی
۹
نہیں شایانِ فخر و ناز و نوبت اور نقاّرہ
جو نازاں جاہ و ثروت پر ہیں اُن پر موت ہنستی ہے
وہ ساعت آنے والی ہے نہیں جس سے کوئی چارہ
کہ فانی ہے جہاں ہر اوج کا انجام پستی ہے
۱۰
نظر آتے نہیں کتبے مزاروں پر تو کیا غم ہے
چراغاں اور صندل اور گل و ریحاں نہ ہوں تو کیا
نہیں نمگیرہ و کمخواب کی چادر تو کیا غم ہے
جو خوش آہنگ کوئی قاریِ قرآں نہ ہو تو کیا



تھامس گرے کی نظم Elegy Written in a Country Churchyard کا اردو ترجمہ
 
Top