طارق شاہ
محفلین
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو مَیں مُدَّعی کو بھی، اے دل!
تیری حالت پہ رحم آتا ہے
عِشق ہے، یا ندائے بے آواز
کون اِس آنکھ کو جگاتا ہے
ہائے اہلِ جہاں کے قول و قرار
تیرا انکار یاد آتا ہے
سَرِ مشرِق، پَسِ حجابِ شَفَق
کون ہر صُبح مُسکراتا ہے
کبھی، اے دوست! رو بھی پڑتا ہُوں
کبھی ، تیرا بھی دھیان آتا ہے
رُوئے جاناں ہے یا دلِ سوزاں
ایک شُعلہ سا تھر تھراتا ہے
یاد آتا چلا وہ رُوئے نگار
ایک پردہ سا اُٹھتا جاتا ہے
ہاں، اُٹھا لے کوئی تو کیا کہنا!
کون اپنا بھی غم اُٹھاتا ہے
منتیں ہیں دلِ فُسردہ کی
حُسن تیرا نِکھرتا جاتا ہے
کوئی ہشیار ہو، کہ ناداں ہو!
ایک دھوکہ سا کھائے جاتا ہے
خود کُشی کوئی ایسی بات نہ تھی
تیرے غم کا خیال آتا ہے
راز میرا کوئی دلِ غمکیں
مجھ سے اب تک چُھپائے جاتا ہے
قدِ رعنا تِرا خیال ہے جو
درد بن بن کے اُٹھتا جاتا ہے
اِک تِرے نام کے سِوا ہے کون
جو مُصیبت میں کام آتا ہے
بُجھ گئے سب چراغ، دِل تو ہے
اِک چراغ اب بھی جِھلملاتا ہے
خُون ہو سَو دِلوں کا ، تب جاکر!
ایک گُل پر نِکھار آتا ہے
خوش نصیبی بھی آڑے آ نہ سکے
ایک ایسا بھی وقت آتا ہے
میرے مرنے پہ غم نہ کر اِتنا!
آدمی جلد بُھول جاتا ہے
اے غمِ ہجر! اب تو مر رہیے
زندگی کا خیال آتا ہے
تُجھ کو بُھولے ہُوا زمانہ، مگر!
نام سُنتے ہی، دِل بھر آتا ہے
مَیں ہی جاتا نہیں جہاں سے، فِراق!
میرے ساتھ ایک دَور جاتا ہے
فِراقؔ گورکھپُوری
(شری رگھوپتی سہائے)
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو مَیں مُدَّعی کو بھی، اے دل!
تیری حالت پہ رحم آتا ہے
عِشق ہے، یا ندائے بے آواز
کون اِس آنکھ کو جگاتا ہے
ہائے اہلِ جہاں کے قول و قرار
تیرا انکار یاد آتا ہے
سَرِ مشرِق، پَسِ حجابِ شَفَق
کون ہر صُبح مُسکراتا ہے
کبھی، اے دوست! رو بھی پڑتا ہُوں
کبھی ، تیرا بھی دھیان آتا ہے
رُوئے جاناں ہے یا دلِ سوزاں
ایک شُعلہ سا تھر تھراتا ہے
یاد آتا چلا وہ رُوئے نگار
ایک پردہ سا اُٹھتا جاتا ہے
ہاں، اُٹھا لے کوئی تو کیا کہنا!
کون اپنا بھی غم اُٹھاتا ہے
منتیں ہیں دلِ فُسردہ کی
حُسن تیرا نِکھرتا جاتا ہے
کوئی ہشیار ہو، کہ ناداں ہو!
ایک دھوکہ سا کھائے جاتا ہے
خود کُشی کوئی ایسی بات نہ تھی
تیرے غم کا خیال آتا ہے
راز میرا کوئی دلِ غمکیں
مجھ سے اب تک چُھپائے جاتا ہے
قدِ رعنا تِرا خیال ہے جو
درد بن بن کے اُٹھتا جاتا ہے
اِک تِرے نام کے سِوا ہے کون
جو مُصیبت میں کام آتا ہے
بُجھ گئے سب چراغ، دِل تو ہے
اِک چراغ اب بھی جِھلملاتا ہے
خُون ہو سَو دِلوں کا ، تب جاکر!
ایک گُل پر نِکھار آتا ہے
خوش نصیبی بھی آڑے آ نہ سکے
ایک ایسا بھی وقت آتا ہے
میرے مرنے پہ غم نہ کر اِتنا!
آدمی جلد بُھول جاتا ہے
اے غمِ ہجر! اب تو مر رہیے
زندگی کا خیال آتا ہے
تُجھ کو بُھولے ہُوا زمانہ، مگر!
نام سُنتے ہی، دِل بھر آتا ہے
مَیں ہی جاتا نہیں جہاں سے، فِراق!
میرے ساتھ ایک دَور جاتا ہے
فِراقؔ گورکھپُوری
(شری رگھوپتی سہائے)