یونس
محفلین
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں‘
ہونٹ تھے کُھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں‘
درد تھا دیا گیا کہ ہر دُکھی کو پیار دوں‘
اور سانس یوں کہ سوَرگ بھومی پر اُتار دوں‘
ہو سکا نہ کچھ مگر‘ شام بن گئی سحر‘
وہ اُٹھی لہر‘ کہ ڈھے گئے قلعے بکھر بکھر‘
اور ہم ڈرے ڈرے‘ نِیر نیَن میں بھرے‘
اوڑھ کر کفن پڑے‘ مزار دیکھتے رہے !
کارواں گزر گیا‘ غبار دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔ !
ہونٹ تھے کُھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں‘
درد تھا دیا گیا کہ ہر دُکھی کو پیار دوں‘
اور سانس یوں کہ سوَرگ بھومی پر اُتار دوں‘
ہو سکا نہ کچھ مگر‘ شام بن گئی سحر‘
وہ اُٹھی لہر‘ کہ ڈھے گئے قلعے بکھر بکھر‘
اور ہم ڈرے ڈرے‘ نِیر نیَن میں بھرے‘
اوڑھ کر کفن پڑے‘ مزار دیکھتے رہے !
کارواں گزر گیا‘ غبار دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔ !