گوگل بارڈ اور اردو زبان!

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی نے تو دھوم مچا رکھی ہے، تاہم، اب تک اردو زبان کے حوالے سے چیٹ جی پی ٹی کی کارکردگی کچھ خاص معیاری نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ غیر معیاری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گوگل بارڈ اردو سوالات کےجواب کس مہارت سے دیتا ہے۔ ایک لڑی جو سید ذیشان نے شروع کی تھی، اس میں چیٹ جی پی ٹی سے کئی سوالات اردو زبان میں کیے گئے تھے، اب وہی سوالات گوگل بارڈ سے کر کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
گلاب پر نظم لکھیں:

گلاب

گلاب ایک خوبصورت پھول ہے، جو اپنی خوبصورتی اور خوشبو کے لیے جانا جاتا ہے۔
یہ محبت، حسن اور عظمت کی علامت ہے، اور یہ لوگوں کو خوشی اور مسرت دیتا ہے۔
گلاب کے پتے سبز اور چمکدار ہوتے ہیں، اور اس کی پنکھڑیاں رنگین اور نرم ہوتی ہیں۔
گلاب کی خوشبو دلفریب ہوتی ہے، اور یہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
گلاب ایک قیمتی پھول ہے، جو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ رہتا ہے۔
یہ ایک یادگار پھول ہے، جو لوگوں کو محبت اور قدر کا احساس دلاتا ہے۔
گلاب ایک خوبصورت پھول ہے، جو دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں مدد کرتا ہے۔
یہ ایک علامت ہے امید، اور یہ لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ محبت ہمیشہ فتح حاصل کرتی ہے۔


جب کہ چیٹ جی پی ٹی نے یہ نظم پیش کی تھی:

جس دیوار میں جھلم گلاب سے بدل کر تیری سراغ سے ہے ایک نظارہ پہن کر
تیرے شعر کی تمہاری شہریں تیرے پاس شعر لکھتے ہیں اب گلاب پر ہم
تیرے اشعار کا ہر خط مضبوط ہے وہ ہیروزیون کی طرح دل کو چھا کر
تیری شعروں میں ہے جو بہت ہی خوشش وہ تمہارے دل کی رات کو جگر کو جلا کر
جو تیری شعروں میں ہے وہ بہت ہی محبت ہے وہ تمہارے دل کو جوش کو آہستہ بہتا کر
جو تیری شعروں میں ہے وہ بہت ہی جمیل ہے وہ تمہارے دل کو شادی کو روشنی بھیجا کر
جو تیری شعروں میں ہے وہ بہت ہی بے حد ہے وہ تمہارے دل کو اس دوست سے ملا کر
جو تیری شعروں میں ہے وہ بہت ہی جادو ہے وہ تمہارے دل کو اس جگر کو جلا کر
 

علی وقار

محفلین
چاندنی رات پر شعر لکھیں:

گوگل بارڈ:
چاندنی رات
چاند چمک رہا ہے، تارے چمک رہے ہیں، رات سجی ہوئی ہے۔
میں باہر بیٹھا ہوں، اور میں دیکھ رہا ہوں، دنیا کی خوبصورتی۔
پھول خوشبو کر رہے ہیں، پرندے گا رہے ہیں، اور ہوا ٹھنڈی ہے۔
میں پرسکون ہوں، اور میں آرام دہ ہوں، اور میں خوش ہوں۔
یہ ایک خوبصورت رات ہے، اور میں اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔
میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گا، اور میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
چاند ہمارے لیے ایک روشنی کا ذریعہ ہے، اور ستارے ہمارے لیے امید کا ذریعہ ہیں۔
پھول ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ ہیں، اور پرندے ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ ہیں۔
ہوا ہمارے لیے تازگی کا ذریعہ ہے، اور رات ہمارے لیے سکون کا ذریعہ ہے۔
میں اس رات کا شکر گزار ہوں، اور میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


جب کہ چیٹ جی پی ٹی نے اسی سوال کا یہ نتیجہ پیش کیا تھا:

شام رات کی چاند بے رنگ ہے توڑتی ہے سارے دنیا کی چہرے دریائے کے درمیان اس کی روشنی جس سے ہر جگہ تیرے چہرے
جلتے جلتے تیری رات گزر رہی مجھے ساتھ آتے ہیں تیری کہاں سے شعر ہوائیں باز باز مجھ کو جلتی ہیں اور تیرے نو تکلف کا دل گردانی ہے
دل کی اور چہرے کی رہائش ہے یہ شعر کی رات تیری شاندار ہے چاند کی روشنی میں بھی ہے تیرا جس سے دل کی پریشانی کم ہو جاتی ہے
دل کی دردوں سے چہرہ تیرا پروانہ ہے جس کے پاس پیار کی شعر ہے دل کے خطوط کو بہتر کرنے والا ہے شام کی رات کی تیری چاندنی ہے
 

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے سوال کیا گیا تھا،
درج ذیل شعر کی تشریح کریں: مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
تو اس کے جواب میں تشریح انگریزی میں کی گئی تھی، جو کچھ یوں تھی:
The above poem is written in Urdu and is expressing the idea of seeking validation and recognition from God. The poet is asking God to grant them worth and importance, and to make the places where they reside into their home. The first line says "my God, grant me this much worth", and the second line says "make the place where I reside my home". The poet is expressing a desire for acceptance and belonging, and is asking for God's help in achieving this.

جب کہ گوگل بارڈ کا جواب ملاحظہ ہو:
یہ شعر ایک شخص کی دعا ہے کہ اللہ اسے اپنے مکان کو گھر بنانے کی توفیق دے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے مکان کو صرف ایک جگہ نہیں سمجھتا جہاں وہ رہتا ہے، بلکہ اسے اپنا گھر بنانا چاہتا ہے، جہاں وہ آرام کر سکے، محبت کر سکے، اور خوش ہو سکے۔
شاعر کے لیے گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ خود ہو سکتا ہے، جہاں اسے کسی اور کے سامنے چھپانے کی ضرورت نہ ہو۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہو سکتا ہے، اور جہاں وہ سکون اور خوشی محسوس کر سکتا ہے۔
شاعر کی دعا یہ ہے کہ اللہ اسے اپنے مکان کو گھر بنانے کی توفیق دے، تاکہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ خوش اور مطمئن رہ سکے۔
شعر میں گھر کی علامت کئی چیزوں کی ہے:
  • حفاظت: گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیں تحفظ اور سکون ملتا ہے۔
  • محبت: گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم اپنے پیاروں کے ساتھ رہتے ہیں اور محبت کرتے ہیں۔
  • خوشی: گھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم آرام کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔
شعر ایک یاد دہانی ہے کہ گھر صرف ایک جگہ نہیں ہے جہاں ہم رہتے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم اپنے پیاروں کے ساتھ محبت اور خوشی میں رہتے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے سوال کیا گیا تھا:

درج ذیل شعر کا وزن کیا ہے؟ اپنی دھن میں رہتا ہوں، میں بھی تیرے جیسا ہوں

جواب تھا:
The weight of the poem is emotional and personal. It conveys a feeling of isolation and longing.
جب کہ گوگل بارڈ کا جواب ملاحظہ ہو:

شعر کا وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے، جو کہ ایک سادہ وزن ہے جو فارسی اور اردو میں عام ہے۔
شعر کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنے اپنے راستے پر چلتا ہے اور دوسروں کی تقلید نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے اور وہ اپنے انداز میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
شعر میں ہمیں اپنے آپ پر یقین کرنے اور اپنے راستے پر چلنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ یاد دلا رہا ہے کہ ہر کوئی منفرد ہے اور ہمیں اپنے انداز میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

علی وقار

محفلین
جب چیٹ جی پی ٹی کے سامنے سوال رکھا گیا تھا،
چند مشہور اردو شاعروں کے نام لکھیں، تو جواب کچھ ایسا تھا:




ہم آپ کو چند مشہور اردو شاعروں کے نام دے رہے ہیں:

ولی انشاء اللہ
شاہد خان
رامت انجم
فیض احمد جمیل
ڈاکٹر فیض احمد احمدی
ابو بکر اشتر
شیخ بلال
محمد یحیٰ
گوہرشاہ

///
گوگل بارڈ کا جواب دیکھیے:
یہاں چند مشہور اردو شاعروں کے نام ہیں:
  • غالب
  • میر تقی میر
  • فیض احمد فیض
  • محمد اقبال
  • جگر مرادآبادی
  • علامہ اقبال
  • میر حسن
  • امیر خسرو
  • مصحفی
  • مومن خان مومن
یہ صرف چند مشہور اردو شاعروں کے نام ہیں، اردو میں بہت سے اور بھی مشہور شاعر ہیں۔ اردو شاعری ایک بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ صنف ہے، اور یہ اردو ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔
 

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا ایک اور سوال تھا:

سوال: بحر ہزج کی تشریح کریں۔
جواب ملاحظہ ہو:

بحر ہزج کا مطلب ساحلی بحر ہے جو ایک بحر ہے جو ہمیشہ شوق شدید تکلیفوں کی وجہ سے شوق شدید ہے، جیسا کہ اس کے پر نہ کوئی جہاز رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کشتی یا کشتی سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے. اس کے پر کبھی بھی ہمیشہ تند و تیز ہونے والی جوابات رہتے ہیں، جیسا کہ اس کے ساحل کی انداز میں اتارایا جاتا ہے. اس کی وجود سے بعض جزائر کو پانی میں دبانے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ کنیدے جزائر.
جب کہ یہی سوال جب گوگل بارڈ کے سامنے رکھا گیا تو جواب ملا:
بحر ہزج ایک عروضی بحر ہے، جسے عروضی بحروں میں سب سے زیادہ مستعمل بحر کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مثمن سالم بحر ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی ہر مصرع میں آٹھ ٹکڑے ہوتے ہیں اور ہر ٹکڑے میں دو حرکات اور ایک سکون ہوتا ہے۔ بحر ہزج کو نظموں میں استعمال کیا جاتا ہے جو تیز رفتار اور پرجوش ہونے کا احساس پیدا کرنا چاہتی ہیں، جیسے نظمیں جو جنگ، محبت یا جوش و خروش کا بیان کرتی ہیں۔
بحر ہزج کے چند مشہور استعمالات میں شامل ہیں:
  • غالب کی نظم "ساقی"
  • فیض احمد فیض کی نظم "چاکناں"
  • محمد اقبال کی نظم "دی ٹرپل سول"
  • جگر مرادآبادی کی نظم "بہار"
  • علامہ اقبال کی نظم "جوش"
یہ صرف چند مشہور استعمالات ہیں، بحر ہزج کو نظموں میں استعمال کیا جاتا ہے جو تیز رفتار اور پرجوش ہونے کا احساس پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا سوال:
اس شعر کی تشریح کریں
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

جواب یہ ملا تھا:
اس شعر کی تشریح کیا جاتا ہے کہ وہ ایک شخص کو غم خوار اور پریشان کرتا ہے، جو بے کار ہو جاتا ہے جب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتا ہے. اس کے متعلق ایک شخص کی انتظارات و امیدواریاں سے خوف ہوتا ہے کہ وہ جب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتا ہے، تو اس کا دل پریشان ہو جاتا ہے. اس کے خاتمے میں، اس کا مطلب ہے کہ شخص بیزار ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتا ہے.

گوگل بارڈ سے جب یہی سوال کیا گیا تو جواب یہ ملا ہے:

یہ شعر محبت کی طاقت کا بیان ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ جب اس کا محبوب اس کے پاس ہوتا ہے، تو وہ دنیا بھر میں کسی اور کی موجودگی سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ اس کا محبوب اس کے لیے سب کچھ ہے، اور وہ اس کے بغیر زندگی کی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
شعر میں "گویا" کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہ لفظ شاعر کی محبت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کا محبوب اس کے لیے اتنا اہم ہے کہ وہ گویا اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتا ہے، چاہے وہ فیصلہ کرے کہ وہ اس کے پاس نہیں ہے۔
شعر ایک یاد دہانی ہے کہ محبت ایک بہت طاقتور جذبہ ہے۔ یہ ہمیں خوشی، سکون اور اطمینان دے سکتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا بھر میں کسی اور کی موجودگی سے بے خبر کر سکتا ہے۔ اگر آپ محبت میں ہیں، تو اس کا قدر کیجیے اور اسے ہمیشہ اپنے دل میں رکھیں۔
 

علی وقار

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا سوال و جواب:
آپ مرزا غالب کے متعلق کیا جانتے ہیں؟
میں بہت خوش ہوں کہ آپ مرزا غالب سے واقف ہوں۔ مرزا غالب پاکستان کے معروف شاعر اور نوید نگار تھے۔ انہوں نے کثیر شاعری اور نویدیں لکھی ہیں جو پاکستانی سیاست، تاریخ، ثقافت اور سیاست وغیرہ کے متعلق ہیں۔ ان کی شعریں عام طور پر بہت محبوب ہیں اور انہوں نے بہت سے سالوں سے پاکستان کی سیاست، ثقافت اور تاریخ کے تحریک کو ترجمان بنایا ہے۔

جب کہ اسی سوال کا گوگل بارڈ کی طرف سے دیا گیا جواب:
مرزا غالب (1797-1869) اردو کے ایک عظیم شاعر تھے۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہاں ہی پرورش پائی۔ غالب نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ ان کی شاعری میں محبت، غم، اور زندگی کے بارے میں بہت سے موضوعات پر لکھا گیا ہے۔ غالب کی شاعری بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ ہے، اور یہ اردو ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔
غالب کی زندگی میں بہت سے مشکلات آئیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی شاعری میں امید اور خوشی کا اظہار کیا۔ وہ ایک بہت ہی طاقتور اور متاثر کن شاعر تھے، اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
غالب کی بعض مشہور نظموں میں "ساقی"، "نہال"، اور "چاکناں" شامل ہیں۔ ان کی شاعری کو اردو ادب کا ایک عظیم اثاثہ سمجھا جاتا ہے، اور یہ آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
سوال جو کہ چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا تھا:
علامہ اقبال اور فیض احمد فیض میں کیا قدر مشترک تھی؟
جواب یہ ملا تھا:
علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کو پاکستان کے معروف افسانہ نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان دونوں نے بہت سے افسانوں اور کہانیوں کا انداز لکھا ہے جو پاکستان کی تاریخ، ثقافت، سیاست اور جامعہ سے متعلق ہیں۔ احمد فیض نے بہت سے افسانوں کی ترجمہ اور تحریر کی اور علامہ اقبال نے بہت سے افسانوں کے ساتھ اقبالیہ بنایا ہے۔

یہی سوال گوگل بارڈ سے کیا گیا اور جواب ملاحظہ ہو:
علامہ اقبال اور فیض احمد فیض دونوں پاکستان کے عظیم شاعر تھے۔ وہ دونوں اردو زبان کے بہت بڑے استاد تھے اور ان کی شاعری میں قومی شعور، آزادی کی جدوجہد اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کا جذبہ نمایاں ہے۔

ان دونوں شاعروں میں کچھ مشترکہ قدریں تھیں، جن میں شامل ہیں:

  • ایمان: علامہ اقبال اور فیض احمد فیض دونوں مسلمان تھے اور ان کا ایمان ان کی شاعری کا ایک اہم حصہ تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایمان کے مضامین کو اجاگر کیا، جیسے کہ اللہ پر بھروسہ، آخرت اور آخرت کا اجر۔
  • آزادی: علامہ اقبال اور فیض احمد فیض دونوں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کا اظہار کیا اور انہوں نے لوگوں کو آزادی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا۔
  • انسانی حقوق: علامہ اقبال اور فیض احمد فیض دونوں انسانی حقوق کے لیے قائل تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی حقوق کے مضامین کو اجاگر کیا، جیسے کہ مساوات، آزادی اور انصاف۔
 

علی وقار

محفلین
ایک اور شعر کی تشریح جو کہ چیٹ جی پی ٹی سے کرنے کو کہا گیا تھا:



اس شعر کی تشریح کر دیجیے۔


ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

تشریح:

شعر کے متن کے مطابق، یہ ایک شخص کی تصور ہے جو اس بات کو یاد داشتہ ہے کہ وہ زندگی کی طویل مدت کو صرف ایک اک خواب کے طور پر بچ رہا ہے. اس نے اس بات کو شہرت یا نمایاں ہونے سے نظر رکھا ہے کہ ان کے زندگی کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے. ان کو یہ لذت ہے کہ وہ اپنے خیالات میں بسے ہوں اور اس کی بجائے زندگی کو سیاست یا دیگر چیزوں سے شغل کریں.

جب کہ اسی شعر کی تشریح گوگل بارڈ نے کچھ یوں کی ہے (خیال رہے کہ یہ شعر منیر نیازی مرحوم کا ہے اور اس کو غلط طور پر گوگل بارڈ نے اقبال کا شعر قرار دیا ہے)
تشریح:
یہ شعر علامہ محمد اقبال کی نظم "چاکناں" کا ایک شعر ہے۔ اس شعر میں شاعر کہہ رہا ہے کہ انسان کی ہستی بہت ہی مختصر ہے اور یہ دنیا میں ایک خواب کی طرح ہے۔ انسان اس دنیا میں کچھ عرصے کے لیے رہتا ہے اور پھر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام و نشان نہیں رہتا۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی ہستی کا احساس رکھنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے۔ انسان کو اپنی زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہیے جو اس دنیا کو بہتر بنا دے۔
شعر میں "زمانہ" کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہ لفظ اس دنیا کو ظاہر کرتا ہے جس میں انسان رہتا ہے۔ یہ دنیا ایک بہت ہی بڑی اور پیچیدہ دنیا ہے۔ اس دنیا میں بہت سے لوگ رہتے ہیں اور ہر شخص کی اپنی زندگی ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ انسان کی ہستی اس دنیا میں بہت ہی چھوٹی ہے اور یہ دنیا میں کوئی فرق نہیں پڑاتی۔
شعر میں "خواب" کا لفظ بھی بہت اہم ہے۔ یہ لفظ اس دنیا کی عارضی اور ناپائیدار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ انسان اس دنیا میں کچھ عرصے کے لیے رہتا ہے اور پھر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام و نشان نہیں رہتا۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی ہستی کا احساس رکھنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے۔ انسان کو اپنی زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہیے جو اس دنیا کو بہتر بنا دے۔
شعر ایک یاد دہانی ہے کہ انسان کی ہستی بہت ہی مختصر ہے اور اسے اس دنیا میں اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے۔ انسان کو اپنی زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہیے جو اس دنیا کو بہتر بنا دے۔
 

علی وقار

محفلین
ایک سوال چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا تھا
اردو محفل کیا ہے؟
جواب یہ ملا تھا:
اردو محفل ایک شادی یا وادی کے دوران ہوتی ہے جو اردو کی زبان میں ہوتی ہے۔ یہ شادی یا وادی کے لئے تقریباً جمعیت کا دورانیہ ہوتا ہے جب لوگ خوشی اور فرح کی حالت میں ہوتے ہیں اور خوشی کے بہت سے سرگرمیاں اور کاروباری رواجات اس دوران میں دیے جاتے ہیں۔

گوگل بارڈ نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا ہے:
اردو محفل ایک آن لائن کمیونٹی ہے جو اردو زبان اور ثقافت کے لوگوں کو ایک ساتھ لاتی ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ اردو سیکھ سکتے ہیں، اردو بول سکتے ہیں، اور اردو کے بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ محفل میں مختلف قسم کے لوگ شامل ہیں، جن میں اردو زبان کے ماہرین، طالب علم، اور شوقین شامل ہیں۔ محفل ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ اردو کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں اور اردو کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
محفل کی کچھ خصوصیات یہ ہیں:
  • ایک فعال کمیونٹی: محفل میں ہزاروں فعال صارفین ہیں جو اردو سیکھنے، بولنے اور بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
  • مختلف قسم کے وسائل: محفل میں مختلف قسم کے اردو کے وسائل دستیاب ہیں، جن میں کتابیں، مضامین، ویڈیوز، اور ٹیوٹوریلز شامل ہیں۔
  • مددگار صارفین: محفل کے صارفین بہت مددگار ہیں اور وہ اردو سیکھنے اور بولنے میں مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
  • ایک مفت اور کھلا پلیٹ فارم: محفل ایک مفت اور کھلا پلیٹ فارم ہے جو کسی بھی شخص کے لیے استعمال کے لیے دستیاب ہے۔
اگر آپ اردو زبان اور ثقافت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں، تو میں اردو محفل میں شامل ہونے کی تجویز کرتا ہوں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ اردو کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر سکتے ہیں اور اردو کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
گوگل بارڈ سے درخواست کی کہ پطرس کے مضمون کے ایک حصے کی ٹرانسلیٹریشن یا نقلِ حرفی کرے، رومن اردو میں اسے لکھے تو نتیجہ یہ ہے:

اقتباس برائے نقل حرفی:

اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ “لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟”
جواب آیا۔ “ہوں۔”
میں نے کہا “آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟”
کہنے لگے “تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟”
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے۔


گوگل بارڈ کا ریسپانس:
ab jo ham khirki main se aasman ko dekhte hen to janab sitare hen، kah jhamg rahen hen! socha kah aaj pata chalayein gay، yah sooraj aakhir kas tarah se nikal jata hai۔ likan jab ghum ghum kar khirki main se aur roshan dan main se charon taraf dekha aur badon se subah kazeb ki jitni nishaniyain suni thin۔ an main se ek bhi kahin Nazar nahin aai، to fikr si lag gai kah aaj kahin sooraj grahan nahin ho؟ kuchh samajh main nahin aaya، to pas mansabdar ko aawaz di۔ “lala ji!۔۔۔ lala ji؟” jawab aaya۔ “hun۔” maine kaha “aaj yah kiya bat hai۔ kuchh andhera andhera sa hai؟” kahne lage “to aur kiya teen baje hi sooraj nikal aaye؟” teen baje ka nam sun kar hosh gum ho gaye،
 

سید ذیشان

محفلین
چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا ایک اور سوال تھا:

سوال: بحر ہزج کی تشریح کریں۔
جواب ملاحظہ ہو:

بحر ہزج کا مطلب ساحلی بحر ہے جو ایک بحر ہے جو ہمیشہ شوق شدید تکلیفوں کی وجہ سے شوق شدید ہے، جیسا کہ اس کے پر نہ کوئی جہاز رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کشتی یا کشتی سے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے. اس کے پر کبھی بھی ہمیشہ تند و تیز ہونے والی جوابات رہتے ہیں، جیسا کہ اس کے ساحل کی انداز میں اتارایا جاتا ہے. اس کی وجود سے بعض جزائر کو پانی میں دبانے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ کنیدے جزائر.
جب کہ یہی سوال جب گوگل بارڈ کے سامنے رکھا گیا تو جواب ملا:
بحر ہزج ایک عروضی بحر ہے، جسے عروضی بحروں میں سب سے زیادہ مستعمل بحر کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مثمن سالم بحر ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی ہر مصرع میں آٹھ ٹکڑے ہوتے ہیں اور ہر ٹکڑے میں دو حرکات اور ایک سکون ہوتا ہے۔ بحر ہزج کو نظموں میں استعمال کیا جاتا ہے جو تیز رفتار اور پرجوش ہونے کا احساس پیدا کرنا چاہتی ہیں، جیسے نظمیں جو جنگ، محبت یا جوش و خروش کا بیان کرتی ہیں۔
بحر ہزج کے چند مشہور استعمالات میں شامل ہیں:
  • غالب کی نظم "ساقی"
  • فیض احمد فیض کی نظم "چاکناں"
  • محمد اقبال کی نظم "دی ٹرپل سول"
  • جگر مرادآبادی کی نظم "بہار"
  • علامہ اقبال کی نظم "جوش"
یہ صرف چند مشہور استعمالات ہیں، بحر ہزج کو نظموں میں استعمال کیا جاتا ہے جو تیز رفتار اور پرجوش ہونے کا احساس پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
ہاہا۔ یہ والا جواب مزیدار ہے۔ اس کے بعد اگلا سوال ہونا چاہیے کہ غالب کی نظم ساقی یہاں تحریر کریں۔

ویسے مجموعی طور پر گوگل بارڈ کے جوابات کافی بہتر ہیں۔ جھوٹ کسی حد تک کم ہے ان میں۔
 
چاندنی رات پر شعر لکھیں:

گوگل بارڈ:
چاندنی رات
چاند چمک رہا ہے، تارے چمک رہے ہیں، رات سجی ہوئی ہے۔
میں باہر بیٹھا ہوں، اور میں دیکھ رہا ہوں، دنیا کی خوبصورتی۔
پھول خوشبو کر رہے ہیں، پرندے گا رہے ہیں، اور ہوا ٹھنڈی ہے۔
میں پرسکون ہوں، اور میں آرام دہ ہوں، اور میں خوش ہوں۔
یہ ایک خوبصورت رات ہے، اور میں اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔
میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گا، اور میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
چاند ہمارے لیے ایک روشنی کا ذریعہ ہے، اور ستارے ہمارے لیے امید کا ذریعہ ہیں۔
پھول ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ ہیں، اور پرندے ہمارے لیے خوشی کا ذریعہ ہیں۔
ہوا ہمارے لیے تازگی کا ذریعہ ہے، اور رات ہمارے لیے سکون کا ذریعہ ہے۔
میں اس رات کا شکر گزار ہوں، اور میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


جب کہ چیٹ جی پی ٹی نے اسی سوال کا یہ نتیجہ پیش کیا تھا:

شام رات کی چاند بے رنگ ہے توڑتی ہے سارے دنیا کی چہرے دریائے کے درمیان اس کی روشنی جس سے ہر جگہ تیرے چہرے
جلتے جلتے تیری رات گزر رہی مجھے ساتھ آتے ہیں تیری کہاں سے شعر ہوائیں باز باز مجھ کو جلتی ہیں اور تیرے نو تکلف کا دل گردانی ہے
دل کی اور چہرے کی رہائش ہے یہ شعر کی رات تیری شاندار ہے چاند کی روشنی میں بھی ہے تیرا جس سے دل کی پریشانی کم ہو جاتی ہے
دل کی دردوں سے چہرہ تیرا پروانہ ہے جس کے پاس پیار کی شعر ہے دل کے خطوط کو بہتر کرنے والا ہے شام کی رات کی تیری چاندنی ہے
گوگل بارڈ تو ردیف وقافیہ سے یکسر بےنیاز ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے کچھ تو لحاظ کیا
 
Top