عاطف بٹ
محفلین
گو نظر اکثر وہ حسنِ لازوال آ جائے گا
راہ میں لیکن سرابِ ماہ و سال آ جائے گا
یا شکن آلود ہو جائے گی منظر کی جبیں
یا ہماری آنکھ میں شیشے کا بال آ جائے گا
ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب
کوئی دم میں موجہء بادِ شمال آ جائے گا
دوستو! میری طبیعت کا بھروسہ کچھ نہیں
ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگِ ملال آ جائے گا
جانے کس دن ہاتھ سے رکھ دوں گا دنیا کی زمام
جانے کس دن ترکِ دنیا کا خیال آ جائے گا
حادثہ یہ ہے کہ ساری ذلّتوں کے باوجود
رفتہ رفتہ زخم سوئے اندمال آ جائے گا