رحیم ساگر بلوچ
محفلین
گو..ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم اس شعر کے پہلے لفظ کو انگریزی والا Go بھی پڑھیں گے تب بھی یہ شعر اپنا مفہوم برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اور بھی جاندار شعر بن جائے گا
یقینا اس شعر کے خالق خاطر غزنوی کے فرشتوں نے بھی ایسا نہیں سوچا ہوگا
جہاں اس ذرا سی Go نے برسوں کے یارانے ختم کر ڈالے وہیں بہت سارے چہرے بھی بے نقاب کئے بہت سارے اصلی چہرے سامنے آگئے اور بہت سے سانپ ایک آستین سے دوسرے آستین کو ہجرت کرگئے
یا پھر یوں کہہ لیجئے اس Go نامی فلم نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں دھوم مچا دی کروڑوں نہیں اربوں روپے کا بزنس کیا اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر دیا
اس فلم میں سب کا بہت فائدہ ہوا سوائے پاکستان اور پاکستانی عوام کے
باقی دنیا میں ہر جگہ طویل دورانیہ کے اس فلم کو مفت میں بڑی دلچسپی سے دیکھ کر لوگ محظوظ ہوتے رہے
چونکہ اس فلم کا نام ہی Go ہے تو جگہ جگہ بلکہ ہر جگہ Go کا لفظ استعمال کیا گیا
ویسے تو لفظ Go کو مثبت انداز میں استعمال کیا گیا مگر اس کے منفی نتائج سامنے آئے
مثلا Go nawaz Goکا نعرہ لگایا گیا تو نواز صاحب بیچارے شریف قومی لیڈر قوم کی بات کیسے ٹالتے وہ نیو یارک چلے گئے
واپس آئے تو قوم نے پھر Go کا مطالبہ کیا
پھر قوم کی خوشی کیلئے حج پہ چلے گئے
مگر واپس آئے تو بھی Go کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے
اب کبھی اسلام آباد کبھی لاہور آنا جانا ہے صرف اور صرف عوام کے ایک لفظ Go کی وجہ سے.
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے اب تک یہ نہیں کہا کہ Come nawaz Come آؤ نواز آؤ اس بکھری ہوئی قوم کو سنبھالو اس ملک کو بچاؤ جاگو نواز جاگو اس ملک و قوم کو سہارا دو مگر نہیں..ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں اپنے سمت کا پتہ نہیں ہم اپنے سمت کا تعین نہیں کرسکتے
ہم گو تو کہہ رہے ہیں مگر کہاں گو ؟
نہ عوام کو پتہ ہے ہم انہیں کہاں بھیج رہے ہیں اور نہ ہی نواز صاحب کو خبر کہ وہ کہاں جائیں..
ہماری قوم کا ایک اور نعرہ Go Green Goبھی ہے اور اس کے بھی اکثر منفی نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں
قومی کرکٹ ٹیم کے جانباز جب میدان میں اترتے ہیں تو Go Green Go کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں جس سے قوم کے صاحبزادوں کا خون گرما جاتا ہے اور وہ جلدی سے Go ہو جاتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے قوم کے تاکید کی لاج رکھ لی..
اس ذرا سی Go نے ہمیں کتنا نقصان دیا ہے ایک لمحے کیلئے سوچ کر دیکھئے گا
خدارا اب اس Go کو اپنی ڈکشنری سے نکال کر کسی اور لفظ کو یہ شرف بخش دیجئے گا..
تحریر : رحیم ساگر
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم اس شعر کے پہلے لفظ کو انگریزی والا Go بھی پڑھیں گے تب بھی یہ شعر اپنا مفہوم برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اور بھی جاندار شعر بن جائے گا
یقینا اس شعر کے خالق خاطر غزنوی کے فرشتوں نے بھی ایسا نہیں سوچا ہوگا
جہاں اس ذرا سی Go نے برسوں کے یارانے ختم کر ڈالے وہیں بہت سارے چہرے بھی بے نقاب کئے بہت سارے اصلی چہرے سامنے آگئے اور بہت سے سانپ ایک آستین سے دوسرے آستین کو ہجرت کرگئے
یا پھر یوں کہہ لیجئے اس Go نامی فلم نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں دھوم مچا دی کروڑوں نہیں اربوں روپے کا بزنس کیا اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر دیا
اس فلم میں سب کا بہت فائدہ ہوا سوائے پاکستان اور پاکستانی عوام کے
باقی دنیا میں ہر جگہ طویل دورانیہ کے اس فلم کو مفت میں بڑی دلچسپی سے دیکھ کر لوگ محظوظ ہوتے رہے
چونکہ اس فلم کا نام ہی Go ہے تو جگہ جگہ بلکہ ہر جگہ Go کا لفظ استعمال کیا گیا
ویسے تو لفظ Go کو مثبت انداز میں استعمال کیا گیا مگر اس کے منفی نتائج سامنے آئے
مثلا Go nawaz Goکا نعرہ لگایا گیا تو نواز صاحب بیچارے شریف قومی لیڈر قوم کی بات کیسے ٹالتے وہ نیو یارک چلے گئے
واپس آئے تو قوم نے پھر Go کا مطالبہ کیا
پھر قوم کی خوشی کیلئے حج پہ چلے گئے
مگر واپس آئے تو بھی Go کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے
اب کبھی اسلام آباد کبھی لاہور آنا جانا ہے صرف اور صرف عوام کے ایک لفظ Go کی وجہ سے.
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے اب تک یہ نہیں کہا کہ Come nawaz Come آؤ نواز آؤ اس بکھری ہوئی قوم کو سنبھالو اس ملک کو بچاؤ جاگو نواز جاگو اس ملک و قوم کو سہارا دو مگر نہیں..ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں اپنے سمت کا پتہ نہیں ہم اپنے سمت کا تعین نہیں کرسکتے
ہم گو تو کہہ رہے ہیں مگر کہاں گو ؟
نہ عوام کو پتہ ہے ہم انہیں کہاں بھیج رہے ہیں اور نہ ہی نواز صاحب کو خبر کہ وہ کہاں جائیں..
ہماری قوم کا ایک اور نعرہ Go Green Goبھی ہے اور اس کے بھی اکثر منفی نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں
قومی کرکٹ ٹیم کے جانباز جب میدان میں اترتے ہیں تو Go Green Go کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں جس سے قوم کے صاحبزادوں کا خون گرما جاتا ہے اور وہ جلدی سے Go ہو جاتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے قوم کے تاکید کی لاج رکھ لی..
اس ذرا سی Go نے ہمیں کتنا نقصان دیا ہے ایک لمحے کیلئے سوچ کر دیکھئے گا
خدارا اب اس Go کو اپنی ڈکشنری سے نکال کر کسی اور لفظ کو یہ شرف بخش دیجئے گا..
تحریر : رحیم ساگر