گُریز پا ہے جو مجھ سے ، اُسی کے پاس بہت ہوں
میں اپنے وعدے پہ قائم ہوں ، اور اُداس بہت ہوں
یہ قید وہ ہے، کہ زنجیر بھی نظر نہیں آتی
یہ پیرہن ہے کچھ ایسا کہ بے لباس بہت ہوں
نہیں شریک ِسفر وہ ، مگر ملال بہت ہے
کہ جس مقام پہ بھی ہوں ، میں اُس کی آس بہت ہوں
خموش اس لیئے رہتا ہوں ، میرے سامنے تُو ہے
میں کم سخن سہی ، لیکن نظر شناس بہت ہوں
کٹا ہے وقت ، فقط زندگی نہیں کہ ظفر میں
طلب سے اور تغافل سے ، روشناس بہت ہوں
( صابر ظفر )