فرخ منظور
لائبریرین
غزل
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں خرابیاں
اپنا ہو بس تو دل نہ کسو سے لگائیے
اے ہمدم ابتدا سے ہے آدم کشی میں عشق
طبع شریف اپنی نہ ایدھر کو لائیے
اتنی بھی کیا ہے دیدہ درائی کہ غیر سے
آنکھیں لڑائیے، ہمیں آنکھیں دکھائیے
مچلا ہے وہ تو دیکھ کے لینا ہے آنکھیں موند
سوتا پڑا ہو کوئی تو اوسکو جگائیے
جانِ غیّور پر ہے ستم سا ستم کہ میر
بگڑا جنہوں سے چاہیے ان کو منائیے
(میر تقی میر)
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں خرابیاں
اپنا ہو بس تو دل نہ کسو سے لگائیے
اے ہمدم ابتدا سے ہے آدم کشی میں عشق
طبع شریف اپنی نہ ایدھر کو لائیے
اتنی بھی کیا ہے دیدہ درائی کہ غیر سے
آنکھیں لڑائیے، ہمیں آنکھیں دکھائیے
مچلا ہے وہ تو دیکھ کے لینا ہے آنکھیں موند
سوتا پڑا ہو کوئی تو اوسکو جگائیے
جانِ غیّور پر ہے ستم سا ستم کہ میر
بگڑا جنہوں سے چاہیے ان کو منائیے
(میر تقی میر)