فیصل عظیم فیصل
محفلین
یہ کہانی ایک محلے کے ایک گھر کی ہے ۔ اس محلے میں چند ایک حویلیاں ہیں (1) موہن داس کی حویلی (2) محمد علی کی حویلی (3) ظاہر شاہ کی حویلی (4) رضا شاہ کی حویلی (5) ہنری کی حویلی (6) پرتھوی نرائن کا مکان (7) جگ مئے کا مکان (8- فرید دیدی بھائی کا مکان ( 9) پھایا جی کا مکان ۔ اور یہ کہانی ہے محمد علی کی حویلی کی جس کا ایک حصہ موہن داس کی حویلی کے دوسری جانب بھی تھا ۔
اب دیکھتے ہیں اس محلے کی طرف کہ ان تمام گھروں اور گلی کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ ان کی دیواریں آپس میں کچھ اس طرح سے ملی ہوئی ہیں کہ اس محلے میں آپس میں کسی کا بھی دوسرے سے بے خبر رہنا ممکن ہی نہیں ہے ۔
موہن داس اور محمد علی آپس میں بھائی تھے اور پہلے دونوں ہندو تھے اور اکٹھے رہتے تھے کہ محمد علی مسلمان ہو گیا اور کچھ عرصے بعد کچھ اپنے اندر کی حساسیت اور کچھ موہن داس کے بیوی بچوں کے وقتا فوقتا کے بے وقوفانہ طرز عمل سے اسے یوں لگا کہ موہن داس کے گھرمیں اس کی نہ سنی جاتی ہے نہ اس کے عقائد و نظریات محفوظ ہیں تو پہلے اس نے کوشش کی کہ اسی گھر میں کچھ کمرے اسے مختص کر دیئے جائیں تاکہ وہ ان کے اندر اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکے لیکن موہن داس کے بیوی بچوں کے سخت ردعمل نے اسے مزید پکا کردیا کہ اس گھر میں اس کا دین خطرے میں ہے لہذا اس نے بٹوارا کروا لیا ۔بظاہر موہن داس کے اہل و عیال اس حق میں نہیں تھے کہ بٹوارا ہو لیکن اندر سے کچھ بچوں اور بڑوں کی حماقتوں سے یہ تاثر بھی ملا کہ وہ خود ہی محمد علی کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے لہذا روز روز کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے محمد علی اور موہن داس کو بڑی حویلی کا کچھ حصہ بانٹنا پڑا جس میں بڑی حویلی موہن داس کو دی گئی جبکہ ایک پانچ مرلے کا مکان اور ایک چھوٹی حویلی محمد علی کو ملی ، محمد علی کو ملنے والا پانچ مرلے کا مکان اس کے بیٹے شرف الاسلام کے پاس تھا۔
اب دیکھتے ہیں اس محلے کی طرف کہ ان تمام گھروں اور گلی کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ ان کی دیواریں آپس میں کچھ اس طرح سے ملی ہوئی ہیں کہ اس محلے میں آپس میں کسی کا بھی دوسرے سے بے خبر رہنا ممکن ہی نہیں ہے ۔
موہن داس اور محمد علی آپس میں بھائی تھے اور پہلے دونوں ہندو تھے اور اکٹھے رہتے تھے کہ محمد علی مسلمان ہو گیا اور کچھ عرصے بعد کچھ اپنے اندر کی حساسیت اور کچھ موہن داس کے بیوی بچوں کے وقتا فوقتا کے بے وقوفانہ طرز عمل سے اسے یوں لگا کہ موہن داس کے گھرمیں اس کی نہ سنی جاتی ہے نہ اس کے عقائد و نظریات محفوظ ہیں تو پہلے اس نے کوشش کی کہ اسی گھر میں کچھ کمرے اسے مختص کر دیئے جائیں تاکہ وہ ان کے اندر اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکے لیکن موہن داس کے بیوی بچوں کے سخت ردعمل نے اسے مزید پکا کردیا کہ اس گھر میں اس کا دین خطرے میں ہے لہذا اس نے بٹوارا کروا لیا ۔بظاہر موہن داس کے اہل و عیال اس حق میں نہیں تھے کہ بٹوارا ہو لیکن اندر سے کچھ بچوں اور بڑوں کی حماقتوں سے یہ تاثر بھی ملا کہ وہ خود ہی محمد علی کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے لہذا روز روز کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے محمد علی اور موہن داس کو بڑی حویلی کا کچھ حصہ بانٹنا پڑا جس میں بڑی حویلی موہن داس کو دی گئی جبکہ ایک پانچ مرلے کا مکان اور ایک چھوٹی حویلی محمد علی کو ملی ، محمد علی کو ملنے والا پانچ مرلے کا مکان اس کے بیٹے شرف الاسلام کے پاس تھا۔
موہن داس کے گھر میں اس بٹوارے کی وجہ سے اس کے ایک بیٹے نے ناراض ہو کر موہن داس کو قتل کر دیا ۔ جبکہ محمد علی کے گھر میں اس کی اولاد اس کے بڑھاپے میں اس کی دیکھ بھال کرنے میں نااہل ثابت ہوئی اور وہ بھی بیمار ہو گیا ۔اسی دوران موہن داس اور محمد علی کے گھروں کے درمیان کا باغ جو ہری سنگھ کا تھا مگر وہ باغ دونوں کو استعمال کرنے کی اجازت تھی ۔ ہری سنگھ کے بیٹوں میں بھی کچھ مسلمان ہو چکے تھے اور کچھ غیر مسلم تھے ہری سنگھ کا جھگڑا ہوا اس کے بیٹوں میں سے مسلمان اولاد کے ساتھ جہاں محمد علی کے بیٹوں نے ہری سنگھ اور اس کی اولاد کے جھگڑے میں باپ کے خلاف اس کی اولاد کا ساتھ دیا اس کے نتیجے میں باغ کا کچھ حصہ ہری سنگھ کے مسلمان بیٹوں کے زیر انتظام آگیا۔ ہری سنگھ کا جھگڑا جب بیٹوں سے بڑھا تو محمد علی نے گھر کے چوکیدار کو کہا کہ جا کر اس لڑائی میں اس کے بیٹوں کا ساتھ دے اور اس جھگڑے میں ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دے جس سے خون خرابہ زیادہ ہو بلکہ ایسا کرے کہ صلح اور حل کی صورت حال پیدا ہو ۔ لیکن اس کا چوکیدار ہنری والٹر میسروی اس کام میں شامل ہونے سے انکار کرنے لگا ایسے میں محمد علی کے بیٹوں میں آفریدی اور اس کی اولاد میں سے کچھ نے ہری سنگھ کے بیٹوں کے ساتھ مل کر ہری سنگھ کے خلاف لڑنا شروع کر دیا ۔ اب چوکیدار کے نہ ہونے کی صورت میں لڑائی بند کیا ہوتی ۔ہری سنگھ نے باغیچہ موہن داس کی آل اولاد کے حوالے اس شرط پر کیا کہ اس باغیچے کی اپنی شناخت قائم رکھی جائے گی اور یہ موہن داس کی جائیداد نہ ہوگا ۔اس طرح ہری سنگھ کا باغیچہ موہن داس کے حوالے تو ہو گیا لیکن اسی کے بچوں میں سے قیومی نے باغیچہ کی ایک طرف قبضہ قائم کر لیا دوسری جانب موہن داس کے بیٹے آن کھڑے ہوئے کہ یہ باغیچہ ہمارا ہے ۔ آخر شہر کی عدالت میں یہ بات موہن داس اور محمد علی مان کر آئے کہ باغیچے کا فیصلہ ہری سنگھ کی تمامی اولاد جس میں ہندو مسلم سب شامل کی رائے سے ہوگا ۔ لیکن اس سے پہلے دونوں محمد علی اور موہن داس کے بچے اس باغیچے سے نکل جائیں پھر ہری سنگھ کی تمام اولاد سے پوچھا جائے گا کہ باغیچے کا کیا کرنا ہے جہاں زیادہ بچوں کا فیصلہ ہوگا اس کے گھر میں باغیچہ شامل سمجھا جائے گا۔ لیکن محمد علی اور موہن داس دونوں کی اولاد اس معاملے میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا بہانہ بناتے ہوئے باغیچے سے نکلنے سے انکاری ہو گئی
محمد علی کے بچوں میں سے چند کو چوکیدار کے ساتھ رکھا گیا تھا تاکہ چوکیداری کا تجربہ حاصل کر کے باہر کے چوکیدار سے مستغنیٰ ہوا جا سکے۔ انہی دنوں محمد علی کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اسے علاج کے لئےباغ کے ایک جانب والے سرد حصے میں ہی علاج کے لئے رکھا گیا علاج کے بعد گھر آتے ہوئے راستے میں سواری ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئی اور محمد علی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ گھر والوں نے سوگ منایا اور پھر گھر کا سربراہ بنانے کے لئے فیصلہ کیا اس طرح سربراہ چننے کا عمل مکمل ہو ا تو آخر کار محمد علی کا دست و بازو لیاقت گھر کا سربراہ بن چکا تھا ۔ گھر کے سربراہ نے باہر کے چوکیدار گریسی کی بجائے اپنے ہی بھائی بندوں میں سے اسی ایوب کو بڑا چوکیدار چن لیا جس کے بارے میں محمد علی نے خود کہا تھا کہ اس بچے کو بالخصوص کوئی بڑی ذمہ داری والا کام نہ دینا ۔ پھر ایک دن گھر کا سربراہ لیاقت بھی اپنے ہی ایک بچے کے ہاتھوں جان سے مارا گیا ۔اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین نامی بچے کو گھر کی ذمہ داری سونپی گئی ۔خواجہ صاحب محمد علی اس گھر کے اس حصے میں رہنے والے بھائی کے بچے تھے جو پانچ مرلے پر مشتمل تھا ۔ بڑی حویلی میں بیٹے آپس میں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانا شروع ہوچکے تھے تو ایسے میں ان کی لڑائی جھگڑے مختلف چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہو چکے تھے ۔ لیکن صورت حال قابو سے باہر نہ تھی ۔ انہی دنوں سب بچوں نے مل کر ایک تحریری پرچہ تیار کر لیا کہ ہم گھر کا نظام اس طرح سے چلائیں گے ۔اور اس طرح سے محمد علی کا گھر ایک نظام کے ماتحت چلنے کو راضی ہو گیا ۔ اس وقت تک خواجہ کے بعد گھر کی سربراہی حسین شہید سے ہوتے ہوئے محمد علی دوئم اور پھر حسین شہید نامی بچے تک پہنچ چکی تھی۔لیکن ساتھ ہی ساتھ چاچو اسکندر مرزا نے بھی اپنی چودھراہٹ قائم کر رکھی تھی کہ ایک دن اچانک گھر کے بچوں کی آپس میں کسی بات پر چپقلش ہوئی تو گھر کے چوکیدار ایوب نے چاچو اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر گھر میں قبضہ کر لیا ۔ اور سب بچوں کو بک بک بند کرنے کا حکم دے دیا۔
اب گھر میں وہی ہوگا جو ایوب چوکیدار جو اب گھر کا سربراہ ہونے کا دعوے دار تھا چاہے گا ۔اپنی طاقت دکھانے کے لئے اس نے وہ کاغذ جسے دستور کا نام دیا گیا تھا پھاڑ کر پھینک دیا اور یوں گھر کا چوکیدار ہی گھر پر قابض ہو کر بیٹھ گیا ۔ اور کمزور نہتے بچے ڈر اور حیرت جبکہ چھوٹے کم عقل بچے بی ڈی گولیاں اور کچھ کاروباری مواقع یا مواقع کا وعدہ ملنے پر چپ ہو کر بیٹھ گئے ۔ ایوب نے آتے ہی گھر کی پیاری پھپھو فاطمہ جسے بچے پیار سے ماں پکارتے تھے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور بچوں کے کان بھرنے کی کوششیں کرنے لگا کہ وہ گھر کی دشمن ہے حالانکہ جس بہن نے اپنے بھائی محمد علی کے ساتھ مل کر ہمیشہ اس گھر کا بھلا سوچا ہو اس پر گھر کی دشمنی کا الزام کس قدر گھٹیا الزام ہو سکتا ہے ۔ پھر ایک دن اس قربانی کی صورت ، مادر ملت ، قوم کی ماں اور ملک و ملت سے سچی مخلص کو گھر میں گھس کر مار مار کر مار دیا گیا ۔ جس کا اعلان طبعی موت کے طور پر کیا گیا ۔ اس سب کے دوران قابض چوکیداروں اور گھر کے ذمہ دار بچوں کی نظریں شرف الدین والے مکان کی طرف کم ہی رہیں اور جو فوکس میں نہ رہے اسے شکایات پیدا ہو ہی جاتی ہیں ۔ شرف الدین والے مکان میں ایک بیٹا مجیب الرحمن تھا جو گھر بھر کا مخلص تھا اور سب کو بہتر کل کی طرف لے جانا چاہتا تھا ۔
محمد علی کے بچوں میں سے چند کو چوکیدار کے ساتھ رکھا گیا تھا تاکہ چوکیداری کا تجربہ حاصل کر کے باہر کے چوکیدار سے مستغنیٰ ہوا جا سکے۔ انہی دنوں محمد علی کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اسے علاج کے لئےباغ کے ایک جانب والے سرد حصے میں ہی علاج کے لئے رکھا گیا علاج کے بعد گھر آتے ہوئے راستے میں سواری ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئی اور محمد علی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ گھر والوں نے سوگ منایا اور پھر گھر کا سربراہ بنانے کے لئے فیصلہ کیا اس طرح سربراہ چننے کا عمل مکمل ہو ا تو آخر کار محمد علی کا دست و بازو لیاقت گھر کا سربراہ بن چکا تھا ۔ گھر کے سربراہ نے باہر کے چوکیدار گریسی کی بجائے اپنے ہی بھائی بندوں میں سے اسی ایوب کو بڑا چوکیدار چن لیا جس کے بارے میں محمد علی نے خود کہا تھا کہ اس بچے کو بالخصوص کوئی بڑی ذمہ داری والا کام نہ دینا ۔ پھر ایک دن گھر کا سربراہ لیاقت بھی اپنے ہی ایک بچے کے ہاتھوں جان سے مارا گیا ۔اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین نامی بچے کو گھر کی ذمہ داری سونپی گئی ۔خواجہ صاحب محمد علی اس گھر کے اس حصے میں رہنے والے بھائی کے بچے تھے جو پانچ مرلے پر مشتمل تھا ۔ بڑی حویلی میں بیٹے آپس میں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانا شروع ہوچکے تھے تو ایسے میں ان کی لڑائی جھگڑے مختلف چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہو چکے تھے ۔ لیکن صورت حال قابو سے باہر نہ تھی ۔ انہی دنوں سب بچوں نے مل کر ایک تحریری پرچہ تیار کر لیا کہ ہم گھر کا نظام اس طرح سے چلائیں گے ۔اور اس طرح سے محمد علی کا گھر ایک نظام کے ماتحت چلنے کو راضی ہو گیا ۔ اس وقت تک خواجہ کے بعد گھر کی سربراہی حسین شہید سے ہوتے ہوئے محمد علی دوئم اور پھر حسین شہید نامی بچے تک پہنچ چکی تھی۔لیکن ساتھ ہی ساتھ چاچو اسکندر مرزا نے بھی اپنی چودھراہٹ قائم کر رکھی تھی کہ ایک دن اچانک گھر کے بچوں کی آپس میں کسی بات پر چپقلش ہوئی تو گھر کے چوکیدار ایوب نے چاچو اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر گھر میں قبضہ کر لیا ۔ اور سب بچوں کو بک بک بند کرنے کا حکم دے دیا۔
اب گھر میں وہی ہوگا جو ایوب چوکیدار جو اب گھر کا سربراہ ہونے کا دعوے دار تھا چاہے گا ۔اپنی طاقت دکھانے کے لئے اس نے وہ کاغذ جسے دستور کا نام دیا گیا تھا پھاڑ کر پھینک دیا اور یوں گھر کا چوکیدار ہی گھر پر قابض ہو کر بیٹھ گیا ۔ اور کمزور نہتے بچے ڈر اور حیرت جبکہ چھوٹے کم عقل بچے بی ڈی گولیاں اور کچھ کاروباری مواقع یا مواقع کا وعدہ ملنے پر چپ ہو کر بیٹھ گئے ۔ ایوب نے آتے ہی گھر کی پیاری پھپھو فاطمہ جسے بچے پیار سے ماں پکارتے تھے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور بچوں کے کان بھرنے کی کوششیں کرنے لگا کہ وہ گھر کی دشمن ہے حالانکہ جس بہن نے اپنے بھائی محمد علی کے ساتھ مل کر ہمیشہ اس گھر کا بھلا سوچا ہو اس پر گھر کی دشمنی کا الزام کس قدر گھٹیا الزام ہو سکتا ہے ۔ پھر ایک دن اس قربانی کی صورت ، مادر ملت ، قوم کی ماں اور ملک و ملت سے سچی مخلص کو گھر میں گھس کر مار مار کر مار دیا گیا ۔ جس کا اعلان طبعی موت کے طور پر کیا گیا ۔ اس سب کے دوران قابض چوکیداروں اور گھر کے ذمہ دار بچوں کی نظریں شرف الدین والے مکان کی طرف کم ہی رہیں اور جو فوکس میں نہ رہے اسے شکایات پیدا ہو ہی جاتی ہیں ۔ شرف الدین والے مکان میں ایک بیٹا مجیب الرحمن تھا جو گھر بھر کا مخلص تھا اور سب کو بہتر کل کی طرف لے جانا چاہتا تھا ۔
آخری تدوین: