محمد شکیل خورشید
محفلین
استاد محترم الف عین کی ہدایت پر کچھ طبع آزمائی کی ہے۔
گو جناب سید عاطف علی اور جناب عرفان علوی کے کلام کے آگے چراغ کو سورج دکھانے والی بات ہے
بھید ہے اتنی آن بان میں کیا
تم کو شک ہے تمہاری شان میں کیا
سارا جنگل ہے سانس روکے ہوئے
ہے شکاری کوئی مچان میں کیا
یہ جو رستہ بنا ہے لوگوں کا
ٹوٹی دیوار ہے مکان میں کیا
اس نُچی لاش پر کھڑے ہیں جو گدھ
مال باقی ہےکچھ دکان میں کیا
ایک دریا نے جھیل سے پوچھا
کچھ سکوں ہے تری امان میں کیا
یہ جو سنتے ہیں شوق سے سب لوگ
کچھ نئی بات ہے بیان میں کیا
یہ زمانہ ہے شور کا عادی
کہہ رہا ہے دبی زبان میں کیا
ساری دنیا ہے اس کی مدح سرا
میں نیا لکھوں اس کی شان میں کیا
شوقِ پرواز نے سوال کیا
ہوں میں محدود آسمان میں کیا
خالی دیوار پوچھتی ہے شکیل
گھر بنا تھا کبھی مکان میں کیا
گو جناب سید عاطف علی اور جناب عرفان علوی کے کلام کے آگے چراغ کو سورج دکھانے والی بات ہے
بھید ہے اتنی آن بان میں کیا
تم کو شک ہے تمہاری شان میں کیا
سارا جنگل ہے سانس روکے ہوئے
ہے شکاری کوئی مچان میں کیا
یہ جو رستہ بنا ہے لوگوں کا
ٹوٹی دیوار ہے مکان میں کیا
اس نُچی لاش پر کھڑے ہیں جو گدھ
مال باقی ہےکچھ دکان میں کیا
ایک دریا نے جھیل سے پوچھا
کچھ سکوں ہے تری امان میں کیا
یہ جو سنتے ہیں شوق سے سب لوگ
کچھ نئی بات ہے بیان میں کیا
یہ زمانہ ہے شور کا عادی
کہہ رہا ہے دبی زبان میں کیا
ساری دنیا ہے اس کی مدح سرا
میں نیا لکھوں اس کی شان میں کیا
شوقِ پرواز نے سوال کیا
ہوں میں محدود آسمان میں کیا
خالی دیوار پوچھتی ہے شکیل
گھر بنا تھا کبھی مکان میں کیا