گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا ۔ اظہرؔ عنایتی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
لیکن تمام شہر اُجالے میں آ گیا

یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا

اب تو محبتوں کا محبت سے دے جواب
میں خود سے ہار کر ترے خیمے میں آگیا

کچھ دیر تک تو اُس سے مری گفتگو رہی
پھر یہ ہوا کہ وہ مرے لہجے میں آ گیا

آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی
مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ گیا

ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے
یہ کون آئنوں کے قبیلے میں آ گیا

اظہؔر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آگیا

٭٭٭
(اظہرؔ عنایتی)​
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ غزل بہت عرصہ پہلے ایک شعری نشست میں کسی نے ترنم سے سنائی تھی۔ اور میں نے یادداشت کے سہارے لکھ کر پوسٹ کی تھی ۔ اب ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ مقطع کا مصرع اول درست نہیں لکھا ۔ مقطع دراصل یوں ہے :
اظہؔر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آگیا

محمد خلیل الرحمٰن بھائی سے درخواست ہے کہ براہِ کرم مقطع کی تصحیح کردی جائے ۔ شکرگزار رہوں گا ۔
 
یہ غزل بہت عرصہ پہلے ایک شعری نشست میں کسی نے ترنم سے سنائی تھی۔ اور میں نے یادداشت کے سہارے لکھ کر پوسٹ کی تھی ۔ اب ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ مقطع کا مصرع اول درست نہیں لکھا ۔ مقطع دراصل یوں ہے :
اظہؔر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آگیا

محمد خلیل الرحمٰن بھائی سے درخواست ہے کہ براہِ کرم مقطع کی تصحیح کردی جائے ۔ شکرگزار رہوں گا ۔
تعمیل ہوئی!
 
Top