ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
لیکن تمام شہر اُجالے میں آ گیا
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
اب تو محبتوں کا محبت سے دے جواب
میں خود سے ہار کر ترے خیمے میں آگیا
کچھ دیر تک تو اُس سے مری گفتگو رہی
پھر یہ ہوا کہ وہ مرے لہجے میں آ گیا
آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی
مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ گیا
ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے
یہ کون آئنوں کے قبیلے میں آ گیا
اظہؔر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آگیا
٭٭٭
(اظہرؔ عنایتی)
لیکن تمام شہر اُجالے میں آ گیا
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
اب تو محبتوں کا محبت سے دے جواب
میں خود سے ہار کر ترے خیمے میں آگیا
کچھ دیر تک تو اُس سے مری گفتگو رہی
پھر یہ ہوا کہ وہ مرے لہجے میں آ گیا
آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی
مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ گیا
ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے
یہ کون آئنوں کے قبیلے میں آ گیا
اظہؔر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آگیا
٭٭٭
(اظہرؔ عنایتی)
مدیر کی آخری تدوین: