تہذیب
محفلین
ملک بوٹا ادیب گاؤں سے شہر جابسا، وہ اپنے ساتھ دیسی انڈے دینے والی ایک دیسی مرغی بھی لے گیا۔ مرغی روز انڈا دیتی، جس کو ملک بوٹا ادیب شوق سے کھاتا۔
ویسے تو مرغی بہت وفادار تھی، لیکن ایک دن اسنے غلطی سےانڈا پڑوسی کے جا کے دے دیا۔ ملک بوٹا ادیب کو انڈا نہ ملا تو اس نے تفتیش کرنا شروع کردی کہ انڈا کہاں گیا؟ پڑوسی جو ایک وکیل تھا، سے پوچھا تو وکیل نے اعتراف کیا انڈا اس کے پاس ہے، لیکن وہ واپس نہیں کرے گا کیونکہ انڈا اس کی ملکیتی اراضی و حدود میں دیا گیا ہے اس لیے قانونی طور اس کا حق بنتا ہے۔ ملک بوٹا ادیب بضد تھا کہ مرغی چونکہ اس کی ہے اس لیے انڈا اس کے حوالے کیا جائے۔ بات طول پکڑ گئ۔ اور تکرار ہونے لگی۔
بالآخر ملک بوٹا ادیب نے کہا کہ میں دیہاتی پینڈو لوگ ہوں، ہمارے ہاں ایسی باتوں کا فیصلہ مردانہ طریقے سے ہوتا ہے، دونوں فریق ایک دوسرے کو مکا مارتے ہیں، جو بھی مخالف کے مکے سے جلدی سنبھل جائے وہ جیت جاتا ہے، اور متنازعہ چیز پر اس کا حق تسلیم کرلیاجاتا ہے۔
شہری وکیل جو ہٹا کٹا اورموٹے تازے تن و توش کا مالک بھی تھا، نے ملک بوٹا ادیب کو دیکھ کر چیلنج قبول کرلیا۔
چونکہ انڈے کی ملکیت کا دعوی ملک بوٹا ادیب کررہا تھا، اور وکیل دینے سے انکاری تھا اس لیے پہلا مکا ملک بوٹا ادیب نے مارنا تھا۔
ملک بوٹا ادیب نے دو قدم پیچھے ہٹ کر پوری قوت کے ساتھ مکا سیدھا وکیل کی ناک پر مارا۔ وکیل درد سے دوہرا ہوگیا، وکیل درد سے بے حال ہو کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا، اور ناک کو ہاتھ سے تھام کر کراہنے لگا۔اس کی ناک سے خون نکلنے لگ گیا اور وہ پکوڑے مافک سرخ ہوگئ، اور سوج بھی گئ۔ کوئی تیس منٹ بعد وکیل سنبھلا، اٹھا اور اپنا مکا مارنے کی تیاری کرنے لگا۔ ملک بوٹا ادیب جو اتنی دیر میں آرام سے اور صبر سے سب کچھ دیکھ رہا تھا،نے وکیل کو کہا کہ چلو تم جیت گئے، انڈے تم ہی رکھ لو۔
ویسے تو مرغی بہت وفادار تھی، لیکن ایک دن اسنے غلطی سےانڈا پڑوسی کے جا کے دے دیا۔ ملک بوٹا ادیب کو انڈا نہ ملا تو اس نے تفتیش کرنا شروع کردی کہ انڈا کہاں گیا؟ پڑوسی جو ایک وکیل تھا، سے پوچھا تو وکیل نے اعتراف کیا انڈا اس کے پاس ہے، لیکن وہ واپس نہیں کرے گا کیونکہ انڈا اس کی ملکیتی اراضی و حدود میں دیا گیا ہے اس لیے قانونی طور اس کا حق بنتا ہے۔ ملک بوٹا ادیب بضد تھا کہ مرغی چونکہ اس کی ہے اس لیے انڈا اس کے حوالے کیا جائے۔ بات طول پکڑ گئ۔ اور تکرار ہونے لگی۔
بالآخر ملک بوٹا ادیب نے کہا کہ میں دیہاتی پینڈو لوگ ہوں، ہمارے ہاں ایسی باتوں کا فیصلہ مردانہ طریقے سے ہوتا ہے، دونوں فریق ایک دوسرے کو مکا مارتے ہیں، جو بھی مخالف کے مکے سے جلدی سنبھل جائے وہ جیت جاتا ہے، اور متنازعہ چیز پر اس کا حق تسلیم کرلیاجاتا ہے۔
شہری وکیل جو ہٹا کٹا اورموٹے تازے تن و توش کا مالک بھی تھا، نے ملک بوٹا ادیب کو دیکھ کر چیلنج قبول کرلیا۔
چونکہ انڈے کی ملکیت کا دعوی ملک بوٹا ادیب کررہا تھا، اور وکیل دینے سے انکاری تھا اس لیے پہلا مکا ملک بوٹا ادیب نے مارنا تھا۔
ملک بوٹا ادیب نے دو قدم پیچھے ہٹ کر پوری قوت کے ساتھ مکا سیدھا وکیل کی ناک پر مارا۔ وکیل درد سے دوہرا ہوگیا، وکیل درد سے بے حال ہو کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا، اور ناک کو ہاتھ سے تھام کر کراہنے لگا۔اس کی ناک سے خون نکلنے لگ گیا اور وہ پکوڑے مافک سرخ ہوگئ، اور سوج بھی گئ۔ کوئی تیس منٹ بعد وکیل سنبھلا، اٹھا اور اپنا مکا مارنے کی تیاری کرنے لگا۔ ملک بوٹا ادیب جو اتنی دیر میں آرام سے اور صبر سے سب کچھ دیکھ رہا تھا،نے وکیل کو کہا کہ چلو تم جیت گئے، انڈے تم ہی رکھ لو۔