طارق شاہ
محفلین
غزلِ
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے دل! کوئی انیسِ شبِ تار بھی تو ہو
گر ہم نہیں تو رونقِ بازارِعِشق کیا
اے حُسنِ خود فروش! خریدار بھی تو ہو
پردے میں چاہتا ہے ، کہ ہنگامہ ہو بَپا
اے آفتابِ حشر! نمودار بھی تو ہو
اِتنی اُداس صُحبتِ مے ، واہ میکشو
دستِ سبو میں شیخ کی دستار بھی تو ہو
زاہد! اُمیدِ رحمتِ حق اور ہجوئے مے
پہلے شراب پی کے گنہگار بھی تو ہو
ساقی ابھی سے جاؤں میں کیا بہرِ میکشی
آئے بہار، رونقِ گُلزار بھی تو ہو
بیجا تِری نِگاہ کو تیزی پہ ہے گُھمنڈ
برچھی کی نوک دِل سے مِرے پار بھی تو ہو
سوؤں میں آکے، دھوپ سے پاؤں اماں، اگر
راضی تمھارا سایۂ دِیوار بھی تو ہو
کیونکر ہو دردِ دِل کی ہمارے اُسے خبر
پردے میں خامشی کے کچھ اظہار بھی تو ہو
ساقی اداس کیوں نہ ہو بزمِ مے و سبو!
میخانے میں امیر سا میخوار بھی تو ہو
امیرمینائی
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے دل! کوئی انیسِ شبِ تار بھی تو ہو
گر ہم نہیں تو رونقِ بازارِعِشق کیا
اے حُسنِ خود فروش! خریدار بھی تو ہو
پردے میں چاہتا ہے ، کہ ہنگامہ ہو بَپا
اے آفتابِ حشر! نمودار بھی تو ہو
اِتنی اُداس صُحبتِ مے ، واہ میکشو
دستِ سبو میں شیخ کی دستار بھی تو ہو
زاہد! اُمیدِ رحمتِ حق اور ہجوئے مے
پہلے شراب پی کے گنہگار بھی تو ہو
ساقی ابھی سے جاؤں میں کیا بہرِ میکشی
آئے بہار، رونقِ گُلزار بھی تو ہو
بیجا تِری نِگاہ کو تیزی پہ ہے گُھمنڈ
برچھی کی نوک دِل سے مِرے پار بھی تو ہو
سوؤں میں آکے، دھوپ سے پاؤں اماں، اگر
راضی تمھارا سایۂ دِیوار بھی تو ہو
کیونکر ہو دردِ دِل کی ہمارے اُسے خبر
پردے میں خامشی کے کچھ اظہار بھی تو ہو
ساقی اداس کیوں نہ ہو بزمِ مے و سبو!
میخانے میں امیر سا میخوار بھی تو ہو
امیرمینائی