محمد مبین امجد
محفلین
کہتے ہیں سوچ کے پرندوں کو بدن کی قید سے آزاد کرکے موت نہ دو ۔ یہ پرندے تمہاری روحیں ہیں اور سوچ کے پر بہت جلد پروان چڑھتے ہیں۔
ایک بار یہ سوچ لب سے آزاد ہوئی تو مر گئی۔۔۔ پھر وہ سوچ تمہاری سوچ نا رہی بلکہ پرائی ہو گئی۔ جسے کوئی بھی اپنا سکتا ہے۔
مگر زندگی ہے نا، کبھی نا کبھی تو اپنے اندر کی تنہائی سے فرار پانے کیلیے بولنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ ریحان ذات سے عرفان ذات کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے مگر سفر ہی تو ہے جسے طے کرنا بہرحال انسان کا مقدر ٹھہرایا گیا۔ اور اس سفر کی منزل پانے کو کوئی مسجد مندر میں بسیرا کرتا ہے، کوئی درباروں مزاروں کا رخ کرتا ہے۔ اسکے باوجود بہت کم ہوتے ہیں جو اس منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔
جو منزل پا لیں وہ ہر شے سے ماورا ہو جاتے ہیں انہیں ہر طرف بس وہی نظر آتا ہے۔ پھر کوئی حلاج اگر پھانسی چڑھ جائے تو اچنبھا کاہے کا۔۔۔؟
بھئی وہ تو اپنی اصل کو پا گیا کہ شاعر نے بھی یہ کہا
گڑھا ٹوٹا تو یہ آواز آئی
نہیں ہے دونوں میں اب کوئی جدائی
جو منزل پا لیں وہ ہر شے سے ماورا ہو جاتے ہیں انہیں ہر طرف بس وہی نظر آتا ہے۔ پھر کوئی حلاج اگر پھانسی چڑھ جائے تو اچنبھا کاہے کا۔۔۔؟
بھئی وہ تو اپنی اصل کو پا گیا کہ شاعر نے بھی یہ کہا
گڑھا ٹوٹا تو یہ آواز آئی
نہیں ہے دونوں میں اب کوئی جدائی