رئیس امروہوی ںظم : جسارت - رئیس امروہوی

جسارت
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

اگر اس عہد کی تکمیل نہ کر سکتی تھیں
دل کے احکام کی تعمیل نہ کر سکتی تھیں
اپنے ماحول کو تبدیل نہ کر سکتی تھیں

تم نے کیوں جراَتِ پیمانِ محبت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

میں نہ کہتا تھا کہ حالات سے مجبور ہو تم؟
رسم و دستور و روایات سے مجبور ہو تم؟
ہر اک اقدام ہر اک بات سے مجبور ہو تم؟

ہائے کیا سوچ کے کمبخت یہ ہمّت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

عہدِ اُلفت کا نتیجہ تمہیں معلوم نہ تھا
اس محبت کا نتیجہ تمہیں معلوم نہ تھا
کیا بغاوت کا نتیجہ تمہیں معلوم نہ تھا

کس بھروسے پہ مری جان ! بغاوت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

آج روتی ہو کہ رونے کی اجازت بھی نہیں
آج نالاں ہو کہ فرہاد کی رخصت بھی نہیں
اب یہ شکوہ کہ یہاں اذنِ شکایت بھی نہیں

تم نے پہلے بھی کسی سے یہ شکایت کی تھی !
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

اب یہ کہتی ہو کہ میں پیار نہیں کر سکتی
جذبۂ شوق کا اظہار نہیں کر سکتی
کوئی وعدہ کوئی اقرار نہیں کر سکتی

پہلے کیوں وعدہ و اقرار کی زحمت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

اب یہ کہتی ہو کہ قسمت کی خبر تھی نہ مجھے
اپنی کمزوریِ فطرت کی خبر تھی نہ مجھے
کچھ بھی انجام محبت کی خبر تھی نہ مجھے

مجھ پہ آغاز میں کیوں اتنی عنایت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

وقت و ماحول کی زنجیر سے آزاد تھیں تم ؟
نہیں اک طاہرِ پربستہ و ناشاد تھیں تم
زندگی کے قفسِ تنگ میں آباد تھیں تم

تم نے کس واسطے پرواز کی جراَت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی

اب نہ ہو اتنی پریشان ! نتیجہ کیا ہے ؟
نہ کرو مجھ کو پشیمان ! نتیجہ کیا ہے ؟
آج رونے سے مری جان ! نتیجہ کیا ہے ؟

اب نہ میں تم سے کہوں گا کہ حماقت کی تھی
تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی
رئیسؔ امروہوی
 
Top