عزیز حامد مدنی ںظم : جواب - عزیز حامد مدنی

جواب
سمندر کے کنارے تھا ہوا میں رقصِ منصوری
پگھلتی تھی غروبِ مہر سے نزدیکی و دوری
گراں تھا روحِ عالم پر کوئی آئینِ مجبوری

دلِ وحشی سے سرگوشی میں خود موجِ ہوا کیا تھی
تغیّر کے ورق پر حرفِ تازہ کے سوا کیا تھی

وہ ماہ و سال جو تہذیب کے پیکار میں کم تھے
نوامیسِ جنونِ جبر کے آثار میں کم تھے '
وہ سارے کارواں جو گرمیِ رفتار میں کم تھے

غبارِ کُو بہ کُو سے اس طرح پابندِ جادو تھے
مآلِ زندگی کی جستجو میں سر بہ زانو تھے

غمِ دانش کی ساری وسعتیں تھیں پیچ و خم رکھتیں
سبک قطروں میں ایجادیں خروشِ موجِ یم رکھتیں
سرِ میزاں ہوائیں تھیں مآلِ بیش کم رکھتیں

لباسِ نو میں تھی تاریخ خود مجروحِ بے تابی
کھلی تھی آنکھ میں خارِ مغیلاں کی سی بے خوابی

کہا میں نے کہ اے چشمِ جہاں بیں ، محرمِ عالم
اشاراتِ نوی کے سلسلہ جنباں ہے تو پیہم
ہوائے دشت و در میں کس طرف ہے منزلِ آدم

تصادم زاویہ ہائے نظر کے، وار دانش کے
نہیں کھلتے ہیں ہم ایسوں پہ کچھ اسرار دانش کے

جواب اس نے دیا اے جہلِ بے آگاہ کے حامی
مری نظروں میں ہیں ہنگامہ ہائے عارف و عامی
سوادِ ارتقا میں ہے غمِ منزل بھی اک خامی

مزاجِ آب و آتش خود رخِ فردا کا محرم ہے
بساطِ دہر میں نفسِ تغیّر روحِ عالم ہے

ابھی ہے نیم وا ادراکِ نو کا ایک دروازہ
غبارِ زحل و زہرہ علم کے رخ پر ہوا غازہ
ہوئی ہے روحِ انساں کی رفیق اک آگہی تازہ

رصدگاہوں کے خط ٹکرا رہے ہیں مہر کی ضو سے
یدِ بیضا ہوا ہے زرد رُو اک آتشِ نو سے

خیالوں میں ہیں رشتے وقت کی کھنچتی طنابوں کے
رمِ سیّارگاں سے آتشیں جادے ہیں خوابوں کے
سوادِ ماہ تک اعشاریے ہیں اب حسابوں کے

نظر جلتی ہے جن کے بال و پر سے ایسے سودائی
نکل آئے ہیں کیا کیا خاکِ انجم کے تماشائی

فساد اک علم بے آگاہ سے اٹھتا رہا کیا کیا
دھواں الفاظ کے جنگاہ سے اٹھتا رہا کیا کیا
غبارِ نطق برسوں راہ سے اٹھتا رہا کیا کیا

مزاجِ ابر و ذوقِ کشت ہو جب غم گساری میں
تغیّر فکرِ نو کے بیج بو دیتا ہے کیاری میں

مرے دامن میں ہے تشنہ لبوں کا ذوقِ سیرابی
اسی سے وقتِ تازہ کار میں ہے خوئے کم یابی
رمِ دریا کی صورت معملوں میں ان کے بے خوابی

تماشا گاہ ساحل کو اک آئینہ دکھاتی ہے
یہیں تاریخ قندیلیں بجھاتی ہے ، جلاتی ہے
عزیز حامد مدنی
1980ء
 
آخری تدوین:
Top