عبدالرحمن سید
محفلین
پردیس میں اپنے دیس کی بہت یاد آتی ھے،!!!!!
کبھی کبھی میں خاموش بیٹھا اپنے وطن کو یاد کرتا ھوں، کبھی اپنے ملک کے ھمالیہ کی برف پوش چٹانوں سے لے کر سمندر کے کناروں کی مچلتی موجوں کے آپس کے اس رشتے کے بارے میں سوچتا ھوں، کہ دیکھنے میں تو ایک طویل فاصلہ ھے لیکن ان کا رشتہ ایک دوسرے سے بہت ھی قریب تر اور مضبوط جڑا ھوا ھے،!!!
وہ پہاڑوں کی جمی ھوئی دودھیہ برف آئی کہاں سے،؟؟؟؟ اسی سمندر سے،!!!!
اور یہ برف پگھل کر بہتی گئی کہاں پر،؟؟؟؟؟ اسی سمندر میں،!!!!!!
کاش ھم اپنے پیارے وطن کے ان قدرتی وسائل کے حسین مناظر کے آپس کے مضبوط رشتوں سے ھی کچھ سبق لے سکتے،؟؟؟؟؟!!!!!!!!!
برف تو پگھلتی ھے، پھر جا بہتی ھے دریاؤں میں اور سپرد سمندر ھوجاتی ھے،!!!!!!!!!!!
لیکن گردش زمانہ، گھٹاؤں کے سنگ پھر اسے اُڑا لے جاتا ھے،
کبھی بہا دیتا ھے میدانوں میں،
کبھی حوالے تپتے صحراؤں میں،
کبھی بچھا دیتا ھے واپس ان ھی،
ھمالیہ کی سرد چٹانوں میں !!!!!!!!!
یاد میں تیر ے پگھلتے آنسوؤں کے سنگ، پھر اگلی بہار میں،
تڑپتی ھوئی آبشاروں کے ساتھ،
روتی بہتی ھوئی، سنگ ریزوں کے ساتھ،
سنگ لاخ چٹانوں کو چیرتی ھوئی، پتھروں ٹھوکروں کے ساتھ،
پھر انہیں سرسبز وادیوں کو سیراب کرتی، اٹھلاتی دریاؤں میں،
جا پہنچتی ھے پھر، اسی تیرے شہر خموشاں،
اور ڈوب جاتی ھے آخر، پھر وھی سمندر کی موجوں میں !!!!!!!!!!!!!!!!
وہ رات کا ایک سناٹا سا، ڈوبتی ھوئی ناؤ سمندر میں جیسے
واپس ھوتی پھر ٹکراتی، تیرے شہر کے بچھے سنگ کناروں سے
ایک شور سا سنائی دیتا، ایک چیخ تیرے شہر خموشاں میں،
کوئی کیا سنے تیری فریاد، ھر کوئی مگن اپنے ھی پیاروں سے
کبھی کبھی میں خاموش بیٹھا اپنے وطن کو یاد کرتا ھوں، کبھی اپنے ملک کے ھمالیہ کی برف پوش چٹانوں سے لے کر سمندر کے کناروں کی مچلتی موجوں کے آپس کے اس رشتے کے بارے میں سوچتا ھوں، کہ دیکھنے میں تو ایک طویل فاصلہ ھے لیکن ان کا رشتہ ایک دوسرے سے بہت ھی قریب تر اور مضبوط جڑا ھوا ھے،!!!
وہ پہاڑوں کی جمی ھوئی دودھیہ برف آئی کہاں سے،؟؟؟؟ اسی سمندر سے،!!!!
اور یہ برف پگھل کر بہتی گئی کہاں پر،؟؟؟؟؟ اسی سمندر میں،!!!!!!
کاش ھم اپنے پیارے وطن کے ان قدرتی وسائل کے حسین مناظر کے آپس کے مضبوط رشتوں سے ھی کچھ سبق لے سکتے،؟؟؟؟؟!!!!!!!!!
برف تو پگھلتی ھے، پھر جا بہتی ھے دریاؤں میں اور سپرد سمندر ھوجاتی ھے،!!!!!!!!!!!
لیکن گردش زمانہ، گھٹاؤں کے سنگ پھر اسے اُڑا لے جاتا ھے،
کبھی بہا دیتا ھے میدانوں میں،
کبھی حوالے تپتے صحراؤں میں،
کبھی بچھا دیتا ھے واپس ان ھی،
ھمالیہ کی سرد چٹانوں میں !!!!!!!!!
یاد میں تیر ے پگھلتے آنسوؤں کے سنگ، پھر اگلی بہار میں،
تڑپتی ھوئی آبشاروں کے ساتھ،
روتی بہتی ھوئی، سنگ ریزوں کے ساتھ،
سنگ لاخ چٹانوں کو چیرتی ھوئی، پتھروں ٹھوکروں کے ساتھ،
پھر انہیں سرسبز وادیوں کو سیراب کرتی، اٹھلاتی دریاؤں میں،
جا پہنچتی ھے پھر، اسی تیرے شہر خموشاں،
اور ڈوب جاتی ھے آخر، پھر وھی سمندر کی موجوں میں !!!!!!!!!!!!!!!!
وہ رات کا ایک سناٹا سا، ڈوبتی ھوئی ناؤ سمندر میں جیسے
واپس ھوتی پھر ٹکراتی، تیرے شہر کے بچھے سنگ کناروں سے
ایک شور سا سنائی دیتا، ایک چیخ تیرے شہر خموشاں میں،
کوئی کیا سنے تیری فریاد، ھر کوئی مگن اپنے ھی پیاروں سے